امید کا دامن نہ چھوٹے
حکم میں ریاست کو سات دن کے اندر تعمیل کرنے کا بھی کہا گیا ہے
ہالینڈ کی حکومت کو اپنے ہی ملک کی ایک اپیل کورٹ حکم دیتی ہے کہ وہ اسرائیل کو ایف 35 لڑاکا طیاروں کے پرزوں کی تمام برآمدات روک دے، کیونکہ خدشہ ہے کہ وہ غزہ پر اسرائیل کی جارحیت کے دوران بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی میں استعمال ہو رہے ہیں۔
حکم میں ریاست کو سات دن کے اندر تعمیل کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔ حکومت نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرے گی،کیونکہ اس حکم نے ریاست کی خارجہ پالیسی بنانے کی ذمے داری سے تجاوز کیا ہے۔
ہالینڈ کے وزیر تجارت کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو ایف 35 کا پرزوں کی فراہمی بلاجواز نہیں ہے، انھوں نے کہا کہ ایف 35 طیارے اسرائیل کی سلامتی اور خطے میں ایران، یمن، شام اور لبنان کے خطرات سے بچانے کی صلاحیت کے لیے بہت اہم ہیں۔
اسرائیل کی حفاظت کے تحت ایف 35 طیارے جو جنگی حوالے سے خاصے کارگر ہیں۔ ہالینڈ کس مستعدی سے اپنی ذمے داری انجام دینے میں لگا ہے اور جن ممالک کو خطرات کی فہرست میں شمارکیا گیا ہے وہ مسلم ممالک ہیں یہ تو واضح نظر ہی آتا ہے۔
امریکی سینیٹ کی طرف سے بھی ایک بڑا بل پاس کیا گیا ہے جس کے تحت یوکرین اور اسرائیل کو ایک خطیر رقم دان کرے گا، کیونکہ اسرائیل ایک کمزور، مظلوم بے چارہ ملک ہے جسے اپنی سیکیورٹی کے خدشات کے تحت ایک بہت بڑا سرمایہ کار درکار ہے تاکہ وہ حماس کے ممکن وارکو کنٹرول کرسکے۔
یہ الگ بات ہے کہ اسرائیل کے نیتن یاہو جو بظاہر کہنے میں جوبائیڈن کی ناک میں دم کر چکے ہیں لیکن آخر وہ کون سا حربہ ہے جو جوبائیڈن ایک گھبرائے بچے کی مانند نیتن یاہو جیسے شیطان صفت بچے کی ہر بات اوکے کرتے جا رہے ہیں۔
ساری دنیا میں الیکشن کے چرچے تو ہو رہے ہیں اس کے درپیش ان ممالک کے سربراہان کیا کیا دکھ جھیل رہے ہیں یہ کوئی معصوم جوبائیڈن سے پوچھے جنھیں اس عمر میں بھی الیکشن الیکشن کھیلنے کا شوق ہے جیسے اپنے دور حکومت میں تو انھوں نے دنیا کو رنگین میٹھی گولیاں کھلائی ہیں۔
تعصب اور حسد کا جذبہ اس قدر اونچے درجے پر پہنچ چکا ہے جس نے دنیا بھر میں عجیب و غریب رجحان کو پروان چڑھایا ہے۔ یہ رجحان حماس کی آڑ میں فلسطینی مظلوموں کے خون کی ہولی اور اس ارض مقدس پر اپنے قبضے کی چاہ۔ اس پورے معاملے میں اگر کسی کا نقصان ہوا ہے تو وہ فلسطینی مسلمانوں کا ہوا ہے۔
واضح اور دو ٹوک الفاظ میں یہ جنگ دنیا بھر میں ظالم اور مظلوم کی کہانی لے کر ابھری ہے جہاں مظلوم کے پیچھے مسلمانوں کی ایک طویل فہرست نظر آ رہی ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے جام شہادت نوش کرتے آئے ہیں۔
ایک جانب طاقت کے نشے میں چور قوتیں ہیں تو دوسری جانب اپنے حقوق کی آزادی اور وطن عزیز کی حفاظت کی خاطر لڑنے والے عوام۔ جو سڑکوں، بازاروں، اسپتالوں اور اسکول، کالجز تک میں محفوظ نہیں ہیں لیکن دوسری جانب ان مظلوموں کو نشانے تاکنے والوں کی مدد کے لیے امدادیں جاری ہیں، اگر جوبائیڈن اس جنگ کو روکنا بھی چاہتے ہیں تو یقین کر لیں کہ یہ ان کے دل کی نرمی یا رحم کا کوئی جذبہ نہیں ہے بلکہ یہ الیکشن کی لہروں کی خبریں ہیں۔
بھارت میں نریندر مودی جو نیتن یاہو کے اچھے دوستوں میں شمار کیے جاتے ہیں ان کے قدموں کو پڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں گو 1992 سے ہی وہ اپنے جنونی عزائم کی بنیاد رکھ چکے تھے لیکن اب عملی طور پر انھیں کھل کر کھیلنے کا موقع ملا ہے۔
آپ دنیا بھر میں مظلوم مسلمانوں کی دکھ بھری تصاویر اور ویڈیوز دیکھتے ہیں توکیا آپ کی آنکھیں نم نہیں ہوتیں، کیا آپ کا دل نہیں تڑپتا؟ لیکن ہم جس تیز رفتاری سے بے حسی اور خود غرضی کی جانب بڑھ رہے ہیں وہ ہمیں اچھے سگنلزکا اشارہ نہیں دیتا۔ آئی ایم ایف کی قسطیں ملتی ہیں تو ان کا ہم کیا کرتے تھے یا کیا کریں گے؟
سوال ہی سوال ہیں جب کہ جھولیاں تو پہلے ہی پھیلی ہوئی ہیں۔ وزارت عظمیٰ کی کرسی تو دورکی بات ہے حضرت! ہمارے پیارے ملک میں تو بسوں، ویگنوں کی سیٹوں پر بیٹھنے کے لیے لڑائیاں ہوتی ہیں۔ آدھ گھنٹے یا پون گھنٹے کے سفرکو بھی سہل بنانے کے لیے لوگ کبھی سچائی سے تو کبھی اداکاری سے اپنے مطلب نکالتے ہیں، اگر ناکامی ہو تو اس صورت میں بہت کچھ نظر آ جاتا ہے باقی دل میں ابلتا رہتا ہے۔
اب چاہے کوئی کسی پریزائیڈنگ آفیسر کے تھپڑ مارے یا کسی پولیس جوان پر، کبھی نظر آجاتا ہے اور کبھی چھپ جاتا ہے اور جو نظر آ جاتا ہے تو بالآخر عیاں ہو جاتا ہے کہ تعصب اور حسد کا جذبہ تو سب کے اندر ہی جوش مارتا رہتا ہے پھر وہ کسی بڑی سیٹ کا الیکشن ہو یا ریڈ یا گرین بس کی سیٹ، ویسے بھی عوام کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ پہلے بھی عزت کی دو وقت کی روٹی کے لیے جدوجہد کرتے تھے اور اب بھی کریں گے۔
لیکن کبھی ہم نے غور کیا ہے کہ ہم ایک امت کی حیثیت سے بھی اپنا انتخاب ہار رہے ہیں، پر ہمیں اس کی بالکل فکر نہیں، آخر ہم کب فکر کریں گے؟ نوٹوں کے پہاڑ کے اوپر سے جھانکتے ہوئے کیا اب بھی ہماری آنکھیں تھکی نہیں ہیں؟ آخر یہ سلسلہ کب تک یوں ہی چلتا رہے گا، لیکن ہم پھر بھی مایوس نہیں ہیں کہ رب العزت کو مایوسی پسند نہیں۔