نئے امکانی راستوں کی تلاش
یہ پالیسی حکومت اور حزب اختلاف سمیت ریاستی سطح پر بھی واضح اور شفاف نظر آنی چاہیے
سیاست بند گلی میں قید ہونے کا نام نہیں بلکہ بند گلی کے دریچوں کو کھول کر نئے امکانات کو پیدا کرنا ہوتا ہے ۔ سیاست میں جو تقسیم گہری ہورہی ہے اس میں ٹھراؤ کی ضرورت ہے۔
اسی بنیاد پر سیاست ، جمہوریت اور معیشت سے جڑے معاملات کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے ۔ کیونکہ ہم جس گہری کھائی میں ہیں، اس کا علاج کسی ایک کے پاس نہیں بلکہ تمام فریقین کو مل بیٹھ کر کچھ کرنے پر متفق ہونا ہوگا ۔ لیکن ان انتخابات کے عمل نے سیاسی تلخیوں کو اور زیادہ گہرا کردیا ہے۔
حالانکہ انتخابات او راس کے بعد بننے والی وفاقی یا صوبائی حکومتوں کے بعد کے مناظر میں مثبت تبدیلیاں درکار ہیں مگر ہم ہیں کہ الجھتے ہی جارہے ہیں ۔ ایسے لگتا ہے کہ ہمارے سامنے قومی ترجیحات کا تعین درست نہیں اور سیاسی دشمنی کی لہر نے تمام ہی فریقوں کو اپنے اپنے جال میں الجھادیا ہے ۔
حکومت سازی کے مراحل کی تکمیل کے باوجود انتخابی نتائج کی قبولیت پر بھی سوالیہ نشان ہیں ۔ پی ٹی آئی ، جماعت اسلامی، جے یو آئی، جے ڈی اے اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں انتخابی نتائج کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور سب محاذآرائی میں الجھے ہوئے ہیں۔
اس وقت جو ریاستی محاذ پر داخلی او رخارجی چیلنجز کی موجودگی ہمیں درپیش ہے اس سے نکلنے کے لیے ایک بڑی سیاسی مفاہمت درکار ہے ۔ اگر ہم نے واقعی پرانے مسائل کو پس پشت ڈال کر مستقبل کی طرف پیش قدمی کرنی ہے تو سب ہی فریقین کو اپنی اپنی موجودہ سیاسی پوزیشن جس میں تلخیاں زیادہ ہیں سے پیچھے ہٹنا ہوگا اورایک درمیانی راستے کو بنیاد بنا کر نئے امکانات پیدا کرنا ہوںگے ۔
اس نظام نے اگر واقعی آگے بڑھنا ہے تو محض حکومت ہی نہیں بلکہ حزب اختلاف دونوں کو ایک مثبت اور تعمیری کام پر توجہ دینی ہوگی او راپنی موجودہ روش اور طرز عمل کو نظرانداز کرنا یا چھوڑنا ہوگا ۔ کیونکہ موجودہ تلخیاں و طرز عمل میں منفی رجحانات پہلے سے موجود مسائل میںاور زیادہ بگاڑ کو پیدا کریں گے۔ ایک دوسرے کی سیاسی قبولیت کو کیسے ممکن بنانا ہے یہ ہی اس وقت بڑی ریاستی ترجیح ہونی چاہیے۔
پی ٹی آئی کو جو بھی مینڈیٹ وفاقی یا صوبائی سطح پر ملا ہے اس کو قبول کرکے ہی آگے کا راستہ تلاش کیا جاسکتا ہے ۔ پی ٹی آئی کوکچلنے کی پالیسی اب تبدیل ہونی چاہیے ۔ یہ سوچ پی ٹی آئی پر بھی عائد ہوتی ہے ۔ پی ٹی آئی کو جو بھی جنگ لڑنی ہے، وہ سیاسی، آئینی اور قانونی دائرہ کار تک ہی محدود ہونی چاہیے اورکسی بھی صورت میں 9مئی جیسی پالیسی سے گریزکرنا ہوگا ۔ٹکراؤ کی پالیسی اگر حکومت کے لیے نقصان د ہ ہے تو یہ پالیسی حزب اختلاف یا پی ٹی آئی کے بھی مفاد میں نہیں ہوگی ۔
پی ٹی آئی کے بیشتر سنیئر قیادت جیلوں میں قید ہے ۔کئی اہم راہنماوں نے جیلوں میں بیٹھ کر انتخاب لڑا ہے ۔ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں محمود الرشید ،اعجاز چوہدری،عالیہ حمزہ ، شاہ محمود قریشی ، فردوس نقوی سمیت پی ٹی آئی کے کئی افراد گرفتار ہیں ۔ ان میں اعتدال پسند لوگ بھی ہیں جو مفاہمت کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں، اگر ان سے کچھ بڑی غلطیاں ہوئی ہیں تو اس کا ازالہ بھی سیاسی عمل اور سیاسی حکمت عملی کے تحت ہی تلاش کیا جانا چاہیے ۔کیونکہ سیاسی قوتیں یا سیاسی جماعتوں کو محض طاقت کی بنیاد پر نہ پہلے کبھی ختم کیا جاسکا او رنہ اب ختم کیا جاسکتا ہے ۔
