ریفارمز
ہمیں اپنے بجٹ یا پھر وسائل کی تقسیم اسی انداز میں کرنی ہوگی جس طرح اس خطے میں ہندوستان یا پھر بنگلہ دیش نے کی ہے
واقعہ نو مئی کے اثرات ابھی باقی ہیں اور خاں صاحب چلے ہیں ایک اور معرکہ مارنے، آئی ایم ایف کو خط لکھنے کہ پاکستان کو پیسے تب تک ریلیز نہ کیے جائیں جب تک کہ ان حلقوں میں مکمل تحقیق نہ کروائی جائے جن حلقوں میں دھاندلی ہوئی ہے، توکیا آئی ایم ایف نے دنیا میں ہمارے جیسے ملکوں کو ایڈ دیتے وقت ایسی کوئی شرط رکھی ہے یا پھر آئی ایم ایف نے جو ایڈ ہمیں مارشل لاء کے ادوار میں دیں یا پھر RTS کے معاملے جو اتنی بڑی دھاندلی ہوئی کیا اس میں ایسا کچھ ہوا۔
اسی طرح کے اقدام عمران خان حکومت کے وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین اور خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ تیمور جھگڑا نے شہباز شریف کی سربراہی میں اتحادی حکومت کو مفلوج کرنے کے لیے اٹھائے تھے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جوکچھ کہا ہی نہیں، کیوں ان کے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے، سارے وکیل ان کے شانہ بشانہ ہوں گے اور خان صاحب تنہا رہ جائیں گے جیسے جنرل پرویز مشرف نے افتخار محمد چوہدری کے خلاف مہم چلائی مگر وہ خود تنہا رہ گئے۔
قانون کبھی retrospective نہیں چل سکتا۔ قانون تب ہی سے نافذ العمل ہوتا ہے جب وہ تشکیل پاتا ہے یا پھر لاگو ہوتا ہے یعنی قانون اپنی روح میں prospective ہوتا ہے۔ قانون خود اپنا راستہ بتاتا ہے، اگر قانون کسی معاملے میں خاموش ہوتا ہے تو پھر آئین سے رہنمائی لی جاتی ہے، کسی ایک کیس میں نہیں، ہزاروں کیسز میں ایسا ہوا ہے۔
اس بات کی سمجھ شاید خان صاحب کو اب بھی نہیں کہ ان کا تمام بیانیہ پروپیگنڈے پر مشتمل ہے اور یہ بھی کہ ایسا بیانیہ بنانے میں ان کے جیسا کوئی نہیں۔ وہ اس بات کو ماننے کے لیے بھی تیار نہیں کہ انھوں نے ملک کو تباہی کی طرف دھکیلا ہے کیونکہ وہ اس ملک کی ترقی کے لیے کوئی visionنہیں رکھتے۔ ہاں ! ان کا ووٹ بینک ہے، وہ اس ملک میں ایک مخصوص سوچ اور طرز معاشرت کے ترجمان ہیں اور جھوٹ بولنے میں مہارت رکھتے ہیں۔
نئی منتخب وفاقی حکومت کو سب سے بڑا چیلنج معاشی بحالی کا ہے۔ خاں صاحب کی حکومت کے بعد شہباز شریف پی ڈی ایم کی قیادت میں اپنے ڈیڑھ سالہ دور حکومت میں اس چیلنج کو عبور نہ کرسکے، جس کی ایک وجہ شاید اسحاق ڈار بھی تھے، جنھوں نے ڈالرکوکیپ کر دیا اور ملک کی ترسیلاتِ زر میں ایک دم سے کمی آگئی۔
تارکین وطن کو ریمیٹینس بھیجنے کے لیے ڈالرکے بدلے روپے ہنڈی کے ذریعے زیادہ مل رہے تھے اور یہی وجہ تھی کہ روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں تیزی سے گری۔ مارکیٹ اور معیشت کو سمجھنے والا کبھی ایسے اقدام نہیں کرے گا۔ برعکس اس کے شمشاد اختر کے زمانے میں بے شک آئی ایم ایف کی تمام شرائط کو مانا گیا لیکن معاشی استحکام ضرور آیا۔
بہرحال یہ نگران حکومت تھی ان کو اس بات سے سروکار بھی نہیں تھا کہ وہ عوام میں مقبول ہوںگے یا پھر غیر مقبول۔ اس وقت یہ سوچ اور پریشانی زرداری صاحب کو بھی لاحق ہے اور شہباز شریف کو بھی۔ ان کا رجحان اس وقت یہ ہے کہ ملک کی معیشت کو بھی سہارا ملے اور وہ عوام میں غیر مقبول بھی نہ ہوں۔ وفاقی حکومت کے لیے حزبِ اختلاف بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے کیونکہ وہ حکومت کو چلنے نہیں دیں گے۔
ملک میں خانہ جنگی برپا کرنے کی کوشش گے اور منفی پروپیگنڈے پر زور رکھیں گے، مذہبی کارڈ کا بھرپور استعمال کریں گے، طالبان سے مراسم بڑھائیں گے اور پارلیمنٹ میں بدنظمی پھیلائیں گے، اب کوئی جسٹس ثاقب نثار، بندیال، آصف کھوسہ یا اعجاز الحسن،تو نہیں ہیں مگر اب بھی بہت کچھ ہے، پی ٹی آئی کے پاس اشرافیہ کا ایک مخصوص ٹولہ ہے، کئی اینکرز، قلم کار، یوٹیوبرز، ٹک ٹاکرز اور ریٹائرڈ افسروں کے مخصوص گروہ ہیں جن کی خاں صاحب کے دورِ حکومت میں چاندی لگی ہوئی تھی، شاید اب بھی ہو۔
اس حکومت کو سنگین مسائل کا سامنا ہے اور اگر اس حکومت نے بھی ملک کی معیشت کو مستحکم نہیں کیا تو پھر بہت دیر ہوجائے گی، اس ملک کی اکانومی آدھی سے زیادہ ڈاکومینٹڈ نہیں۔ اس ملک کی اکانومی کا ڈاکومنٹڈ نہ ہونے کی ایک وجہ اسمگلنگ ہے۔ پورا افغانستان ہماری گندم و دیگر زرعی اجناس پر چلتا ہے، ڈالرز ادھر جاتے ہیں،بدلے میں ہمیں کیا ملتا ہے، منشیات، اسلحہ، نان کسٹمز پیڈ لگثری گاڑیاں دہشت گرد، انتہا پرستی کا بیانیہ ۔ایران کا بارڈر بھی ایسا ہی ہے۔
ایسے ہی لوگوں سے ہماری ریاستی مشینری کا ماضی قریب تک اتحاد رہا، اس لیے کہ پاکستان میں جمہوریت پھلے اور پھولنے نہ پائے۔ انھیں اتحادوں کا عکس ہیں پچھلے چالیس سال ۔
آنے والی وفاقی حکومت کو پاکستان کی بقاء، ترقی اور خوشحالی کے لیے ان ہی گروہوں سے باقاعدہ جنگ لڑنی پڑے گی، جناح کے پاکستان کو واپس لانے کی جنگ اور اگر یہ جنگ ہم ہارگئے تو کچھ ہار جائیں گے۔ اسی لیے نئی حکومت کو بہت جامع، ٹھوس اور دلیرانہ فیصلے لینے ہوںگے ، ملک کی معیشت کی بحالی اور انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے، بھلے ہی ان کی مقبولیت کچھ عرصے کے لیے کم ہو جائے، اس وقت سب کچھ داؤ پر لگا ہے۔
ہماری اسٹبلشمنٹ نے Paradigm shift لے لی ہے۔ ایک مخصوص گروہ نے دہشت گردوں کو واپس بلا کر اس آزاد ملک کو یرغمال بنانے کی کو شش کی، اس کے نتائج ہم بھگت چکے ہیں۔ بہرحال اب اسٹبلشمنٹ کی سوچ یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کو پروان چڑھایا جائے کیونکہ اور کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔ ملک آئین کے تابع ہو اور پارلیمنٹ کو مضبوط کیا جائے۔
اس ملک میں ریاستی مشینری اختیارات و فرائض اور ڈیوٹی کے حوالے سے ادارہ جاتی قوانیں و ضوابط میں اصلاحات لانے کی شدید ضرورت ہے، نظام انصاف میں اصلاحات لانا بھی انتہائی، ضرور ہے، غیرترقیاتی اخراجات کو کم کرنا ہوگا۔
ہمیں اپنے بجٹ یا پھر وسائل کی تقسیم اسی انداز میں کرنی ہوگی جس طرح اس خطے میں ہندوستان یا پھر بنگلہ دیش نے کی ہے۔ ہمیں معاشی طور پر afloat رہنا ہے ۔ ایک ایسے ملک میں جہاں فتنہ ہو وہاں یہ آسان نہ ہوگا کیونکہ یہ فتنے ایسی ریاستوں میں ہی جنم لیتے ہیں جو ریاستیں صحیح ستونوں پر نہیں ہوتیں۔
تاریخ کے انھی حقائق سے ہمیں سبق لینا چاہیے کہ اب پاکستان میں تیزی سے ریفارمز لانے کی ضرورت ہے۔ پارلیمنٹ کو مضبوط بنانا ہوگا۔ ہمیں آئین کے تابع ہوتے جناح کے پاکستان کی طرف لوٹنا ہوگا جو جنرل ضیاء الحق سے پہلے کا پاکستان تھا۔ ہمیں ایک ایسی ریاست کی طرف جانا ہو گا، جس کی معیشت مضبوط ہو، وفاق مضبوط ہو اور خطے میں امن کی خواہاں ہوں۔ ایسے ہی اس ملک کو آگے بڑھانا ہوگا جیسے بنگلہ دیش اور ہندوستان آگے بڑھ رہے ہیں۔