سیاسی قیادت عوام کو اعتماد میں لے
ہم 76 سال گزرنے کے باوجود اپنی معیشت کو ٹھوس بنیادوں پر استوار نہیں کرسکے
عام انتخابات ہوچکے، عوام اپنا فیصلہ سنا چکے ہیں، اب اگلا مرحلہ حکومت سازی کا ہے۔ قومی صوبائی اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشنز واضح ہونے پر حکومت سازی کے لیے رابطے اور کوششیں تیز ہوچکی ہیں، سیاسی جماعتوں کی طرف سے اعلیٰ عہدوں کے لیے نامزدگیاں بھی سامنے آچکی ہیں۔
ہفتہ دس دن میں قومی اسمبلی کا اجلاس بھی منعقد ہوگا، لیکن دوسری جانب الیکشن کے نتائج کے خلاف شاہراہوں پر احتجاجی دھرنے بھی دیے گئے ہیں، وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ سیاسی قیادت انتخابات کے نتائج کوتسلیم کرے، عوام نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے جن نمایندوں کو حکومت بنانے کا مینڈیٹ دیا ہے، تمام سیاسی جماعتوں کو اس کا احترام کرنا چاہیے۔
چند برسوں میں سیاست کا انداز تبدیل ہوگیا ہے ، جہوریت کا نقاب پہن کر فسطائیت پرست میڈیا کے مختلف ٹولز استعمال کرکے ملک میں بے یقینی، ناامیدی پیدا کر رہے ہیں، ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ریاستی ڈھانچے کو ڈس کریڈٹ کرنے کے لیے سوشل میڈیا ٹولز کے ذریعے پراپیگنڈا کیا جارہا ہے، کچھ پاکستانی باشندے غیرممالک میں بیٹھ کر اپنے ہی ملک کی سالمیت کے خلاف کام کررہے ہیں، حکومت کو ایسے ڈبل شہریت والے پاکستانیوں کے بارے کوئی قانون سازی کرنی چاہیے۔
ادھر ملک کی سیاست میں اس سے بھی زیادہ خطرناک رجحان نے فروغ پایا ہے وہ یہ ہے کہ مخالف سیاسی شخصیات پر بے بنیاد الزامات عائد کیے جائیں، حالیہ الیکشن اس کی مثال ہے کہ ہر پارٹی اپنے مرضی کے نتائج چاہتی ہے، اعلیٰ عدلیہ کا وقت ضایع کرنے کے لیے درخواستیں دائر کرنے کا رجحان بڑھا ہے اور ملک کے نامور وکلا اس رجحان کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔
ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت عوام میں یہ سوچ پیدا کی گئی کہ کسی کی جیت کو تسلیم نہیں کرنا، کسی کی فتح کو ماننا نہیں ہے، کسی کو اہمیت نہیں دینی، جو انتخابی نتیجہ مرضی کا نہیں ہے ، اسے کسی صورت قبول نہیں کرنا ، جھوٹ بولنا ہے اور دبا کر بولنا ہے اور بولتے ہی چلے جانا ہے، اپنی غلطی تسلیم نہیں کرنی اور دوسروں کی خامی کو چھوڑنا نہیں، ہر حال میں مخالف کو اس ملک کے لیے تباہ کن ثابت کرنا ہے، اپنی ایک لگائی اینٹ کو تاج محل ثابت کرنا ہے اور مخالف حکومت کے تعمیرکردہ محل کو قبرستان بنا کر پیش کرنا ہے۔
مخصوص سوچ کے حامل افراد کو اس انداز میں تیار کیا گیا ہے کہ وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی کھو بیٹھے ہیں، اگر کوئی اپنی جماعت کو ووٹ ڈالتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ دنیا کے تمام انسانوں نے اسی جماعت کو ووٹ ڈالا ہے، جس امیدوار کو اس نے ووٹ دیا ہے وہ تو ہار ہی نہیں سکتا، کیا یہی جمہوریت ہے، کیا جمہوریت صرف انتخابات جیتنے کا نام ہے۔ سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے یہ کن الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں وہ ان کی سوچ کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں اور یہ تعداد میں خاصے ہیں۔
