نئی رُت کی خوش بو اور دوسرے شعری مجموعے
تخلیق کار اپنے فن سے نہ کہ بے حد محبت کرتا ہے بلکہ اکثر اوقات شعری وادبی صدمہ اس کی جان بھی لے لیتا ہے
نئی رُت کی خوش بو، اور خیال کی خوشبو یہ دونوں شعری مجموعے ممتاز ادیبہ اور شاعرہ نجمہ عثمان کی تخلیقات ہیں، اس کے علاوہ 1989میں ''شاخ حنا ''اور'' کڑے موسموں کی زد پر''، 1999 میں اشاعت کے مرحلے سے گزرچکے ہیں، ان کے ایک افسانوں کا مجموعہ '' پیڑ سے بچھڑی شاخ'' 2008میں اور سفرنامہ'' کتاب دل'' 2022ء میں شائع ہوئیں۔
The Pearl of Heart''کتاب دل'' کا انگریزی ترجمہ ہے، ''نئی رُت'' کا سرورق وصی حیدرکا تخلیق کردہ ہے، اس کی اشاعت سورتی اکادمی ٹیم موکسی کی مرہون منت ہے۔
کتاب نجمہ عثمان کی شاعری سچے جذبوں کی عکاس ہے، وہ لفاظی سے ناواقف ہیں جوکہ اچھی بات ہے، وہ اپنے جذبات واحساسات کو شعری سانچے میں ہنرمندی کے ساتھ ڈھالتی ہیں، ان کی شاعری میں زندگی کے دکھ سکھ رچ بس گئے ہیں، شاید اس ہی وجہ سے ہر شعرموثر اور سانس لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
مجھے نجمہ عثمان کی شاعری پر اپنی رائے دیتے ہوئے کافی تاخیر ہوگئی ہے، اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مجھے کتابوں کی شیلف میں قرینے سے سجی ہوئی کتابوں کی قطار سے کچھ بھولی بسری کتابیں جھانکتی ہوئی نظر آتی ہیں تو بے اختیار میرا بے چین دل اور ہاتھ ان تک پہنچ جاتا ہے۔
تاریخ دیکھ کر دکھ کا احساس جاگزیں ہوتا ہے کہ اس قدر تاخیر ہوئی تاخیر توکچھ باعث تاخیر بھی تھا، ایسی ہی ایک کتاب '' عکس درعکس'' کے عنوان سے ٹیلی پلیز جس کے مصنف محمد بشیر مالیرکوٹلوی ہیں، مذکورہ کتاب میں 4 ڈرامے شامل ہیں اور مجھے 2015 میں صبا اکرام کے دولت کدے پر انھوں نے پر مرحمت فرمائی تھی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے شائع ہوئی ہے۔
اس ہی طرح دوسری کئی کتابوں کا ایسا ہی انجام ہوا، نجمہ عثمان کی کتاب ''خیال کی خوش بو'' قلم پبلی کیشنز بمبئی سے شائع ہوئی، ان کے کلام پر افتخارعارف اور پروفیسر علی احمد فاطمی، اکبر حیدرآبادی کی آراء درج ہیں۔
افتخارعارف نے لکھا ہے کہ نجمہ عثمان کم و بیش تین دہائیوں سے شعرکہہ رہی ہیں، لاہور، دہلی اورکراچی کے ادبی حلقوں سے دور رہ کر اپنے تخلیقی سرچشموں سے رشتہ جوڑے رکھنا کوئی بہت آسان کام نہیں ہے، تانیثیت کے موضوعات پر بھی جم کر لکھتی ہیں مگر مشرق کی تہذیبی اقدارکے دائروں میں رہتے ہوئے زبان رواں اور لہجہ نرم ہو تو غزل میں تاثیرکا امکان زیادہ روشن ہوجاتا ہے، جذبے سچے ہوں تو نظم میں بھی ایک ایسی روشنی پیدا ہوجاتی ہے جو حرفِ معتبرکی ضمانت ہوتی ہے۔
کتاب کی ابتدا میں بہت خوبصورت اور بامعنی شعر اپنے قارئین کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے ۔
یہ کیسا تحفہ آوارگی دیا ہے ہے مجھے
ترے خیال کی خوش بو ہے کتنی ہرجائی
حمدیہ اور نعتیہ شاعری بھی دل کو چھوتی اور روح کو سرشارکر تی ہے۔
صد اقتوں کا خزینہ جسے کہا جائے
تو کیوں نہ قلب و جگر میں وہی سما جائے
میں منشطر ہوں میری روح پھر معطر ہو
ہوا جو وادیٔ بطحا کو چھوئے جائے
نجمہ عثمان کی شاعری کو پڑھتے ہوئے ان کے اندرکا کرب اور یاسیت کا گہرا رنگ نمایاں ہوجاتا ہے اور یہ رنگ شاعرہ کے زخمی سینے سے ہوتا ہوا پڑھنے والے کو بھی غمزدہ کردیتا ہے، اچھی شاعری اسے ہی کہتے ہیں جس میں اثر ہو، توانائی ہو اور احساس کی خوشبو ہو۔
میں اپنی خاک سے بچھڑی ہوئی ہوں مدت سے
مجھے سپرد ہواؤں کے کر دیا جائے
یہاں شکستہ تمناؤں کے کھنڈر ہیں کچھ
یہاں ٹہرکر ذرا دیر رو لیا جائے
جو چشم نم بھی نہیں، تیری جستجوبھی نہیں
تو دشت زیست میں پھرکس لیے جیا جائے
غزل کا ہر لفظ نوحہ کناں اور آگہی کے دکھ سے پر ہے، اس ہی قبیل کے چند اشعار۔
باہر اک خاموش فضا ہے
لیکن دل میں شور مچا ہے
سائیں سائیں دکھ کا جنگل
آنگن آنگن پھیل رہا ہے
ماضی کے غم، کچی عمرکی کہانیوں اور موسم خزاں کی ویرانی کو انھوں نے اپنے خون جگر سے سینچا ہے، تب کہیں جنگل جنگل درد وحزن کے پھول کھلے ہیں۔
نظر بچا کے کسی سے کتاب میں رکھے
گزشتہ عمر کے قصے اداس سوکھے پھول
میں اپنی خاک سے بچھڑی ہوئی ہوں مدت سے
مجھے سپرد ہواؤں کے کردیا جائے
یہاں شکستہ تمناؤں کے کھنڈر ہیں کچھ
یہاں ٹہر کر ذرا دیر رو لیا جائے
نئے رُت کی خوش بو اپنے قارئین کو ایک نئے انداز اور کھٹے میٹھے ذائقے سے آشنا کرتی ہے، نجمہ عثمان کا انداز فکر دوسروں سے مختلف اور منفرد ہے، بے ساختگی اور اچھوتا پن شاعری کی روح میں میں رچ بس گیا ہے ، ان کی یہ غزل دیکھتے ہیں، جو کہ مختلف اچھوتے اور دلفریب انداز میں تخلیق ہوئی ہے ۔
جب یہ ٹوٹا تو پھر خاک تھا اور بس
جسم سے روح کا رابطہ اور بس
خامثی آنسوؤں کی زباں بن گئی
کچھ نہ کہنے پر بھی کہہ دیا اور بس
خواجہ رضی حیدر نے نجمہ عثمان کی شاعری کو تنقیدی نگاہ سے دیکھتے ہوئے لکھا ہے کہ نجمہ عثمان کا شعری سفر میری نگاہ میں ہے، انھوں نے اپنے چوتھے شعری مجموعے تک جس انہماک اور شائستگی کے ساتھ شاعری کی ہے وہ قابل داد بھی ہے اور اس امر کی متقاضی بھی کہ ان کی شاعری پر تفصیلی گفتگوکی جائے، وہ خیال اور احساس کی شدت اور جدت سے نہ کہ صرف آگاہ ہیں بلکہ یہ شدت اور جدت ان کی شاعری میں جا بجا دکھائی بھی دیتی ہے اور سنائی بھی دیتی ہے، ایک ایسی شاعرہ جو اپنے شعری سبھاؤ میں دور اور دیر تک سفرکرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں،کیا یہ قابل ستائش کمال نہیں ہے۔
اب کے بچھڑے ہیں تو ملنے کا بھی امکان نہیں
مجھ کو بھی فکر نہیں تم بھی پریشان نہیں
ایک مانوس سی خوشبو ہے بھٹکتی پھرتی
اورکمرے میں مرے کوئی بھی گلدان نہیں
نجمہ عثمان کی شاعری ہجر و وصال اور دکھ سکھ سے آراستہ ہے،گویا زمانہ ان کی شاعری میں روح کی طرح پنہاں ہے ۔'' نذر طوفان '' سید مسرت حسین رضوی اخترکی تخلیقی کاوش ہے اور یہ کتاب انشاء مطبوعات میں شامل ہے، ناشر صفدر علی خان ہیں جو سہ ماہی '' انشا '' کے مدیر اور بہت اچھے شاعر ہیں۔
سید مسرت حسین رضوی، اخترکا یہ پہلا شعری مجموعہ ہے ، لیکن ان کی شاعری پڑھتے ہوئے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ انھیں شعر وسخن پر عبورحاصل ہے، اس کی وجہ شاعری انھیں ورثے میں ملی ہے اس کے ساتھ اللہ کی دی ہوئی صلاحیت اور ان کی اپنی محنت نے اپنا کام دکھایا ہے۔
تخلیق کار اپنے فن سے نہ کہ بے حد محبت کرتا ہے بلکہ اکثر اوقات شعری وادبی صدمہ اس کی جان بھی لے لیتا ہے، ایسا ہی سانحہ ان کے والد سید مظہر علی اکبر آباد ی کے ساتھ بھی پیش آیا، وہ یہ کہ ان کا دیوان چوری ہوگیا ، عمر بھرکی ریاضیت تھی، لہذا یہ دکھ جان لیوا ثابت ہوا۔ سید مسر ت حسین رضوی کی فکرکی بلندی اور شعری صلاحیت نے انھیں بہترین شعر اء کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔معنویت: اور خیال آفر ینی نے ان کی شاعری کو مؤثر بنادیا ہے، ملاحظہ فرمائیے۔
یہ دنیائے محبت ہے، یہاں شکوہ نہیں ہوتا
اندھیرے دو ر رہتے ہیں غم فردا بھی نہیں ہوتا
غم منزل نہیں ہوتی، غم جادہ نہیں ہوتا
محبت میں کبھی اے دوستوسودا نہیں ہوتا
اللہ سے محبت اور عشق کے حوالے سے ایک عاشق زاد کا خوبصورت شعر۔
حوصلہ تو نے دیا ہے مجھے حق گوئی کا
جو تیری رہ میں کٹے گا وہ میرا سر ہوگا