قومی زبان کی اہمیت
ہمارے عدالتی نظام تمام ادارے کچھ اس طرح ہیں کہ تمام تر کارروائی انگریزی زبان میں ہوتی ہے
ہمارے ایک عزیز کا کوئی مقدمہ مقامی عدالت میں چل رہا تھا وہ ایک دن کچھ کاغذات لے کر آئے جس میں قانونی اصطلاحات دقیق انگریزی میں تحریر کردہ تھیں ہم نے ان کو اس کا ترجمہ تو کرکے بتادیا مگر اس سے ہم خود بھی مطمئن نہ تھے تو ان کو کیا کرتے۔
ہمارے عدالتی نظام تمام ادارے کچھ اس طرح ہیں کہ تمام تر کارروائی انگریزی زبان میں ہوتی ہے جس سے عام پڑھے لکھے بھی نابلد ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ عدالتی کارروائی کے تقاضوں کو پورا کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں اور جس کی وجہ سے اکثر وکلا حضرات اپنے موکل کو اپنی دکان چمکانے کے لیے معنی و مفہوم کو کچھ کا کچھ بتاتے ہیں جس کی وجہ سے موکل کو مقدمے میں طویل مسافت طے کرنی پڑجاتی ہے ۔جس سے اخراجات بھی کافی بڑھ جاتے ہیں جوکہ کچھ لوگ ادا بھی نہیں کر پاتے اور جن کی وجہ سے اکثر مقدمے کے فیصلے ان کے خلاف ہوجاتے ہیں۔
اس لیے 2011 میں سپریم کورٹ کے جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا تھا کہ انگریزی زبان میں جو عدالتی فیصلے لکھے جاتے ہیں ان کو سمجھنے کے لیے عوام الناس محض تجزیہ نگاروں، قانونی پنڈتوں اور ماہرین کے محتاج ہوکر رہ جاتے ہیں اور یہی وجہ تھی کہ جسٹس خواجہ نے اس وقت کی پارلیمانی کمیٹی کیس میں اردو زبان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے اردو زبان میں اضافی نوٹ جاری کیا تھا مگر اس وقت موجودہ صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کو قائم ہوئے 68 برس گزر گئے مگر ہم اپنی قومی زبان اردو کو وہ اہمیت اور درجہ نہیں دے سکے جس کی وہ مستحق ہے۔ کسی بھی قوم کے لیے قومی زبان ایک ایسی زنجیر ہے جس کے ذریعے ملک میں رہنے والے تمام افراد ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں اور اسی لیے باوقار قومیں اپنی قومی زبان کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہیں اور بین الاقوامی سطح پر اس کا پرچار بھی کرتی نظر آتی ہیں۔
ایک مرتبہ چین کے وزیر اعظم سے انگریزی زبان میں خطاب کرنے کے لیے کہا گیا تو انھوں نے بڑا خوبصورت جواب دیا کہ یاد رکھیے ''چین بے زبان نہیں ہے'' اسی طرح ترکی کے وزیر اعظم طیب اردگان جب پاکستان کے دورے پر تشریف لائے تو انھوں نے پارلیمنٹ سے خطاب اپنی زبان میں کیا اور اس بات پر حیرت کا اظہار بھی کیا کہ ہمارے وزیر اعظم نے انگریزی میں خطاب کیا۔ ہر قوم اپنی قومی زبان پر فخر کرتی ہے مگر ماسوائے پاکستانیوں کے۔ ہماری غلامانہ ذہنیت کا تو یہ حال ہے کہ ہم غلط سلط انگریزی میں بھی بات کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں مگر درست اردو بولنے میں شان گھٹتی ہے۔
دراصل انگریزی اور مغرب سے متاثرہ لوگوں نے ہی پاکستانی قوم کو خوداعتمادی سے محروم رکھنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے حالانکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ایران، جاپان، تھائی لینڈ، کوریا، فرانس، اٹلی وغیرہ اپنی زبانوں کی بدولت ہی دنیا میں بلند و بالا مقام حاصل کرسکے ہیں تو ہم اردو کے ذریعے کیوں حاصل نہیں کرسکتے ؟ اردو تو ویسے بھی لشکری زبان ہے اس کے اندر اتنی وسعت ہے کہ ہر دور میں لچک کے ذریعے اپنی بقا برقرار رکھ سکتی ہے ۔
اس لیے قائد اعظم نے بہت سوچ سمجھ کر اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا تھا اسی لیے قیام پاکستان کے فوراً بعد مشرقی پاکستان سے بنگلہ زبان کو بھی قومی اور سرکاری زبان بنانے کا مطالبہ کیا گیا تو قائد اعظم نے اس کے مابعد اثرات کو محسوس کرتے ہوئے ڈھاکہ کے اجلاس عام میں واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اور سرکاری زبان اردو اور صرف اردو ہوگی مگر ہمارے انگریزوں سے متاثرہ حکمرانوں اور نوکر شاہی طبقے نے ہمیشہ اردو کو گھر کی لونڈی سمجھا اور کہا کہ اردو میں اتنی وسعت نہیں کہ اس زبان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم دی جاسکے جب کہ مسلمانوں کا تاریخی ورثہ اس بات کا گواہ ہے کہ مسلمانوں نے سائنس اور طب میں کتنی ترقی کی تھی، بوعلی سینا، الرازی، جابر بن حیان، کیا انگریزی زبانوں سے واقف تھے یا انگریز تھے، جنھوں نے اپنے علم کی بدولت تاریخ میں اپنا نام پیدا کیا۔
مغرب میں بہت عرصے تک طب کی کتاب القانون پڑھائی جاتی رہی ہے مگر ہمیں تو صرف اور صرف چاروں طرف انگریزی زبان کی بہاریں ہی نظر آتی ہیں کسی بھی زبان کو سیکھنے اور اس میں مہارت حاصل کرنے سے کوئی ذی شعور انسان انکار نہیں کرسکتا مگر جس طرح ہمارا اوڑھنا بچھونا انگریزی میں ہونے لگا ہے تو اس کو دیکھ کر خوف آتا ہے کہ کہیں ہماری آنے والی نسلیں اپنی زبان کو ہی نہ بھول جائیں۔
آج ہماری غلامانہ ذہنیت کا یہ حال ہے کہ مختلف میٹنگز ہوں یا پروگرامز اس میں مقررین انگریزی زبان میں اپنا مافی الضمیر بیان کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم نے بڑا تیر مار لیا مگر ان کا آدھا مفہوم لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہوتا ہے مگر ہم احساس کمتری کے مارے لوگ ہر اس شخص کو جاہل مطلق سمجھتے ہیں جس کو انگریزی نہیں آتی خواہ وہ کتنا ہی قابل ہو، اردو کو قومی زبان بنانے کے لیے 1973 کے آئین میں بھی وضاحت کی گئی ہے جس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ تیس سال کے اندر اندر اردو کو قومی زبان بناتے ہوئے اردو کو انگریزی زبان کی جگہ دی جائے گی لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہے۔
آئین کے واضح احکامات کے باوجود ہم نے اردو کو دفتری اور سرکاری زبان کی جگہ نہیں دی ہے علاقائی زبانوں کی بھی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے کیونکہ یہ زبانیں لوگوں کے اپنے خاندان اپنے آباؤ اجداد کی پہچان کے لیے ہوتی ہیں مگر قومی زبان کے فروغ کے ذریعے ہی کسی ملک میں تمام رہنے والے آپس میں مربوط ہوتے ہیں۔ بھارت کی ہی مثال لے لیں وہاں کئی علاقائی زبانیں بہت ترقی یافتہ اشکال میں موجود ہیں مگر ہندی بھارت کی قومی اور سرکاری زبان ہے مگر ہم جب تک اپنی قومی زبان کو فروغ نہیں دیں گے اور اس پر شرمندہ ہونے کی بجائے فخر نہیں کریں گے اسی طرح تھالی کا بینگن بنے لڑھکتے رہیں گے۔
قومی زبان ہمارا اثاثہ ہے ہمیں چاہیے کہ اس زبان کو دفتری زبان بنایا جائے تاکہ عام آدمی جو انگریزی نہیں جانتے باآسانی اپنے کاموں کو سرانجام دے سکیں اس کے علاوہ حکومت کے ارکان بشمول وزیر اعظم سرکاری دوروں میں اپنی تقریر اردو میں کریں کیونکہ ہم ایک آزاد قوم ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ اردو کی ترقی و ترویج کے لیے پاکستان کے ہر شہری کو اپنا حق ادا کرنا چاہیے دفاتر ہوں یا عدالتی نظام یا پھر دوسرے امور سر انجام دینے والے ادارے اردو کو ہی اپنے بولنے، لکھنے اور پڑھنے میں عام روز مرہ زندگی میں استعمال کریں ۔