ملک کو اندرونی و بیرونی طور پر جن چیلنجز کا سامنا ہے اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے جمہوریت اور پارلیمنٹ کو اپنا بالادست کردار سنبھالنا ہوگا۔عدلیہ کو سیاسی درخواستوں کو فوراً رد کرنا چاہیے بلکہ ایسے درخواستگزاروں کو کوئی نہ کوئی پنلٹی ڈالنا چاہیے تاکہ عدلیہ کا قیمتی وقت ضایع کرنے والے کو سبق مل سکے۔
اسی صورت میں ملک میں انتظامیہ اور مقننہ کام کرنے کے قابل ہوں گی اور ملک میں سیاسی استحکام آئے گا اور معاشی مسائل حل ہوں گے۔ ملک کو بحران در بحران مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے اور ملک کے 25 کروڑ عوام بیچارگی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ صدر مسلم لیگ ن شہباز شریف کا کہنا ہے کہ حکومت کا ہدف عوام کو مہنگائی اور مسائل سے نجات دلانا ہوگا تمام سیاسی قوتوں کو پاکستان کے لیے ایک ہونا ہوگا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ملک کے مفاد میں ہے کہ سیاسی طور پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششیں کریں' جو ہونا تھا وہ ہوچکا ' سیاسی عدم استحکام کو ایڈریس کیے بغیر بننے والی حکومت کو عوام کے مسائل حل کرنے میں مشکلات ہوں گی، میں چاہوں گا کہ پیپلز پارٹی مل کر اتفاق رائے سے ایسی حکومت بنائے جس سے سیاسی استحکام ہو۔ تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر علی گوہر کا کہنا ہے کہ وفاق، پنجاب، خیبر پختونخوا میں حکومت بنائیں گے، لیکن ان باتوں کے باوجود سیاسی جماعتیں اتفاق رائے کی کوششوں سے زیادہ اپنے اپنے سیاسی مفادات کو اولیت دینے میں لگی ہوئی ہیں حالانکہ سیاست سے زیادہ اس وقت ملک کی معاشی ترقی کا تحفظ انتہائی ضروری ہے ۔
آئی ایم ایف نے بجٹ 2025کے لیے پہلے ہی ایک نئی شرط عائد کردی ہے کہ نئے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن بڑھائی نہیں جائے گی۔ اطلاعات کے مطابق ابھی تک یہ مطالبہ ہی ہے کیونکہ اس پر عمل کرنے کا ابھی وقت نہیں آیا ہے لیکن ہماری حالت اتنی پتلی ہے کہ ہم انکار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ پاکستان میں آئی ایم ایف کا 24 واں پروگرام چل رہا ہے۔
مہنگائی کا تناسب یہاں 29 فیصد سے زائد ہے جو پاکستان کی تاریخ میں سب سے بلند ترین سطح پر ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق پاکستانی معیشت میں شرح نمو 1952 کے بعد تیسری سب سے نچلی سطح پر ہے جو آئی ایم ایف کے مطابق موجودہ مالی سال میں بھی دو فیصد رہنے کی توقع ہے۔
ہم 76 سال گزرنے کے باوجود اپنی معیشت کو ٹھوس بنیادوں پر استوار نہیں کرسکے۔ جب باہر سے پیسہ نہیں آتا تو پاکستان میں مہنگائی اور بیروزگاری بڑھ جاتی ہے۔ مہنگائی کی دوسری بڑی وجہ حکمران اشرافیہ کی مراعات اور غیرترقیاتی اخراجات بھی ہیں۔ جہاں عالمی بینک کے مطابق 37.2 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے وہاں اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کی 2021 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی اشرافیہ کو سالانہ 17.4ارب ڈالر کی مراعات حاصل ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جنھوں نے مہنگائی کو کم کرنا ہے وہی پاکستان میں مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔
ان حالات میں جو حکومت پاکستان میں آنے والی ہے وہ مہنگائی کیسے کم کرے گی؟ اس مقصد کے لیے روپے کو مضبوط بنانا پڑے گا، سرمایہ کاری لانا پڑے گی تاکہ پیداوار بڑھے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے مطابق بڑھتی ہوئی آبادی اور قرضوں کے بوجھ سے چھٹکارہ اس وقت ممکن ہے جب پاکستانی معیشت میں تین دہائیوں تک سالانہ شرح نمو سات فیصد ہو اور سالانہ 20 لاکھ نئی نوکریاں پیدا ہوں تب جا کر 2056 تک ہم معاشی مسائل سے چھٹکارہ حاصل کرسکتے ہیں، جب خزانے میں پیسے ہوں گے تو صحت اور تعلیم کا مسئلہ بھی نہیں رہے گا۔
پاکستان اس وقت شدید اندرونی خلفشار سے دوچار ہے۔ دہشت گردی، انتہا پسندی کے ساتھ ساتھ ہمیں سیاسی انتشار کا بھی سامنا ہے۔ گلوبل پیس انڈیکس میں پاکستان 146 ویں نمبر پرکھڑا ہے۔ اس وقت عوام کو درپیش اہم مسائل میں مہنگائی اور بجلی وگیس کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ سرفہرست ہے۔
پاکستان میں اس وقت ہر طرح کی انڈسٹری تاریخ کے بدترین بحران سے دوچار ہے جس کی بڑی وجہ توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ انرجی کاسٹ بڑھنے کی وجہ سے پیداواری لاگت میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے ہم مسابقت میں خطے کے دیگر ممالک سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ اقتدار حاصل کرنے کی متمنی ہر سیاسی جماعت اپنے منشور میں یہ بات ضرور لکھتی ہے کہ برآمدات میں اضافہ کیا جائے گا لیکن اس کے لیے روڈ میپ تیار کرنے کی زحمت کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔
کاروبار کا ایک اصول ہے کہ اگر منافع کم بھی ہو تو پیداوار جاری رکھی جاتی ہے بلکہ اسے بڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ آمدنی میں ہونے والی کمی کو پورا کیا جا سکے لیکن اگر کاروباری لاگت میں ہی اس قدر زیادہ اضافہ ہوجائے کہ مارکیٹ میں اس کا کوئی خریدار ہی نہ ملے تو پھر بڑی سے بڑی صنعتی ایمپائر کے لیے بھی کام جاری رکھنا ممکن نہیں رہتا ہے۔
اس طرح ایک مل یا فیکٹری بند ہونے سے صرف ایک صنعتکار یا فیکٹری مالک ہی خسارے کا شکار نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کی فیکٹری میں کام کرنے والے مزدور اور اس سے جڑے دیگر کاروباری شعبے متاثر ہونے سے ہزاروں خاندان معاشی مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس طرح یہ دائرہ بڑا ہوتے ہوتے پورے ملک کی معاشی صورتحال کی خرابی کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔
حالات کا یہ تقاضا ہے کہ سیاسی قیادت عوام کو اعتماد میں لے اور ان کے سامنے ملک کی معاشی بحالی کا حقیقت پر مبنی ایجنڈا پیش کرے۔ عوام کو مفت بجلی، تنخواہیں دگنی کرنے اور نت نئے غیر پیداواری ترقیاتی منصوبوں کے سہانے خواب نہ دکھائیں، کیونکہ کل جب آپ اقتدار میں آ کر یہ وعدے پورے نہیں کر پائیں گے تو اس سے عوام کا جمہوری نظام پر اعتماد مزید کمزور ہوگا۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ اس وقت ملک کے حالات درست کرنے کے لیے میڈیسن کی نہیں بلکہ سرجیکل آپریشن کی ضرورت ہے۔