احمد راہی اپنے دور کے منفرد فلمی شاعر
انھوں نے بے شمار اردو اور پنجابی فلموں کے لیے گیت لکھے، ان کے گیتوں کو بڑی شہرت ملی
فلمی دنیا میں ادیب، صحافی اور شاعر احمد راہی ایک منفرد قسم کی شخصیت تھے انھیں شہرت سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ میری کئی بار ایورنیو اسٹوڈیو میں ان سے ملاقاتیں رہیں مگر وہ واجبی سی ملاقاتی رہتی تھیں وہ بہت کم گو انسان تھے۔
انھوں نے بے شمار اردو اور پنجابی فلموں کے لیے گیت لکھے، ان کے گیتوں کو بڑی شہرت ملی بلکہ بعض فلمیں خاص طور پر چند پنجابی فلمیں ان کے سپرہٹ گیتوں کی وجہ سے کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔ پنجاب میں محبت کی جو مشہور داستانیں تھیں جیسے کہ ہیر رانجھا، مرزا جٹ اور سسی پنوں ان فلموں کی شہرت کی وجہ احمد راہی کے لکھے ہوئے شہرہ آفاق گیت تھے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں ہدایت کار اقبال اختر کی فلم شرمیلی جس کے کوپروڈیوسر اداکار ناظم تھے ہوٹل میں ایک کمرہ بک کرا کر اسکرپٹ لکھ رہا تھا اور اس فلم کی کہانی جلیل افغانی کی لکھی ہوئی تھی اور ہم دونوں رائٹر اس ہوٹل کے کمرے میں ایک ماہ تک رہے تھے اور ہم جب صبح ہی صبح اٹھتے تھے تو احمد راہی کا لکھا ہوا فلم ہیر رانجھا کا گیت جو نور جہاں کی جادو بھری آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا، جس کے بول تھے:
سُن ونجلی دی مٹھڑی تان وے
میں تاں ہو ہو گئی قربان وے
قریب کے ہوٹل سے وہ بجتا تھا گونجتا تھا اور وہ گیت ہمیں صبح اٹھا دیا کرتا تھا۔ وہ گیت اتنا دلکش تھا کہ اس نے ہزاروں دلوں کو چھو لیا تھا۔ مجھے اس گیت کی گونج ہی نے ایک دن احمد راہی صاحب سے ملنے پر مجبور کردیا تھا۔ میں ان دنوں لاہور میں ہفت روزہ نگار کا نمایندہ تھا اور ہر ہفتے کسی نہ کسی مشہور فلمی شخصیت کا انٹرویو کرکے نگار کے لیے بھیجا کرتا تھا۔ اس وقت تک میں نے بحیثیت نغمہ نگار اپنے کیریئر کا آغاز نہیں کیا تھا۔
بحیثیت فلمی صحافی میں نے ان کا ایک بھرپور انٹرویو ایورنیو اسٹوڈیو میں ایک فلم پروڈکشن کے آفس میں کیا تھا۔ ان دنوں ان کا ایک بہت ہی خوبصورت گیت تقریباً روزانہ ہی ریڈیو پاکستان کے مختلف اسٹیشنوں سے دن اور رات میں کئی کئی بار نشر ہوا کرتا تھا جو انھوں نے فلم پاکیزہ کے لیے لکھا تھا جسے میڈم نور جہاں نے بھی کیا خوب ڈوب کر گایا تھا۔ گیت کے بول تھے:
تم تو کہتے تھے بہار آئی تو لوٹ آؤں گا
لوٹ آؤ میرے پردیسی بہار آئی ہے
اور ایک دلچسپ بات اس گیت کے بارے میں بتاتا چلوں، اس زمانے میں ریڈیو پاکستان سے خاص طور پر فوجی بھائیوں کے لیے ایک فرمائشی فلمی گیت کا پروگرام نشر ہوتا تھا اور اس پروگرام میں بے شمار خواتین اس ایک گیت کی فرمائشیں کیا کرتی تھیں۔ مجھے بھی احمد راہی کے اس گیت نے بڑا انسپائر کیا تھا اور یہی گیت ان سے انٹرویو کا باعث بنا تھا، احمد راہی جن کا گھریلو نام غلام احمد تھا پھر انھوں نے احمد کے ساتھ راہی کا تخلص لگا لیا تھا اور اسی نام کے ساتھ وہ فلمی دنیا میں بھی داخل ہوئے تھے۔
