قوم کی ایک بیٹی کے نام

بس یہی وہ موقع غنیمت تھا جب اس کے باپ اور بھائیوں کی ’’غیرت‘‘ نے انگڑائی لی، پہلے فرزانہ پر گولیاں چلائی گئیں


MJ Gohar June 10, 2014
[email protected]

ISLAMABAD: ابتدائے زمانہ ہی سے حوا کی بیٹیاں مردوں کے ظلم کا نشانہ بنتی آرہی ہیں، بیٹیوں کی پیدائش کو نحوست سمجھا جاتا اور اسے زندہ ہی زمین میں دفن کردیا جاتاتھا لیکن ظہور اسلام کے بعد حوا کی بیٹی کو عزت و احترام کا مرتبہ نصیب ہوا، اسلام نے عورت کو معاشرے میں مساوی حقوق دیے، ماں، بہن، بیٹی اور بیوی جیسے تقدیس کے رشتوں میں پرو دیا لیکن اسلامی تعلیمات پر عمل نہیں کیا جا رہا، یہ حوا کی بیٹی کی بد نصیبی ہے کہ اسے ان مقدس ترین رشتوں کے روپ میں بھی پوری طرح احترام ، عزت اور با وقار مرتبہ نصیب نہیں ہو رہا۔

ہر دور اور ہر معاشرے میں اس کے حقوق کو پامال کیا جاتا رہا ہے، بد قسمتی سے 21 ویں صدی کے جدید اور ٹیکنالوجی کے ترقی یافتہ دور میں بھی مرد ہی کو فوقیت اور بلند مرتبہ حاصل ہے، عورت آج بھی اس کی ''عزت اور غیرت'' کی پہچان بنی ہوئی ہے۔ مغربی معاشرے کو تو ایک طرف رکھیے کہ وہ غیر مسلم دنیا کے دیے اصولوں کا پروردہ ہے لیکن مسلم دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی قوت پاکستان کا معاشرہ عورتوں کے حقوق کی پامالی کے حوالے سے انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، عورتوں کی تعلیم و تربیت سے لے کر ان کے سماجی، معاشرتی و معاشی حقوق تک ہر شعبہ ہائے زندگی میں انھیں ''عبرت کا نشان'' بنا دیا گیا ہے۔

عورتوں پر تشدد، گھریلو تنازعات، جنسی استحصال، کم عمری کی شادیاں، آبرو ریزی کے واقعات، ونی و قرآن سے شادی جیسی رسومات سمیت مختلف النوع طریقوں سے عورتوں کے حقوق کو ''بازیچہ اطفال'' بنادیا گیا ہے اور سب سے بڑھ کر ''عبرت'' کے نام پر ''کاری'' قرار دے کر اس کے قتل کو ''واجب'' سمجھ لیا گیا ہے اور ایسے واقعات ملک کے چاروں صوبوں میں پیش آرہے ہیں، ایسے ہی ایک تازہ واقعے میں جو گزشتہ ہفتے لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں رونما ہوا، گجرانوالہ کی ایک 25 سالہ لڑکی فرزانہ کو ''غیرت'' کے ٹھیکیدار اس کے اپنے باپ اور بھائیوں نے سر عام اینٹیں مار مار کے ''عزت کی نیند'' سلادیا۔

واقعے کی تفصیل کے مطابق 25 سالہ فرزانہ نے اپنے دین اسلام میں دیے گئے ''اختیار'' کو استعمال کرتے ہوئے اپنے باپ، بھائیوں کی رضامندی کے بغیر اپنی پسند سے ایک نوجوان سے شرعی طور پر نکاح کیا تھا لیکن اس کے گھر والے مردوں کی ''غیرت'' نے اس کی شادی کو قبول نہ کیا اور اپنی ''عزت'' بچانے کے لیے اپنے ''داماد'' کے خلاف بیٹی کے اغوا کا مقدمہ درج کرا دیا، خبروں کے مطابق فرزانہ اپنی شادی کے حق میں بیان حلفی دینے لاہور ہائی کورٹ آئی تھی۔

بس یہی وہ موقع غنیمت تھا جب اس کے باپ اور بھائیوں کی ''غیرت'' نے انگڑائی لی، پہلے فرزانہ پر گولیاں چلائی گئیں لیکن وہ بچ گئی پھر اس کو پکڑ کر ''غیرت مند'' باپ اور بھائیوں نے اس کے سر پر اس وقت تک اینٹیں برساتے رہے جب تک اس کی روح قفس عنصری سے پرواز نہ کر گئی، فرزانہ حاملہ بھی تھی، قدرت جلد اس کو اولاد کی نعمت سے نوازنے والی تھی لیکن ''غیرت مندوں'' کے جذبہ انتقام نے اس کی پروا نہ کی اور ایک نہیں بلکہ دو زندگیوں کو ''غیرت'' کی بھینٹ چڑھا دیا۔

اس دلخراش سانحے کا ایک اور تکلیف دہ پہلو یہ تھا کہ یہ واقعہ کسی ویرانے جنگل یا کسی گھر کے دالان اور کسی چوہدری یا وڈیرے کے سونے آنگن میں پیش نہیں آیا کہ جہاں سے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی بلکہ یہ افسوسناک واقعہ عین ایوان انصاف کے سامنے پیش آیا جہاں درجنوں لوگ موجود تھے لیکن کسی کے دل میں ''رحم'' اور ''ہمدردی'' کا کوئی جذبہ بیدار نہ ہوا، کسی نے آگے بڑھ کر ظالموں کا ہاتھ نہیں روکا، شاید یہ سب ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مہذب معاشرے کے ''غیرت مند'' لوگ تھے جن کے نزدیک فرزانہ نے ''جرم کیا تھا اور وہ اسی سزا کی مستحق تھی۔

