کمشنر راولپنڈی کو الیکشن کے 9 دن بعد اچانک احساس ہوا کہ انہوں نے ملک و قوم کے ساتھ ''زیاستی'' کردی ہے اور انہیں اپنی جان لے لینی چاہیے۔ اس کے بعد انہیں الہام ہوا کہ نہیں، چونکہ میرا امریکا کا مبینہ ویزا آچکا ہے لہٰذا میں سب کچھ ملک و قوم کو سچ بتا کر ہی اس ملک سے جاؤں گا۔ اس کے لیے انہوں نے پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں ایک بھرپور پریس کانفرنس کی، جس کے بعد مولانا کی جانب سے پھینکا گیا بم شرلی کی صورت غائب ہوگیا اور کمشنر صاحب عالمی افق پر چھا گئے۔
نئے نئے ''سابق'' ہونے والے کمشنر راولپنڈی نے ایک نیا ''کٹا'' کھولتے ہوئے ''اعتراف'' کیا کہ انہوں نے ہارے ہوئے امیدواروں کو ستر ہزار کی لیڈ سے جتوایا ہے اور انہیں اس کا افسوس ہے۔ لہٰذا انہیں پنڈی میں پھانسی دی جائے۔ لیکن، انہوں نے ایک اور شرط بھی رکھی ہے کہ میں نے اکیلے پھانسی کے پھندے کو ''پپی'' نہیں کرنی ہے، میرے ساتھ ساتھ چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف الیکشن کمشنر بھی لٹکائے جائیں۔ بھئی واہ! یہ ہالی ووڈ کی مووی ہے یا بالی ووڈ کی؟
خیر، آگے بڑھتے ہیں۔ دونوں چیف صاحبان کی طرف سے تردید آگئی ہے۔ اس میں حیرانگی کی کوئی بات نہیں، اگر تصدیق آجاتی تو یقیناً ہم سب کی آنکھیں باہر آجاتیں۔ پنجاب کے منسٹر عامر میر کا کہنا ہے کہ موصوف ذہنی کھسکے ہوئے ہیں۔ ان پر پراپرٹی ٹائیکون سے تعلق کا بھی الزام ہے، جس کی انہوں نے تردید کردی ہے۔ ان پر میاں اسلم اقبال سے تعلق کا بھی الزام ہے اور سوشل میڈیا تو ان پر الزامات کی بھرمار کررہا ہے۔ مجھے خطرہ ہے کہ اس لہر میں کہیں کمشنر پنڈی کا تعلق نیتن یاہو سے ہی نہ نکل آئے۔
کیا کمشنر لیاقت علی چٹھہ کا ذہنی توازن خراب ہے؟ میرا ذاتی خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ سول سرونٹ کے دماغ اتنی آسانی سے خراب نہیں ہوتے۔ یہ زمین کے خدا ہیں، ان کے دماغوں میں برتری کا خناس بھرا ہوتا ہے۔ ان کے دماغ اتنی آسانی سے خراب نہیں ہوتے ہیں، البتہ یہ دوسروں کے دماغ خراب کرنے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ اب کمشنر صاحب کے انکشافات اور اس سے جڑے دیگر پہلوؤں کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
سب سے پہلے ٹائمنگ اہم ہے۔ اپنی ریٹائرمنٹ سے ذرا پہلے انہوں نے سسٹم پر بہت گہرا وار کیا ہے۔ یہ وار بھی اس وقت کیا ہے جب ان کے پاس مبینہ طور پر امریکا کا ویزا آگیا ہے۔ انہوں نے شاید یہی سوچا ہوگا کہ اب چونکہ کیرئیر اختتام کی جانب ہے تو سب سے پہلے پوسٹ ریٹائرمنٹ انشورنس کی جائے اور اس کےلیے اس سے بہتر کوئی موقع نہیں تھا۔ البتہ، ان کی پلاننگ ٹھیک نہیں تھی اور انہوں نے اپنے ہی لکھے ہوئے اسکرپٹ کی باریکیوں پر غور نہیں کیا۔ کیسے؟
نگران حکومتوں کے وزرائے اعلیٰ بہت سے صحافی بھی رہے ہیں۔ وہ الیکشن کے اس عمل کو قریب سے جانتے ہیں۔ الیکشن سے پہلے ہر ڈسٹرکٹ اور ڈویژن کی سطح پر ایک کمیٹی بنتی ہے جس میں ایجنسیوں کے لوگ اور سول انتظامیہ کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ الیکشن جیسے ہوتا ہے اس میں ڈپٹی کمشنر تک کا عہدہ تو شامل ہوتا ہے لیکن اس میں کمشنر کا نہ کوئی کردار ہوتا ہے اور نہ ہی کا کوئی اختیار ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ کمشنر کے علم میں سب کچھ ہوتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب بالکل نہیں کہ کمشنر بربنائے عہدہ کسی بھی الیکشن پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔
کمشنر نے اپنے الزامات میں اسٹیبلشمنٹ کو کلین چٹ دی ہے۔ کیا اسٹیبلشمنٹ کا کام الیکشن کروانا ہوتا ہے؟ جی نہیں! تو جب ایک ادارہ پورے پروسیس میں شامل ہی نہیں ہے تو اس کو کلین چٹ دینے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا کمشنر صاحب اسٹیبلشمنٹ کو کلین چٹ دے رہے ہیں یا پھر ان سے کلین چٹ لینے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اسٹیبلشمنٹ پر الزامات سیاسی جماعتیں لگا رہی ہیں اور یہ ہر الیکشن کے بعد ہوتا ہے۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر ہارنے والا اپنی شکست کا 'ہار' اسٹیبلشمنٹ کے گلے میں ڈالنے کی کوشش بھی کرتا ہے تاکہ اس کا ووٹر کسی طرح مطمئن ہوسکے۔ اسی طرح چیف جسٹس صاحب کو بھی اس معاملے میں گھسیٹ لیا گیا ہے۔ ان کا بھی پورے پروسیس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ان کے پاس بھی کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ چیف الیکشن کمشنر کے پاس البتہ اختیارات موجود ہوتے ہیں لیکن کیا ایک غیر متعلقہ شخص بغیر کسی ثبوت کے کسی متعلقہ شخص پر محض الزام تراشی کرسکتا ہے، جبکہ وہ ایک اہم اور ذمے دار عہدے پر فائز ہو؟
اب اس الزام کے بعد کیا کمشنر صاحب کچھ بھی ثابت کرسکیں گے؟ بالکل بھی نہیں! عدالت جذبات سے نہیں بلکہ دلائل کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہے اور اس کی تحقیقات کے بعد فیصلہ میرٹ پر ہی ہوگا۔ اگر الزام لگانے والا اس کو ثابت کرنے میں ناکام ہوجائے تو پھر ظاہر ہے قانون میں اس کی سزا اپنی جگہ موجود ہے۔
اگر ہم پنڈی ڈویژن کو دیکھتے ہیں تو وہاں سے کوئی ایک امیدوار بھی ایسا نہیں جو 50 یا 70 ہزار کی لیڈ سے جیتا ہو۔ انہوں نے کون سے امیدواروں کی لیڈ تبدیل کی ہے اور کیسے کی ہے؟ دوسری اہم بات ان کی باڈی لینگویج کی ہے۔ جس انسان نے اتنا بڑا کام کیا ہو اور وہ خودکشی کے دہانے سے واپس آئے، اس کی باڈی لینگویج کم از کم ایسی تو ہرگز نہیں ہوتی۔ ان کا اعتماد، ان کے الفاظ، الفاظ کا چناؤ، کسی بھی طرح ان کے دعوے کا ساتھ ہی نہیں دے رہے تھے۔
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ان الزامات کا فائدہ کس کو ہورہا ہے؟ اس جواب کے جواب میں ہی شاید پوری کہانی ہے۔ مجھے امید ہے کہ ان الزامات کو انتہائی سنجیدگی سے لیا جائے گا اور پھر جھوٹا الزام لگانے والے کو نشان عبرت بھی بنایا جائے گا تاکہ دوبارہ کوئی ایسی حرکت نہ کرسکے۔ چیف جسٹس صاحب نے تو گرہ کن دلیل لگائی ہے کہ الزام لگانا آپ کا حق ہے، تو ثابت کرنا بھی آپ کی ذمے داری ہے۔ یہاں میری چیف جسٹس سے ویسے دست بستہ گزارش ہے کہ اس کیس کو ایک مثال بنایا جائے کہ یا تو یہ صاحب الزام ثابت کریں وگرنہ ان کو ایسی عبرتناک سزا دی جائے کہ دوبارہ پاکستان میں کوئی ایسے منہ اٹھا کر الزام نہ لگائے۔ اگر الزام لگایا ہے تو اس کو ثابت کرنا بھی اس کی ذمے داری ہے۔ پاکستان میں الٹی گنگا بہتی ہے، کوئی بھی منہ اٹھا کر جھوٹا الزام لگا دیتا ہے اور پھر جس پر الزام لگا ہوتا وہ بے چارہ خود کو کلیئر کروانے میں ذلیل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