گڈ گورننس انفرا اسٹرکچر کے چیلنجز

عدالتی اور بیوروکریسی کی سطح پر سخت گیر اور ضروری اصلاحات ناگزیر ہوچکی ہیں


Editorial March 02, 2024
عدالتی اور بیوروکریسی کی سطح پر سخت گیر اور ضروری اصلاحات ناگزیر ہوچکی ہیں۔ فوٹو: فائل

ملک میں عام انتخابات کے بعد وفاقی اور صوبائی سطح پر حکومت سازی کا عمل تیزی سے تکمیل کے آخری مراحل طے کر رہا ہے۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں نئے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب عمل میں آگیا ہے، جب کہ خیبر پختون خوا کے نئے وزیراعلیٰ بھی منتخب ہوگئے، جب کہ بلوچستان میں صوبائی حکومت مزید چند دنوں میں قائم ہوجائے گی اور آنیوالے چند دنوں میں نئی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی تشکیل کے بعد تمام حکومتیں کام شروع کردیں گی۔

نئی وفاقی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے معاہدہ ہوگا، یعنی مستقبل کی راہ گلزار نہیں بلکہ پرخار ہوگی۔ ایک مشکل بجٹ کا اعلان بھی کرنا ہو گا، جس میں سبسڈیز (مراعات) کی واپسی اور نئے ٹیکسوں کے نفاذ کی ضرورت ہوگی۔ اسی طرح بیرونی ادائیگیوں کے لیے مالیاتی ضرورت بہت زیادہ ہے۔

260 ارب ڈالر کے کل قرضوں میں سے 116 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے ہیں۔ اسی طرح مہنگائی جو دسمبر 2023 میں 29.7 فیصد تھی، 2024 میں 20 فیصد سے اوپر رہنے کا امکان ہے۔ دریں اثنا 2024 میں شرح نمو ایک معمولی دو فیصد کے آس پاس رہے گی۔

نئی حکومت کے لیے ایک بڑا چینلج بجٹ کا بھی ہوگا اور موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ سوال کھڑا ہوگا کہ کیا حکومت نئے ٹیکس لگائے گی یا نہیں؟ اس نئی حکومت کو ایسا بجٹ بنانا ہوگا کہ معیشت کی گراوٹ کو روکا جاسکے اور ٹیکس کی مد میں آنے والے سرمائے کو بھی یقینی بنایا جاسکے، اس کے علاوہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری بہت نیچے جاچکی اور اس میں اضافے کے لیے بھی اقدامات کرنے ہوں گے۔

آج 80 فیصد کے قریب لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، ڈھائی کروڑ کے قریب بچے اسکول سے باہر ہیں، 44 فیصد بچوں کے مناسب خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے قد مناسب حد تک نہ بڑھنے کا امکان ہے اور چھ کروڑ سے زیادہ افراد سطح غربت پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔

سڑکیں، نہریں، گلیاں، نالیاں، پارک، اسپتال، ایمبولینس سروسز اور تدفین کا بندوبست، ان سب کو بہتر سے بہتر کرنا، یہ سب انفرا اسٹرکچر کے زمرے میں آتا ہے لیکن کیا عام لوگوں کو گلیوں کی بدحالی، نالیوں کی گندگی، سہولتوں کے فقدان سے کوئی علاقہ ہے؟ اور کیا انفرا اسٹرکچر کے بدتر ہونے کی وجہ لوگوں کی بے توجہی اور افسروں کی نا اہلی ہی ہے؟

صرف یہی نہیں بلکہ یہ ریاست کے بالائی ڈھانچے کی ایک سوچی سمجھی پالیسی ہے کیونکہ اگر لوگوں کو بہتر اور معیاری سہولتیں میسر آ جائیں تو ان کی بدعنوانیوں سے حاصل ہونے والی آمدنیاں کم پڑنے لگیں گی اور لوگ '' گڈ گورننس'' کے بجائے '' بیٹر مینیجمنٹ'' یعنی بہتر انتظام وانصرام کا مطالبہ کرنے لگیں گے، بہتر سیاست اور بہتر سرکاری معاونت کا تقاضا کرنے لگیں گے۔

یہ تو سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ بڑے بڑے زمیندار اور وڈیرے اپنے علاقے میں اسکول نہیں بننے دیا کرتے تھے کیونکہ انھیں خدشہ ہوتا تھا کہ پڑھ لکھ کر لوگ منہ کو آنے لگیں گے، اسپتال نہیں تعمیر کرنے دیتے تھے، کسی طرح تعمیر ہو بھی جاتا تو اسے چلنے نہیں دیتے تھے کہ صحت بہتر ہوگئی تو سوچ بھی طاقتور ہو جائے گی، بالکل وہی رویہ بدتر افسر شاہی کے ہاتھوں میں کھیلنے والی ریاست اختیار کر لیتی ہے۔

انفرا اسٹرکچر کا مضبوط ہونا جہاں عوام کے مفاد میں ہوتا ہے وہاں یہ حکومت کی نیک نامی اور استحکام کا بھی موجب بنتا ہے لیکن ایسا ان ملکوں میں ہوا کرتا ہے جہاں سیاسی ادارے راسخ اور جمہوری ہوں اور سیاسی اداروں کا رسوخ اور جمہوری ہونا سماجی حلقوں کے نظم و ضبط سے مربوط ہوا کرتا ہے لیکن جہاں سماج ہی شکست و ریخت کا شکار ہونے لگے وہاں یہ پورا سلسلہ ہی متزلزل اور منتشر ہو جایا کرتا ہے۔

سماجی شکست و ریخت کی بڑی وجہ معاشی بدحالی اور آمدنیوں کا عدم توازن قرار پاتا ہے، اور اس بنیادی برائی کا موجب ''انفرا اسٹرکچر'' کے نقائص ہی ہوتے ہیں جن کے باعث معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ یہ ایسا گھن چکر ہے جس سے نکلے بغیر قوموں کے آگے نکلنے کی راہ مسدود ہی رہتی ہے۔

آیا انفرا اسٹرکچر کی بہتری کے ضمن میں عام لوگ بھی کردار ادا کر سکتے یا پھر محض ''سپر اسٹرکچر'' کی صوابدید سے ہی اسے بہتر بنایا جا سکتا ہے؟ سپر اسٹرکچر یعنی حکام بالا کے کان پر تو غیر جمہوری اور غیر مستحکم ریاستوں میں ویسے ہی جوں نہیں رینگتی لیکن جب کبھی جمہوری عمل رینگنے لگے تو ''عوام'' انفرا اسٹرکچر کی بہتری اور مضبوطی کی خاطر ایک بہت بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں، ہاں البتہ اگر ان میں سماجی شعور بلند کیا جا چکا ہو تب۔دوسری جانب پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ہونے والے معاہدے کی مدت اپریل میں ختم ہو جائے گی۔

جولائی 2023 میں نو ماہ کے لیے کیے گئے اس معاہدے کے تحت پاکستان کو تین ارب ڈالر فراہم کیے گئے تھے جس کی وجہ سے معیشت کو کچھ سہارا ملا تھا، تاہم نئی حکومت کو ذمے داریاں سنبھالنے کے ساتھ ہی اگلے بجٹ کی تیاری اور ملک میں معاشی توازن برقرار رکھنے کے لیے مزید رقم کی ضرورت ہو گی اور استحکام کے لیے اس کو آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنا پڑے گا۔

ہوسکتا ہے کہ آئی ایم ایف معیشتی ساخت میں تبدیلی کی بات کرے۔ قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ پر بھی بات ہوسکتی ہے۔ نئی حکومت کو ایک طرف تو مہنگائی پر قابو پانا ہوگا اور دوسری طرف بے روزگاری کا گراف بھی نیچے لانا ہوگا۔ یہ کام آسان نہیں۔ برآمدات بڑھائے بغیر زرِ مبادلہ کا حصول ممکن نہ ہوگا۔

ہمیں داخلی سطح پر درپیش بڑے چیلنجز میں اول بنیادی مسئلہ گورننس کا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو جہاں بہت سے مسائل کا سامنا ہے وہیں عام آدمی اور ریاست میں حکمرانی کے رشتہ میں دوریاں اور خلیج پیدا ہوتی جارہی ہے۔

گورننس کا فقدان ملک میں غیر یقینی صورتحال، مایوسی اور ریاست پر عام آدمی کے اعتماد سمیت ریاستی ساکھ کو کمزور کرنے کے باعث بنتا ہے جیسا کہ ملک میں اس وقت ہورہا ہے۔ معاشی بدحالی، لوگوں کو کم روزگار کے مواقع، معاشی تفریق یا ناہمواریوں سمیت معاشی ترقی کے امکانات کی کمی، بالخصوص کمزور طبقات میں موجود معاشی پریشانی جیسے مسائل کی موجودگی، قومی داخلی سیکیورٹی کا نظام جہاں ریاست سمیت مخصوص طبقات کے بجائے تمام شہریوں کی سیکیورٹی کو تحفظ دینا، عدالتی انصاف پر مبنی نظام میں موجود خرابیاں اور لوگوں کا انصاف یا عدالت کے نظام پر عدم اعتماد، ادارہ جاتی نظام یا بیوروکریسی کی سطح پر روایتی انداز حکمرانی بھی ہماری ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔

سیاسی، سماجی، معاشی اور قانونی اصلاحات کے ایجنڈے سے انحراف پر مبنی پالیسی، معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی یا ریاست کے مقابلے میں متبادل ریاست قائم کرنا یا سیاسی و مذہبی، لسانی بنیادوں پر طاقت اور اسلحے کی بنیاد پر جتھے بنانا، سیاسی عدم استحکام جہاں حکمرانی کے نظام کو عملاً مضبوط کرنے کے بجائے سیاسی جماعتوں اور قیادت کی جانب سے محض ذاتیات و اقتدار پر مبنی سیاست جیسے مسائل بھی دن بدن ہمیں کمزور کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔

کسی بھی جمہوری ملک میں سیاسی نظام بنیادی طور پر وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اندر اصلاحات اور تبدیلیوں کی بنیاد پر آگے بڑھتا ہے۔ عملی طور پر سیاسی نظام بڑی طاقتور اصلاحات چاہتا ہے جو سیاسی سطح پر سیاسی جماعتوں سمیت مجموعی طور پر سیاسی، جمہوری اور پارلیمانی نظام کو مضبوط بنائے اور لوگوں کے اس نظام پر اعتماد کو بحال کرنے میں کچھ بڑے فیصلے کرسکے ہماری یہ بد قسمتی ہے کہ ہم نے آج تک مل بیٹھ کر سیاسی نظام میں بنیادی اصلاحات اور تبدیلیوں کی جانب پیش رفت کے سلسلے میں کچھ نہیں کیا۔

وقت آگیا ہے کہ ہمیں ادارہ جاتی سطح پر پولیس، عدلیہ، بیورو کریسی، ایف بی آر اور انتظامی اصلاحات کو اپنی قومی ترجیح کا ایجنڈا بنانا ہوگا ، ادارہ جاتی سطح پر درپیش مسائل غیر معمولی اقدامات اور ٹھوس اصلاحات کے متقاضی ہیں ادارہ جاتی اصلاحات کے بغیر ملک کا آگے بڑھنا مشکل ہے۔

اداروں کی مکمل خود مختاری، شفافیت اور سیاسی مداخلت کے خاتمے سمیت میرٹ پر عملدرآمد کرکے ہی ہم ریاست کو درپیش مختلف مسائل، مشکلات اور بحرانوں کو کم کرسکتے ہیں جو تیزی کے ساتھ ملک کی بقاء اور سلامتی کے لیے خطرناک بنتے جا رہے ہیں۔

بالخصوص عدالتی اور بیوروکریسی کی سطح پر سخت گیر اور ضروری اصلاحات ناگزیر ہوچکی ہیں اگر ہم نے فوری طور پر اس سلسلے میں اہم اقدامات نہ اٹھائے تو بہتر حکمرانی کے باوجود ہم بڑے نتائج حاصل نہیں کرسکیں گے۔

قومی سطح پر مختلف سیاسی، سماجی، مذہبی، فرقہ وارانہ اور لسانی بنیادوں پر تقسیم در تقسیم نظر آرہی ہے، اس کے خلاف ہمیں ایک متبادل بیانیہ کو طاقت دینی ہوگی علاوہ ازیں مختلف حوالوں سے سیاسی اور میڈیا سمیت رائے عامہ کی سطح پر جاری تقسیم کا کھیل عملی طور پر ریاستی مفاد کے خلاف ہے۔

اس میں کچھ افراد یا ادارے جان بوجھ کر ریاستی نظام کو کمزور کرنے کے کھیل کا حصہ ہیں اور اس کا براہ راست فائدہ وہ قوتیں اٹھا رہی ہیں جو ہمیں ہر محاذ پر کمزور کرنے کا ایجنڈا رکھتی ہیں۔

ملک کی موجود صورت حال اور بحرانوں کے تناظر میں ایک بات سمجھنی ہوگی کہ اگر ہم نے لوگوں یا انفرادی سطح پر موجود لوگوں کے بجائے قانون اور اداروں کی سطح پر حکمرانی کے نظام کو موثر اور مضبوط نہ بنایا تو داخلی چیلنجز سے نمٹنا اور زیادہ مشکل عمل ہوجائے گا کیونکہ خاص طور پر نوجوانوں کو خا ص ٹارگٹ کرکے ان میں تقسیم کی شدت کو ابھارا جارہا ہے جو عملی طور پر انتہا پسندی یا شدت پسندی کو طاقت دیتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں