غیر ملکی پودے ہمارے ماحول مقامی انواع اور جنگلی حیات کیلیے خطرناک
کئی ایسے ہیں جو جلدی امراض اور دمے سمیت مختلف بیماریوں کا سبب بنتے ہیں
پنجاب میں غیر مقامی پودوں کی شجر کاری کا رجحان بڑھنے سے مقامی پودوں اور جنگلی حیات کے لیے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔
بڑے شہروں میں بننے والی ہاؤسنگ اسکیموں اور گھروں کی خوبصورتی کے لیے بھی غیر ملکی پودوں اور درختوں کو ترجیح دی جاتی ہے جس کی وجہ سے نرسریوں میں اب بدیسی پودوں کی کثرت دکھائی دیتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ غیرملکی پودوں نے کئی مقامی پودوں کی انواع کو معدومی کے خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔
پنجاب میں اس وقت پودوں کی سیکڑوں نرسریاں ہیں جہاں مقامی پودوں کے علاوہ غیر ملکی پودے بھی فروخت کیے جاتے ہیں۔ غیر ملکی پودوں کی چند اقسام ان ڈور استعمال کے لیے ہیں، یہ پودے گھر اور کمرے کے ماحول کو خوشگوار بناتے ہیں اور آرائش کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں، بعض غیر ملکی پودے گھروں کے صحن، باغات اور گرین بیلٹس میں لگائے جاتے ہیں۔ تاہم غیر قانونی طریقے سے پاکستان میں درآمد کیے گئے ان غیر ملکی پودوں میں کئی ایسے ہیں جو جلدی امراض اور دمے سمیت مختلف بیماریوں کا سبب بنتے ہیں جبکہ مقامی پرندوں، حشرات، فصلوں اور پودوں کے لیے بھی نقصان دہ سمجھے جاتے ہیں۔
غیر ملکی پودے چین، تھائی لینڈ، ہالینڈ، بھارت، سری لنکا اور یورپی ممالک سے منگوائے جاتے تھے۔ ان غیرملکی پودوں میں اگلومینا، لکی بیمبو، انتھونیم، بون زئی، کنیرین پام، فنیکس سیلویسٹا، کاپرنیسیا، بوکس پلانٹ، آئیلکس پلانٹ اور اولیو وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
پنجاب کی تحصیل پتوکی میں سب سے زیادہ نرسریاں ہیں۔ مقامی نرسری کے مالک محمد ذیشان نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت غیرملکی پودوں کی ڈیمانڈ زیادہ ہے، لوگ گھروں میں باغیچوں کی سجاوٹ، سڑکوں، پارکوں، گھروں کی چھتوں پر لگانے کے لیے غیرملکی پودوں کو پسند کرتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ پودے جلدی گروتھ پکڑتے ہیں اور خوبصورت بھی لگتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر پودے امپورٹ کیے جاتے ہیں تاہم چند ایک ایسے بھی ہیں جن کے بیج اور پنیری امپورٹ کی جاتی ہے۔ ان پودوں کی قیمت ایک ہزار سے ایک لاکھ روپے تک ہے جبکہ بعض پودے ایسے بھی جن کی قیمت لاکھوں روپے ہے۔
غیرملکی پودے پاکستان میں امپورٹ کیسے کیے جاتے ہیں، اس حوالے سے پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کے سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر وسیم الحسن نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ کسی بھی غیر ملکی پودے کی درآمد پر کوئی پابندی عائد نہیں ہے، کوئی بھی شخص قانونی تقاضے پورے کرکے غیر ملکی پودے درآمد کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس ملک سے پودے درآمد کیے جانے ہوں وہاں کی حکومت ان پودوں کی تفصیلات فراہم کرتی ہے کہ یہ پودے کس ماحول میں پرورش پاتے ہیں، انہیں کس قدر درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے، ان پودوں پر کس قسم کے پھل یا پھول آتے ہیں اس کے علاوہ کون سے کیڑے ان پودوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر وسیم الحسن کہتے ہیں کہ ان تفصیلات کے تناظر میں مقامی ماحول، آب و ہوا اور جس جگہ وہ پودے کاشت کیے جانے ہوتے ہیں وہاں کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ اگر محکمہ یہ سمجھے کہ غیر ملکی پودوں کی وجہ سے ہمارا ماحول متاثر ہوسکتا ہے، یا وہ پودے ہمارے ماحول میں پروان نہیں چڑھ سکیں اور یہ کہ ان پودوں پر حملہ آور ہونے والے کیڑے ہماری مقامی فصلوں اور پودوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں تو پھر ایسے پودوں کی درآمد کی اجازت نہیں دی جاتی۔
حکومت کی پالیسی اپنی جگہ تاہم یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ برسوں میں غیرقانونی طریقے سے کئی اقسام کے لاکھوں پودے پاکستان درآمد کیے گئے جن کی وجہ سے ہماری مقامی اقسام، ماحول اور جڑی بوٹیوں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ کئی اقسام کی بیماریوں نے بھی جنم لیا ہے۔
پاکستان میں غیر ملکی پودوں کا باقاعدہ ریکارڈ دستیاب نہیں لیکن ایک اندازے کے مطابق یہاں 700 سے زائد بدیسی پودوں کی اقسام موجود ہیں جن میں سے کئی اقسام مقامی پودوں اور جانوروں کے لیے خطرہ بن چکی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہم گل توت ہے جس سے انسانوں میں الرجی پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح کیکر کے درخت نے ببول اور شیشم کے درختوں سمیت کئی مقامی جڑی بوٹیوں کی افزائش کو متاثر کیا ہے۔ جنوبی امریکا سے درآمد شدہ واٹر فرن اور گل بکاؤلی کی وجہ سے سندھ کے آبی ایکو سسٹم کو نقصان پہنچا ہے، افریقا سے درآمد شدہ کونو کارپس کی وجہ سے پولن الرجی اور دمہ کی بیماری پھیلتی ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ نباتات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر اسد شبیر جو ان دنوں آسٹریلیا کے شہر سڈنی کی ایک سرکاری یونیورسٹی میں باٹنی ماہر کے طور پر تدریسی فرائض سرانجام دے رہے ہیں، انہوں نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ بعض غیر مقامی پودوں کے ہمارے ماحول پر منفی اثرات ہوتے ہیں، یہ درخت حیاتیاتی تنوع کو خراب کرتے ہیں۔ اس سے کئی اقسام کے حشرات کو خطرات ہیں اور پودوں میں پولی نیشن کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان غیرمقامی پودوں اور درختوں کی وجہ سے کئی اقسام کے مقامی درخت ختم ہو رہے ہیں اور معدومی سے دوچار ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کونو کارپس ہماری مقامی آب و ہوا کے لیے بالکل بھی مناسب نہیں ہے۔ کونو کارپس دوسرے درختوں کی افزائش پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں جبکہ پرندے بھی ان درختوں کو اپنی رہائش اور افزائش نسل کے لیے استعمال نہیں کرتے ہیں۔
ڈاکٹر اسد شبیر کہتے ہیں کہ جب غیر ملکی پودے کسی اور جگہ کاشت کیے جاتے ہیں تو اکثر ناموافق آب و ہوا اور آپس کے مزاج میں مماثلت نہ ہونے کے سبب تصادم کا شکار ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا کسی دوسرے خطے کی نباتات کو اپنے ہاں متعارف کرانے سے پہلے اس پر تجربات کیے جانے چاہئیں اور ان کے نقصانات اور فوائد کا تجزیہ کیا جانا چاہیے۔
پاکستان میں ماحولیات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے سرگرم فہد ملک کہتے ہیں کہ ''اکثر لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ ہمارے ماحول میں جگنو، تتلیاں، شہد کی مکھیاں کیوں نظر نہیں آتی جبکہ طوطے، مینا، بلبل اور دوسرے پرندے کیوں معدوم ہوتے جا رہے ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان انواع کو جہاں دیگر عوام سے نقصان پہنچا ہے وہیں ان کی معدومی کی بڑی وجہ ان کے مسکن کا خاتمہ ہے۔ فہد ملک نے کہا کہ راطوطے مقامی درختوں پر ہی گھونسلا بنانا پسند کرتے ہیں۔ جب مقامی درخت ختم ہوئے تو طوطے بھی ہم سے روٹھ گئے۔
انہوں نے کہا کہ ہمسایہ ممالک بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، چائنہ اور ایران میں مقامی درختوں، پودوں اور جڑی بوٹیوں پر تحقیق ہو رہی ہے۔ ان ممالک میں مقامی فلورا کو آج کی ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ان پر تحقیق کی جا رہی ہے تاکہ انہیں ناپیدی سے بچایا جا سکے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں اس حوالے سے کوئی تحقیق کی گئی ہے اور نہ ہی کسی حکومت کی یہ ترجیح رہی ہے۔