آئی ایم ایف پروگرام کا حصول بڑا چیلنج

آئی ایم ایف کے ساتھ نئے قرض پروگرام کے لیے مذاکرات دوسرے اقتصادی جائزہ کے ساتھ ہوںگے


Editorial February 21, 2024
آئی ایم ایف کے ساتھ نئے قرض پروگرام کے لیے مذاکرات دوسرے اقتصادی جائزہ کے ساتھ ہوںگے (فوٹو: فائل)

آئی ایم ایف کے ساتھ نیا پروگرام پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر کرسکتا ہے، یہ کہنا ہے بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجسنی فچ کا جس نے پاکستانی معیشت سے متعلق رپورٹ جاری کردی ہے۔

رپورٹ کے مطابق نئی حکومت کو فوری طور پر امدادی اداروں سے فنڈنگ کی ضرورت ہوگی جب کہ امدادی اداروں اور ملکوں سے فنڈنگ سے تاخیر سے اصلاحات کا عمل متاثر ہوگا۔

خوش آیند بات یہ ہے کہ جمہوری عمل کا تسلسل برقرار ہے، جلد ہی قومی اسمبلی سمیت چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس منعقد ہونے جا رہے ہیں، جن میں اراکین پارلیمنٹ کی تقریب حلف برداری، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کا انتخاب عمل میں آئے گا۔ مسلم لیگ نواز ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ ق اور دیگر اتحادی جماعتوں کے قائدین کے درمیان بات چیت جاری ہے ،مسلم لیگ ن شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کا اعلان چکی ہے۔

تحریک انصاف بھی تاحال وزارت عظمٰی کی دوڑ سے دستبردار نہیں ہوئی اور اس عزم کا اظہار کررہی ہے کہ وہ مختلف حلقوں میں دھاندلی ثابت کر کے اسمبلی میں اپنے اراکین کا اضافہ کریں گے اور اکثریت حاصل کر کے اپنی حکومت بنائیں گے۔ بہرحال جمہوری عمل جاری ہے اور وقت آنے پر جس کے پاس اکثریت ہوگی ، وہ حکومت بنا لے گا۔

نو منتخب حکومت کے لیے سب سے پہلا چیلنج آئی ایم ایف کے جاری پروگرام کو مستحکم کرنا، آخری قسط کی وصولی اور نئے پیکیج کا حصول ہوگا، میڈیا نے وزارت خزانہ کے ذرایع کا حوالہ دے کر بتایا ہے کہ آئی ایم ایف سے نیا قرض پروگرام ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلیٹی 3 سال کے لیے سائن کیے جانے کا امکان ہے، بغیر آئی ایم ایف کے پاکستان کا گزارہ مشکل ہے کیونکہ معیشت کو کئی خطرات لاحق ہیں۔

آئی ایم ایف کے ساتھ نئے قرض پروگرام کے لیے مذاکرات دوسرے اقتصادی جائزہ کے ساتھ ہوںگے اور 6 ارب ڈالر تک کا نیا قرض پروگرام سائن کیا جا سکتا ہے، نئے قرض پروگرام سے قبل آئی ایم ایف کو تمام شرائط پر عملدرآمد کے لیے یقین دہانی کرائی جائے گی ، نئے قرض پروگرام کے تحت بجلی، گیس مہنگی اور سبسڈیز پر مزید کٹوتی کی جا سکتی ہے۔

نیا قرض پروگرام موجودہ اسٹینڈ بائی معاہدے سے زیادہ مشکل شرائط پر مبنی ہو گا، آئی ایم ایف کی پاکستان کے بڑھتے ہوئے قرضوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کیونکہ پاکستان کا قرضہ 65 کھرب روپے سے بھی تجاوز کرگیا، آئی ایم ایف نے گردشی قرضہ ختم کرنے کے منصوبے اور ممکنہ اقدامات پر بھی تحفظات کا اظہار کررہا ہے، ایسے اقدامات سے غریب پر مزید بوجھ پڑے گا، بجلی چوری، لائن لاسز اور انتظامی اخراجات کو کم کرکے ہی غریب کو کچھ ریلیف فراہم کیا جاسکتا ہے۔

کساد بازاری اور 30 فیصد افراط زر سے پیدا ہونے والی معاشی ناہمواری درحقیقت مسلسل سیاسی عدم استحکام کا نتیجہ ہے، غربت کی شدت کا اندازہ گزشتہ دو سالوں میں خودکشی کے واقعات سے لگایا جاسکتا ہے، ان روح فرسا واقعات میں خاندان کے لیے روزی روٹی کمانے والے اشخاص روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے میں ناکامی سے تنگ آ کر اپنے خاندان سمیت موت کو گلے لگانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ جرائم میں اضافے کی ایک وجہ بے روزگاری اور غربت بھی ہے۔

ماضی کی حکومتوں کی بداعمالیوں کا خمیازہ ملک کی 98 فیصد آبادی بھگت رہی ہے، اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے قانون سازی کرنا ہوگی تاکہ ٹیکس سے فرارکے تمام راستے مسدود ہوں۔ اشرافیہ سے براہ راست ٹیکس وصولی کے بجائے تنخواہ دار، غریب اور نادار طبقے سے بجلی بلوں اور ایندھن کی فروخت سے ٹیکس وصولی کے ظالمانہ نظام کو اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔

آبادی میں اضافے کو روکنا بھی نئی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ نئی حکومت کو افراط زر پر قابو پانا ہوگا، بلند شرح سود نے کاروباری سرگرمیاں تقریباً معطل کردی ہیں، اس ضمن میں فیصلہ کن قدم آیندہ حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ نو منتخب حکومت کے لیے مہنگائی کی مسلسل بلند شرح کے معاشی چیلنج سے نمٹنا بے حد اہم ہو گا، اگر ماحولیات کی بات کریں تو پاکستان کے بڑے شہروں کا ایئر کوالٹی انڈیکس (AQI) تشویشناک حد تک بگڑ چکا ہے۔

کراچی اور لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہری مراکز کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں۔ ٹرانسپورٹ فضائی آلودگی کے اس بحران کا مرکز ہے جو پٹرولیم مصنوعات کی کل کھپت کا 78.5 فیصد ہے۔ فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے سڑکوں کے ذریعے مہنگی نقل و حمل کی جگہ تباہ حال ریلوے کو دوبارہ پاؤں پر کھڑا کرنا حکومت کی ترجیح ہونی چاہیے، سی پیک (CPEC) میں شامل ایم ایل۔ (ML۔ 1) منصوبہ پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے اہم بھی ہے سستا اور سفر کے لیے آرام دہ بھی۔ اس منصوبے پر تیزرفتار عملدرآمد انقلابی قدم ثابت ہو گا جو فضائی آلودگی میں کمی لانے کا بڑا ذریعہ بن سکتا ہے۔

اس کے علاوہ سالڈ ویسٹ (Solid Waste Management) اور واٹر ٹریٹمنٹ (Water Treatment) پروجیکٹس ہر بڑے شہر کے لیے ضروری ہو چکے ہیں، کوڑا کرکٹ جلا کر فضا آلودہ کرنے کے بجائے بجلی پیدا کرنے اور آبادیوں کے استعمال شدہ گندے پانی کو نہروں، دریاؤں اور سمندر برد کر کے آبی حیات کے لیے مہلک بنانے کے بجائے صاف کر کے قابل استعمال بنانے سے بڑے شہروں میں پانی کی کمیابی سے بھی نمٹا جاسکتا ہے۔

زرخیز زرعی اراضی کو رہائشی مقاصد کے لیے استعمال میں لانے کے رجحان کو ختم کرنا ہوگا، ہاوسنگ اور تعمیرات کے شعبے جدت لانا اور جدید ٹیکنالوجی کو متعارف کرانا انتہائی ضروری ہے ۔ ہاوسنگ اور تعمیراتی صنعت میں سولڈ لکڑی کے استعمال کو کم سے کم کرنے ڈبلیو پی سی اور دیگر جدید میٹریلز کے استعمال کو بڑھانے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ درختوں اور جنگلات کا تحفظ ممکن ہوسکے ۔ نیز شہروں اور دیہاتوں میں سبزہ اگانے اور درخت لگانے کے لیے حوصلہ افزائی فضاء کو صحت مند بنانے میں بہت کارآمد ثابت ہو گی۔