احمد راہی 12 نومبر 1923 میں امرتسر میں پیدا ہوئے اور وہ وہاں کے جس کالج میں پڑھتے تھے، اسی کالج میں بعد کے نامور شاعر سیف الدین سیف بھی پکے اور پختہ شاعر تھے جب کہ احمد راہی شاعری کے میدان میں نئے نئے داخل ہوئے تھے۔ یہ جو بھی نظم یا غزل لکھتے تھے پہلے وہ سیف صاحب کو دکھاتے تھے۔
سیف صاحب اگر کوئی چھوٹی موٹی کمزوری ہوتی تھی تو وہ اسی وقت دور کر کے کہتے تھے کیا خوب شاعری کی ہے واہ بس تم اسی طرح شاعری کرتے رہو۔ تمہارا مستقبل بڑا تابناک ہوگا۔ یہ ابتدا میں صحافت کے شعبے سے بھی کچھ عرصہ وابستہ رہے اور ہندوستان و پاکستان کے مختلف جرائد میں بھی لکھتے رہے۔ ان دنوں بھوپال شہر سے ایک مشہور رسالہ افکار کے نام سے شایع ہوتا تھا وہ ایک ادبی ماہنامہ تھا اور اس میں لکھنے کے لیے یا شایع ہونے کے لیے نوجوان ادیبوں اور شاعروں کو کئی کئی مہینے اپنا کلام چھپوانے کے لیے انتظار کرنا پڑتا تھا۔
اسی دوران ماہنامہ افکار میں ان کی ایک نظم ''ملاقات'' کے عنوان سے شایع ہوئی اور اس نظم نے ادبی حلقوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا ان کی یہ نظم اس دور کے نامور اور ترقی پسند شاعر ساحر لدھیانوی کو بھی بڑی پسند آئی اور اس نظم سے ہندوستان بھر میں احمد راہی کی شہرت کا آغاز ہوا اور ساحر لدھیانوی کی یہ گڈ بک میں بھی آگئے تھے اور پھر ساحر لدھیانوی سے ان کی دوستی اتنی گہری ہوتی چلی گئی کہ یہ ساحر لدھیانوی کے ساتھ ہندوستان میں اس دور کی کمیونسٹ پارٹی میں بھی شامل ہوگئے تھے اور پھر تواتر کے ساتھ ان کا کلام دہلی، لکھنو اور لاہور کے ادبی رسالوں اور اخبارات کی زینت بننے لگا تھا۔
پاکستان بننے کے بعد یہ امرتسر سے لاہور آ گئے، لاہور میں بھی ساحر لدھیانوی کی ادبی شناخت بہت زیادہ تھی۔ ایک زمانے میں وہ لاہور کے مشہور ماہنامہ سویرا کے ایڈیٹر تھے اور جب احمد راہی بھی لاہور ہی میں تھے ساحر لدھیانوی کو بمبئی جانا پڑ گیا تو وہ ماہنامہ سویرا کی ایڈیٹر شپ احمد راہی کے حوالے کرکے ہندوستان چلے گئے تھے۔
اسی دوران احمد راہی کافی عرصے تک صحافت سے جڑے رہے اور پھر ان کی شاعری کو بھی انھی دنوں بڑا عروج ملا تھا اور اس دوران ان کی پنجابی شاعری منظر عام پر آئی اور پنجابی شاعری پر مشتمل ان کا پہلا مجموعہ کلام ''ترنجن'' کے نام سے مشہور ہوا اور ادبی حلقوں میں بھی بڑی پذیرائی ملی۔
بحیثیت نغمہ نگار کس طرح فلمی دنیا میں آئے اس کا تعلق بھی نامور ادیب سعادت حسن منٹو کی دوستی سے جڑا ہوا ہے۔ یہ 1948 کی بات ہے۔ لاہور میں پہلی بار سعادت حسن منٹو کو فلمی کہانی لکھنے کا موقع ملا۔ فلم کا نام تھا بیلی، جس کے مکالمے بھی سعادت حسن منٹو نے لکھے تھے اور اس فلم میں پہلی بار ہی احمد راہی کو بھی گیت لکھنے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ پھر یکے بعد دیگرے کئی پنجابی فلموں کے لیے انھوں نے گیت لکھے، چند گیتوں کے مکھڑے مندرجہ ذیل ہیں جو سپرہٹ ہوئے۔ 1958 میں ایک پنجابی فلم چھو منتر بڑی ہٹ ہوئی تھی اس کا ایک گیت بڑا مشہور ہوا تھا، جس کے بول تھے:
برے نصیب مرے ویری ہویا پیار مرا
یہ دو آوازوں میں ریکارڈ ہوا تھا، اس گیت کو گلوکارہ زبیدہ خانم اور اداکار و گلوکار ظریف نے بھی گایا تھا۔
اسی طرح 1963 کی اردو فلم باجی کے ایک گیت نے بڑی دھوم مچائی تھی جس کے بول تھے چندا توری چاندنی میں جیا جلا جائے رے، اسی فلم کا ایک اور گیت بھی خوب ہٹ ہوا تھا، جس کے بول تھے: دل کے افسانے نگاہوں کی زباں تک پہنچے۔
٭میری چنی دیاں ریشمی تنداں
٭جدوں تیری دنیا توں پیار ٹر جائے گا
٭توں کی جانڑیں بے قدرا
٭زلفاں دی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاواں
اور بہت سی فلموں کے گیت جو عوام میں بڑے مشہور ہوئے تھے۔ احمد راہی نے اردو اور پنجابی فلموں میں تقریباً سو کے قریب گیت لکھے اور ان کے لکھے ہوئے ہر گیت نے مقبولیت حاصل کی ان کو اردو فلم بازار میں ان کے لکھے ہوئے گیت پر نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا جو رانی اور اداکار شاہد پر فلمایا گیا تھا، لگا ہے حسن کا بازار دیکھو۔ احمد راہی کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اپنی پسند کے موسیقاروں کے ساتھ ہی گیت لکھتے تھے۔
ان کے کئی مجموعہ کلام جن میں رگ جاں اور رت آئے رت جائے کو بھی بڑی شہرت ملی تھی۔ فلم یکے والی اپنے گیتوں ہی کی وجہ سے سپرہٹ ہوئی اور احمد راہی کے گیتوں کا یہ کمال تھا کہ یہ فلم جس شہر میں بھی ریلیز ہوئی ان کے گیتوں کی دھوم نے اپنا سکہ بٹھا دیا تھا یوں تو فلم یکے والی کے تمام گیت ہی ہٹ ہوئے تھے مگر ایک گیت تو سیکڑوں گیتوں پر بھاری تھا جس کے بول تھے:
کلی سواری بھئی، بھاٹی لوہاری بھئی
یہ فلم اپنے وقت کی بڑی کامیاب ترین فلم تھی اور اس فلم سے باری ملک نے اتنی دولت جمع کر لی تھی کہ پھر باری ملک نے باری اسٹوڈیو تعمیر کر لیا تھا یہ سب احمد راہی کے گیتوں کا کمال تھا۔ مگر انھوں نے کبھی کسی سے کچھ چاہا نہیں، کسی سے کچھ لیا نہیں بلکہ اپنے دامن سے سب کو کچھ نہ کچھ ہمیشہ دیتے ہی رہے۔
جب پنجابی فلموں میں بے ہودہ شاعری کا آغاز ہونے لگا اور فحش الفاظ کو گیتوں میں سمویا جانے لگا تو احمد راہی کو بڑا دکھ ہوا تھا اور انھوں نے پھر کہا تھا کہ '' پنجابی فلموں میں اب جو شاعری ہو رہی ہے وہ شاعری نہیں فحاشی ہے'' اور پھر انھوں نے فلمی گیت نگاری ہی سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ احمد راہی ایک درد مند دل کے مالک تھے۔ وہ محبت میں احترام اور پاکیزگی کے قائل تھے۔