ہائبر نیشن
اس حالت میں داخل ہونے سے، جانور اپنے توانائی کے اخراجات کو ڈرامائی طور پر مہینوں تک کم کرسکتے ہیں
زندگی کبھی ایک سی نہیں رہتی۔ سوچ، نظریے، ترجیحات تبدیل ہوجاتے ہیں۔ مستقل سکون یا مستقل انتشار ممکن نہیں، لیکن اگر آپ ایک طویل عرصے سے ایک ہی سوچ یا حالت میں گھرے رہیں تو جمود طاری ہوجاتا ہے۔
آپ نے ہائبر نیشن کا لفظ تو سنا ہوگا، جس کا مطلب ہے بے حس و حرکت ہوجانا۔ ہائبرنیشن ایک دلچسپ حیاتیاتی عمل ہے، جو جانوروں میں عمل پذیر ہوتا ہے، جس کی خصوصیات میٹا بولک اور جسم کے درجہ حرارت میں کمی ہوتی ہے۔ جس کے باعث منفی حالات کے دوران جانور زندہ رہتے ہیں۔
اس حالت میں داخل ہونے سے، جانور اپنے توانائی کے اخراجات کو ڈرامائی طور پر مہینوں تک کم کرسکتے ہیں۔ پھر موسم تبدیل ہوتا ہے اور درختوں اور ماحول سے برف پگھلنے لگتی ہے۔ زندگی کے آثار پیدا ہونے لگتے ہیں اور ٹہری زندگی رواں دواں ہوجاتی ہے۔ یہی حکمت عملی فطرت کی زندگی میں نظر آتی ہے، لیکن انسانی سوچ اور احساسات جلدی نہیں بدلتے، لٰہذا ہم سالوں سے ایک ہی موسم میں جی رہے ہیں۔
بے یقینی کا موسم !
جو جانے کا نام نہیں لیتا۔
زندگی ہو یا آفس کے معاملات ہوں یا سیاست کے دائو پیچ ہم ایک ہی نہج پرکھڑے ہیں۔ سیاست کو ہی لے لیجیے، الیکشن ہوگئے مگر وہی بے یقینی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ الیکشن کے بعد بھی کوئی واضح صورتحال سامنے نہیں آئی، وہ سیاستدان جو ایک دوسرے کا مذاق اڑاتے تھے اب جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔ بہرکیف جو بھی آئیں گے وہ آزمائے ہوئے سیاستدان ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آنیوالا سیاسی سیٹ اپ کیا اس خستہ حال، لٹے پٹے عوامی قافلے کو بے یقینی کی دلدل سے نکال لے گا؟ اور ہر طرف انصاف، یکجہتی اور خوشحالی کا دور دورہ ہوگا، بدعنوانی کا خاتمہ ہوگا اور عوامی زندگی بدحالی سے امن و امان اور بہتر مستقبل کی جانب سفرکرسکے گی؟
اس ابہام اور سیاسی انتشار میں ادبی میلوں کا موسم مہکنے لگا ہے۔ ادب میں بھی سیاست کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔ یہاں پر بھی کرسی کا زور چلتا ہے۔ بدعنوانی، سفارش اور اقربا پروری کی روایتیں زندہ رکھی جاتی ہیں۔ نہ آپ کو نئے موضوعات ملیں گے اور نہ ہی نئے چہرے دکھائی دیں گے۔ ادب نے کتنی ترقی کی، کونسی کتابیں لکھی گئیں۔ کون کس موضوع پر طبع آزمائی کر رہا ہے، قطع نظر اس کے وہی لوگ مدعو کیے جاتے ہیں جو نظر آنا چاہتے ہیں۔
ادب میں سیاسی رنگ کے ساتھ کاروباری عوامل بھی شامل ہوچکے ہیں۔ حسد اور غیر منطقی مقابلے نے کئی قابل لوگوں کو منظر نامے سے ہٹا دیا ہے۔ منفی سیاست کو ہمیشہ سے مفاد پرست ادیبوں کی پذیرائی اور تعاون ملا ہے، لٰہذا ادب کا بھوک و افلاس یا سیاسی مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس ملک میں ہمیشہ سے فقط سیاسی وفاداریاں نہیں بکتیں بلکہ اہل دانش کی بھی بولی لگائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خاموشی سکہ رائج الوقت ٹہری ہے۔
اگر یہاں کوئی بدحال ہے تو وہ عوامی لٹا لٹایا قافلہ ہے، جس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ذہنی بیماریاں عروج پر ہیں۔ جسمانی بیماریاں ہیں تو مناسب علاج نہیں ہے۔ تعلیم ہے تو تربیت مفقود۔ رہبر ہے تو منزل غائب اور غذا ہے تو افادیت نظر نہیں آتی، وہ قوم جو ملاوٹ شدہ غذا پر زندہ ہو وہ کیا ملک کی سیاست میں حصہ لے سکے گی۔
یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ہر طرح کے انتشار میں فقط سیاستدان ملوث ہیں یا عوام کا بھی کوئی حصہ ہے؟ عوامی بے خبری اور بے شعوری ہمیشہ کیش کرائی جاتی ہے، لٰہذا کم عقل، سازشی اور خوشامدی زیادہ تر نظام کا حصہ بنائے جاتے ہیں۔
سچے، ایماندار اورکھرے لوگ جلد پس منظر میں چلے جاتے ہیں یا تکالیف جھیلتے ہوئے ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔ جب بھی کوئی سیاسی مسئلہ سر اٹھاتا ہے تو اہل دانش ادبی میلوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ غریب عوام روٹی روزی کے چکر میں پریشان حال رہتے ہیں۔ عوام کا ایک غافل قافلہ توکل پر تقلید کے عمل میں مصروف دکھائی دیتا ہے۔
عوام کو سیاست سے کم دلچسپی رہی ہے، وہ جانتے ہیں کہ کوئی بھی حکومت آئے گی وہ اپنا فائدہ سب سے پہلے سوچے گی اور باقی وقت لین دین اور اپنے آقائوں کی غلامی کرتی رہے گی۔ انتشارکے ساتھ اس ملک کے منظر نامے میں بے یقینی شدت سے پائی جاتی ہے۔
مگر موسم بدل رہا ہے۔ سردیاں کچھ زیادہ چلیں جو امیروں نے چلغوزے کھاتے گرم کھانوں اور مشروبات سے مستفید ہوتے گزاریں جب کہ غریبوں نے بغیر رضائی اور خالی پیٹ مرغن غذائوں کے خواب دیکھتے ہوئے بسرکیں۔
الیکشن میں دھاندلی کی صدائوں میں پٹرول و دیگرصارفین پر قیمتوں کے اضافے کی بری خبریں کسی صدمے سے کم نہیں۔ بجلی کے بلوں کوکم کرانے کی خاطر عوام نے جانوں کے نذرانے پیش کیے تھے۔ آج ایک دم سے بنیادی ضروریات کی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ لوگ سیاستدانوں سے سوال کر رہے ہیں کہ اس ملک کی سیاست میں ہمارا ذکر خیر کس کتاب میں لکھا ہے؟
بہار آئی مگر الیکشن کے جھمیلوں میں گزرگئی۔ ویلنٹائن ڈے بھی کسی الجھن کا شکار تھا۔ محبتوں کی روایتیں بھی بدل چکی ہیں شاید۔ بہرکیف سردیاں کم ہونے سے قدرے سکون رہا ہے۔
بہار زمین پر اپنا رنگ بکھیر رہی ہے، ہر طرف سبزے کا رنگ دمک رہا ہے۔ دھوپ کے رنگ درختوں کی چوٹیوں پر چمک رہے ہیں۔ پتے نکھر سے گئے ہیں۔ نئے موسم کی مہک فضائوں میں تیرتے ہوئے احساس کو مہکانے لگی ہے۔ باہر دھوپ میں تیزی بڑھنے لگی ہے۔ تتلیاں اور بھنورے بہارکے پھولوں پر منڈلا رہے ہیں۔
ایک امید سی رچی بسی ہے نئے موسم کے مہکتے آنگن میں، مگر یہاں ہر طرف اس قدر بے یقینی اور انتشار ہے کہ لوگ فطرت کے رنگوں کو فراموش کرچکے ہیں، پیٹ میں بھوک ہو تو نہ کتاب سجھائی دیتی ہے اور نہ ہی موسم!
موسم بدلنے سے لوگوں کو اب کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اب ان کی انگلیاں یا تو نوٹ گننے کی موسیقی کے ترنم میں محو ہیں یا وہ دکھائوے، غرور اور خواہشوں کی حدیں پارکرنے میں مگن ہیں اور میرے شہر میں بے یقینی، مایوسی اور انتشارکا دور دورہ ہے، عوام ہائبرنیشن کے دور سے گزر رہے ہیں۔