ملک کے تمام بڑے شہروں کے لیے اندرون شہر ٹرانسپورٹ کی سہولت عوام کا بنیادی حق ہے جسے ملک کے معاشی حب کراچی اور ملک کے بیشتر علاقوں میں مسلسل نظر انداز کیا گیا ہے، شہریوں کے لیے ٹرانسپورٹ کا مناسب انتظام (Productivity) پیداواری عمل بڑھانے اور ٹریفک جامز سے پیدا ہونے والی نفسیاتی کیفیت اور آلودگی سے صحت کے مسائل سے بچاؤ کے لیے مہیا کرنا حکومت پر لازم ہے، پبلک ٹرانسپورٹ کی بحالی شہریوں کا بنیادی حق بھی ہے اور بے ہنگم ٹریفک سے نجات اور شہروں کی فضائی آلودگی میں خاطرخواہ کمی لانے کا ذریعہ بھی۔

پاکستان میں افراط زر کی شرح تقریباً 30 فیصد تک پہنچ چکی ہے جب کہ سال 2021 سے پاکستانی روپے کی قیمت میں 50 فیصد تک کمی واقع ہوئی، ادائیگیوں میں عدم توازن پیدا ہوا اور درآمدات منجمد ہو کر رہ گئیں جس کے باعث صنعتی ترقی کی راہوں میں رکاوٹیں کھڑی ہو گئیں۔ معیشت کو سنبھالنا پڑے گا، اگر معیشت نہ سنبھلی تو مہنگائی کم ہوگی نہ بے روزگاری اور نہ ہی سیاسی استحکام آئے گا۔ قیاس جو پھیلا ہوا ہے، یہ بڑھتا رہے گا۔

سیکیورٹی صورتحال کی بات کی جائے تو انتخابات سے پہلے اور بعد کے چند دنوں میں صرف بلوچستان میں 63 حملے ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں بھی دہشت گردی کی وارداتیں ہوئی ہیں جو سیکیورٹی صورتحال کے انتہائی مخدوش ہونے کا پتہ دیتی ہیں۔گو اس کا حل بھی سیاسی ہے لیکن اس کے لیے طویل جدوجہد کی ضرورت ہے اور جزا و سزا کا ایک باقاعدہ نظام بنانے کی ضرورت ہے۔

متوازن خارجہ پالیسی ایک بڑا چیلنج ہو گا اور پاکستان کی نئی حکومت کو انتہائی مہارت کے ساتھ چین اور امریکا دونوں کے ساتھ برابری کے تعلقات کو فروغ دینا ہو گا۔ اسی طرح انڈیا میں انتخابات کے بعد بظاہر یہی امکان نظر آتا ہے کہ مودی زیادہ مضبوط ہوکر آئیں گے جس کے بعد ان کے ساتھ بہتر تعلقات بنانا اور ایک امن کی فضا قائم رکھنا بھی انتہائی اہم ہوگا۔

سی پیک کو آگے بڑھانے کے لیے بھی نئی حکومت کو اہم اور زیرک فیصلے کرنے ہوں گے کیونکہ اس سے ملک کی تعمیر و ترقی اور علاقائی رابطے کے لیے مستقبل کی سمت کا تعین ہو گا۔

اجتماعی کوششوں اور دور اندیش قیادت کے ذریعے ہی پاکستان اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اپنے باشندوں کے لیے ایک روشن کل کی تعمیر کر سکتا ہے، سلجھی ہوئی قیادت موجودہ تمام مشکلات پر قابو پا کر پاکستان کو ایک مستحکم معیشت والا ملک ضرور بنائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں