طوفانی بارشیں اداروں کی کارکردگی
سب سے بڑا مسئلہ ملک میں غذائی قلت کی صورت میں پیدا ہوا ہے
بلوچستان کے شہر گوادر میں 16 سال بعد فروری میں ریکارڈ موسلادھار بارشوں کے بعد اربن فلڈنگ سے نظام زندگی بری طرح متاثر ہوا ہے۔
بارش کی شدت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ گوادر ایئرپورٹ کو فلائٹ آپریشن کے لیے بند کرنا پڑگیا ، ندی نالے اوور فلو ہوگئے ، یوں سیوریج کا نظام مفلوج ہوگیا اور بارش کا پانی گھروں میں داخل ہونے کے بعد متعدد گھروں کی دیواریں منہدم ہوگئیں۔ سڑکوں پر بارش کا جمع ہونے سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی ہے۔
ادھر کوئٹہ، زیارت، چمن، پشین اور کیچ میں گرج چمک کے ساتھ بارش اور پہاڑوں پر برف باری کا امکان ظاہر کیا گیا ہے جب کہ محکمہ موسمیات نے آنے والے دنوں میں پنجاب ، بلوچستان اور خیبرپختون خوا کے مختلف علاقوں میں شدید بارشوں اور پہاڑی علاقوں میں برف باری کی اطلاع دی ہے۔
گوادر میں بارش نے جو جل تھل ایک کیا، یہ ایک شہر ، قصبے یا گاؤں کا مسئلہ نہیں ہے ، کراچی ، لاہور، پشاور اور کوئٹہ ہر شہر میں بارش سے یہی کچھ ہوتا ہے ، جس کا نظارہ گوادر میں کیا جاسکتا ہے بلکہ کراچی میں تو معمولی سے بارش بھی شہر کو مفلوج کردیتی ہے ۔
لاہور میں گزرے برس مون سون کے دوران بارشوں نے ترقیاتی کاموں کی قلعی کھول دی جب انڈر پاسز بارش کے پانی کا تالاب بن گئے ، سڑکوں پر سیلاب کا منظر دکھنے لگا، سیوریج سسٹم بارشوں کے پانی کا بوجھ نہ اٹھا سکا ۔ پشاور میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے ، وہاں بھی ترقی کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے، اندرون سندھ میں سیلاب کا پانی کئی ماہ تک تالاب کی صورتحال ٹھہرا رہا۔
اس صورتحال نے صوبائی و شہری سرکاری اداروں کی کارکردگی کا پول کھول دیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ ان اداروں کے افسران اور ملازمین کو عوام کے ٹیکسوں سے جو تنخواہیں، سہولیات و مراعات دی جارہی ہیں، یہ ٹیکس دینے والے شہریوں کے ساتھ کھلی زیادتی ہے۔
ان اداروں کے قیام کا مقصد ہی یہی تھا کہ کسی بھی ہنگامی حالت کے لیے پہلے سے تیار ہوں مگر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ جب بھی کوئی مشکل صورتحال سامنے آتی ہے، یہ ادارے بے بس دکھائی دیتے ہیں،ان کی کارکردگی ماسوائے جمع تفریق کے کچھ نہیں رہتی، غیرمعمولی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کسی قسم کا پیشگی بندوبست نہیں کیا جاتا، اگر یہ ادارے کام کر رہے ہوتے اور ان کی کارکردگی فعال اور تسلی بخش ہوتی تو کراچی ، لاہور، پشاور اور کوئٹہ جیسے شہروں میں ناجائز تجاوزات قائم ہوتیں، نہ سیوریج سسٹم مفلوج ہوتا۔
اس نوع کے واقعات کم و بیش ہر سال ہی دیکھنے کو ملتے ہیں، البتہ کسی سال ان کی شدت اور سنگینی کم اور کسی سال زیادہ ہوجاتی ہے، چنانچہ اس قسم کی صورتحال سے محفوظ رہنے کے لیے حکومتیں باقاعدہ لائحہ عمل تیار کرتی اور ایک منصوبہ بندی کے ساتھ اس پر عمل درآمد کیا جاتا ہے اور سرکاری عملہ سارا سال متحرک رہتا ہے جب کہ ہمارے ہاں شروع دن سے وقتی پالیسی ہی پر گزارا کیا جاتا رہا ہے جس کا نتیجہ تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔
پاکستان کا شمار موسمیاتی تبدیلی کے اعتبار سے دنیا کے کمزور ممالک میں ہوتا ہے جس کی ایک مثال 2022 میں آنے والے سیلاب سے ملتی ہے جس کی تباہی سے ملک میں تقریباً 3 کروڑ افراد کی زندگیاں متاثر ہوئی تھیں اور یہ طے ہے کہ جب سیلاب آتے ہیں تو اپنے پیچھے بہت سے مسائل بھی چھوڑ جاتے ہیں۔
ان میں انفرا اسٹرکچر کی تعمیر و مرمت، تباہ حال فصلوں کی بحالی، بیماروں اور زخمیوں کے لیے مناسب علاج معالجے کی سہولیات کی فراہمی، سالڈ ویسٹ کو ٹھکانے لگانے اور ان سے پیدا ہونے والے وبائی امراض سے بچاؤ اور روک تھام کا کام بذات خود ایک بڑا اور جان جوکھوں کا کام ہوتا ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ ملک میں غذائی قلت کی صورت میں پیدا ہوا ہے۔ گندم اورچاول سمیت ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہونے سے ان کی مطلوبہ پیداوار حاصل نہیں ہوسکی، جس کی وجہ سے زرعی اجناس کی طلب اور رسد کے درمیان فاصلہ بہت بڑھ گیا اور ملکی ضروریات کے پیش نظر ہمیں اجناس بیرون ممالک سے درآمد کرنا پڑیں۔
سو اب وقت ہے کہ حکومت پیش آمدہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر منصوبہ بندی کرے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان مناسب کوآرڈینیشن کی ضرورت ہوگی، چونکہ یہ اجتماعی مفاد اور قومی نوعیت کا معاملہ ہے اس لیے اس میں سیاسی جماعتیں سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر محض اجتماعی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے ایسے اقدامات کریں تاکہ ہمیں مزید کسی امتحان سے نہ گزرنا پڑے۔
انسان کے ہاتھوں انسان مشکل میں ہے اور کرہ ارض پر انسانوں کی بقاء خطرات سے دوچار ہوچکی ہے۔ دنیا کے وہ ممالک جو جنوبی کرہ میں واقع ہیں، پاکستان بھی اِن ہی میں شامل ہے، یہ موسمیاتی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہیں جب کہ اِن کے پاس آمدنی کے خاطر خواہ وسائل بھی نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے 'یو این ڈی پی' کی مرتب کردہ انسانی ترقی کی رپورٹ '' دی نیکسٹ فرنٹیئر ہیومن ڈویلپمنٹ اینڈ اینتھروپوسین'' میں جامع تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ گزشتہ پچاس برس میں، عالمی آب و ہوا اور موسم سے متعلق آفات میں پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔
موسمیاتی اور انسانی ساختہ آفات کی شدت میں اضافے کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے دیگر خطرات کے عالمی میٹرکس میں پاکستان سرفہرست ہے اور ایک سو ترانوے ممالک کی فہرست میں سب سے زیادہ قدرتی آفات کا دوچار اور خطرات رکھنے والے ممالک میں پاکستان کا شمار ہوتا ہے۔ جنوبی اور جنوب مغربی ایشیا میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے مجموعی قومی پیداوار میں کمی کا سامنا ہے اور اِس کا اثر سب سے زیادہ مالی طور پر کمزور ممالک میں برداشت کیا جا رہا ہے، جن میں پسماندہ برادریاں خواتین، بچے، کسان، برفانی اور نشیبی ساحلی علاقوں میں رہنے والے لوگ شامل ہیں۔
پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے سرمایہ کاری پر سالانہ سات سے چودہ ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ جنوری دوہزار چوبیس کو اقوام متحدہ، پاکستان اور اس کے ترقیاتی شراکت داروں نے آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا جو جنیوا میں منعقد ہوئی۔
پاکستان نے قومی ماحولیاتی تنوع کی بحالی اور تعمیر نو کے فریم ورک ( فور آر ایف) پر عمل درآمد کے لیے دس ارب ڈالر سے زیادہ کے مالی وعدے حاصل کیے۔ ایک سال بعد تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف جمع کی گئی فنانسنگ کو عملاً فراہم کریں بلکہ پاکستان کی کارکردگی اور ماحولیاتی بہتری میں پیش رفت کا بھی جائزہ لیں۔
اب تک پاکستان کو جنیوا وعدوں کا تقریباً ستر فیصد یعنی قریب سات ارب ڈالر مل چکے ہیں۔ پاکستان جیسے کم متوسط آمدنی والے ممالک کے لیے، آب و ہوا کی تبدیلی اور پہلے سے موجود معاشی کمزوریوں کے درمیان تعلق ہے۔ آب و ہوا کی وجہ سے پیدا ہونے والے معاشی خطرات زراعت، بنیادی ڈھانچے، معاش، صحت عامہ کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں اور یہ سماجی و اقتصادی کمزوری میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔
اس باہمی تعامل کو سمجھنا اور آب و ہوا سے متعلق قومی لائحہ عمل (فریم ورک) اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اِس میں پاکستان کو درپیش قرضوں کے بھاری بوجھ سے نمٹنا بھی شامل ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلیوں سے نمٹنا، ماحول دوست اور پائیدار تعمیر و ترقی اور آب و ہوا کی تبدیلی کے لیے عالمی حکمت عملیوں پر عمل درآمد مرکزی حیثیت و اہمیت کا حامل ہے۔
پاکستان کے لیے یہ 'یو این ڈی پی' کے پانچ سالہ کنٹری پروگرام کا ایک بنیادی ستون بھی ہے' جو نہ صرف موسمیاتی تبدیلی بلکہ گورننس، اقتصادی ترقی اور جدت کے شعبوں سے بھی متعلق ہے۔ پاکستان کو ادارہ جاتی لچک دار پالیسی کی ضرورت ہے جو اس خیال پر مبنی ہو کہ افراد اور برادریوں کو ترقیاتی اسٹیک ہولڈرز، سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی حمایت حاصل ہو اور چونکہ کسی ملک کے ادارے قدرتی آفت میں سب سے پہلے رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔
پاکستان میں 5 فیصد رقبے پر جنگلات ہیں جب کہ ایک سر سبز ملک کے لیے 25 سے 35 فیصد تک رقبے پر جنگلات چاہئیں، اس لیے پودے زیادہ سے زیادہ لگاکر جنگلات میں اضافہ کرنا ہوگا، حکومت کو چاہیے کہ مختلف علاقوں میں چھوٹے بڑے ڈیم بنائے تاکہ بارش اور سیلاب کی صورت میں پانی ضایع ہونے سے بچا کر ذخیرہ کیا جاسکے۔
پاکستان میں تیل اور کوئلہ سے توانائی پیدا کی جاتی ہے جس سے گرین ہاؤس گیسز بھی پیدا ہوتے ہیں جو ماحولیات کے لیے انتہائی خطرناک ہیں، اس لیے عوام کو پیدل اور سائیکل پر سفر کرنے کی عادت بھی بڑھانی ہوگی کیونکہ اس سے توانائی کی بچت کے ساتھ ساتھ ماحولیات کا تحفظ بھی ہوگا۔
چند دنوں بعد قائم ہونے والی نئی وفاقی حکومت کے پاس موقع ہوگا کہ وہ ماحولیاتی بہتری کے عالمی و قومی وعدوں کو عملی جامہ پہنائے جو نہ صرف کسی آفت سے نمٹنے کے لیے قلیل اور طویل مدتی رد عمل کے طور پر اہم ہیں بلکہ یہ ایک ایسے فریم ورک کی حیثیت بھی رکھتے ہیں جس سے قدرتی آفات کے حوالے سے پاکستان کو مستقبل میں بھی محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