مسلم لیگ ن او رپیپلزپارٹی کا سیاسی و حکومتی اتحاد جس میں ایم کیو ایم اور باپ پارٹی جیسی جماعتیں بھی شامل ہیں، ان پر زیادہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔
اگر وفاق سمیت چاروں صوبوں پر صوبائی حکومتوں کی تشکیل دیکھیں تو اس میں حکومتی نظام کو چلانے او رکارکردگی دکھانے کی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے ۔ایک طرف حکومتی سیاسی او رمعاشی کارکردگی جو عوام میں ایک بڑے سیاسی و معاشی ریلیف کو قائم کرسکے اور دوسرا اپوزیشن سے سیاسی طور پر نمٹنے کی حکمت عملی ہی ان کی حکومتی ساکھ کو قائم کرسکے گی ۔
بنیادی نقطہ مفاہمت پر مبنی پالیسی ہے۔ یہ پالیسی حکومت اور حزب اختلاف سمیت ریاستی سطح پر بھی واضح اور شفاف نظر آنی چاہیے۔ مفاہمتی پالیسی میں سیاسی بلیک میلنگ یا کسی کو قبول کرنا او رکسی کو قبول نہ کرنے کی سیاسی ضد بھی اب ختم ہونی چاہیے۔
مفاہمت کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے لیے ایک دوسرے کی سیاسی قبولیت، مینڈیٹ کا احترام، سیاسی انتقامی کاروائیوں کا خاتمہ، سیاسی قیدیوں کی رہائی، پرامن سیاسی سازگار پر مبنی حالات، سب کو آزادانہ بنیادوں پر سیاسی سرگرمیوں کی اجازت، سیاسی جماعتوں میں تحفظات کے باوجود بنیادی معاملات یا مسائل پر بڑا اتفاق رائے، سیاسی اختلافات میں سیاسی دشمنی یا بدلہ کی سیاست کا خاتمہ اور ریاست یا حکومت سے جڑے مسائل و معاملات میں بات چیت یا مکالمہ کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے کے لیے سیاسی راستے فراہم کرنا ہے۔
موجودہ سیاسی حالات اور سیاسی تقسیم میں یہ سب باتیں خواب ہی لگتی ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ ہماری سوچ او رفکرکے مقابلے میں محازآرائی او ربدلہ کی سیاست کو بالادستی حاصل ہے ۔لیکن حقیقی سیاست وجمہوریت کی یہ ہی خوبی ہوتی ہے کہ وہ مشکل حالات میں سے بھی مثبت راستوں کو تلاش کرتی ہے ۔اسی طرح اب اس تاثر کی بھی نفی ہونی چاہیے یا یہ ختم ہونی چاہیے کہ اسٹیبلیشمنٹ اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں ۔ کیونکہ اس لڑائی نے بھی سیاسی حالات کو مخدوش اور نئے راستوں کے امکانات کو کمزور کیا ہے۔
اسٹیبلیشمنٹ کے سامنے بھی بڑا سیاسی سیاسی او ر معاشی استحکام سمیت سیکیورٹی کے حالات کو بہتری کی طرف لانا ہے ۔ یہ اسی صورت ممکن ہوگا جب سب اپنے اپنے سیاسی، آئینی، قانونی دائرہ کار تک خود کو محدود رکھیں اور ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت سے گریز کیا جائے۔
سیاست دانوں او راسٹیبلیشمنٹ کے پاس یہ ہی موقع ہے کہ وہ ماضی کے مقابلے میں زیادہ فہم وفراست، تدبر یا بردباری کے ساتھ معاملات کو دیکھیں اور ان کی ترجیح وہ نہیں ہونی چاہیے جو اب تک اختیار رکھی گئی ہے، اس کو تبدیل کرکے ہی مستقبل کا راستہ تلاش کیا جاسکتا ہے۔