فرزانہ جہاں سے انصاف کی بھیک لینے آئی تھی وہیں اسے نیند کی آغوش میں سلادیا گیا اور کہیں کوئی ''سوموٹو'' ایکشن کی صدا نہیں گونجی ملک بھر کی سیاسی و مذہبی جماعتیں، تنظیمیں، شرعی نظام کے نفاذ کے داعیوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور دیگر سماجی اداروں اور گروہوں نے فرزانہ کے وحشیانہ قتل پر کوئی ریلی نکالی نہ جلسہ کیا نہ ہی احتجاجی مظاہرے، کیا بے حسی ہے کہ ہم اپنی مائوں، بہنوں، بیٹیوں پر ٹوٹنے والی درندگی و بربریت کی قیامتوں پر مہر بہ لب ہیں اور فخر کرتے ہیں کہ ہم ایٹمی قوت ہیں، دشمن ہمارا بال بیکا نہیں کرسکتا۔

بیشک ہم نے ایٹم بم بناکر ملک کی جغرافیائی سرحدوں اور قومی سلامتی کو ناقابل تسخیر بنادیا لیکن ہم بحیثیت قوم ایک مہذب، باوقار، با کردار، صالح، تحمل و برداشت اور رواداری والے اسلامی معاشرے کی تشکیل میں ناکام ہوگئے ہیں اور بد قسمتی سے معاشرے کے سدھار کی جانب ہماری کوئی توجہ بھی نہیں ہے۔ پاکستان کا معاشرہ اخلاقی پستی اور عدم برداشت کے باعث بری طرح انحطاط کا شکار ہے، خطرناک رجحانات جنم لے رہے ہیں بالخصوص نوجوان طبقہ جسے آگے چل کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔

وہ مذہبی، لسانی، فرقہ واریت اور صوبائیت جیسے خوفناک تقسیم کرنیوالے نظریات کا اسیر ہوتا جا رہا ہے اور انتہا پسند عناصر ایسے نوجوانوں کو اپنی آغوش میں سمیٹ رہے ہیں جب یہ نسل بیس تیس سالوں کے بعد عملی زندگی میں داخل ہوگی تو ذرا تصور کیجیے کہ ہمارا معاشرہ کیا روپ اختیار کریگا بالخصوص دیہی و قبائلی نظام زندگی میں جو کمزوریاں ہیں وہ مزید پختہ ہوکر زندگی کا لازمی حصہ بن جائیںگی اور قوم کی مائوں، بہنوں، بیٹیوں کی زندگی کس قدر تنگ نظر، آسیب زدہ، خوفناک اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دی جائے گی، کیا ہم ایسے معاشرے کی تشکیل کا حصہ نہیں بن رہے ہیں؟

کیا 21 ویں صدی کے جدید دور میں بھی ہم ماضی کے خوفناک دور کی طرف نہیں لوٹ رہے ہیں جہاں بیٹیوں کو زندہ دفن کردیا جاتاتھا؟ اگر نہیں تو پھر فرزانہ کے واقعے کو آپ کیا نام دینگے، تیزاب سے چہروں کو بدنما کرنیوالوں، کاری قرار دے کر قتل کرنیوالے ''غیرتمندوں'' عورتوں پر جنسی تشدد کرنیوالوں، پنچائیت اور جرگوں کے نام پر عورتوں کے حقوق پامال کرنیوالوں اور بلوچستان میں پانچ خواتین کو زندہ دفن کر دینے والوں، اپنی روایت قرار دینے والوں کو آپ کیا نام دینگے؟ آپ ملک کی ہر ملالہ یوسف زئی کو تعلیم حاصل کرنے سے روکنے والوں کے ہاتھ کیسے روکیںگے؟ آپ ملک کی ہر مختاراں مائی کی حرمت و آبرو کی دھجیاں بکھیرنے والوں کے ناپاک عزائم کو کیسے ناکام بنائیںگے، آپ ارفع کریم جیسی ملک کی ہر بچی کے مستقبل کا تحفظ کیسے کریںگے؟

ایک نہیں ایسے ہزاروں سوالات ہیں آپ کس کس کا جواب دینگے، اﷲ نے آپ کو شرف حکمرانی بخشا ہے اقتدار آپ کے ہاتھ میں ہے، اختیار آپ کی دسترس میں ہے، پارلیمنٹ میں آپ کو اکثریت حاصل ہے، قانون سازی آپ کے لیے مشکل نہیں، آپ موٹروے بنائیں ، میٹرو بس چلائیں، بلٹ ٹرینیں دوڑائیں، متعصب بھارت سے تجارت کریں، طالبان سے امن مذاکرات کریں لیکن خدارا حوا کی بیٹیوں پر ہونیوالے مظالم، درندگی، سفاکی اور بربریت کی داستان الم کا آخری باب رقم کرکے تاریخ میں امر ہوجانے کا سامان بھی کریں کہ قوم کی ہر بیٹی آپ کے لییقابل احترام ہے اس کا ہر دکھ اور ہر تکلیف آپ کا دکھ ہے اس کی عزت، حرمت، تقدیس اور آئینی حقوق بھی وہی ہیں جو آپ کے ہیں، آپ ایک لمحے کو قوم کی ہر بیٹی کو اعلی مقام دیجیے، پس قوم کی ''نسواں'' کو ان کے آئینی حقوق مل جائیںگے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں