معمور دل کا گوشہ ہے

اقبال کی فطرت کے حوالے سے تشبیہات واستعارے ان کی شاعرانہ ہنر مندی کا ثبوت ہیں


Shabnam Gul March 03, 2024
[email protected]

شاہ لطیف کی شاعری میں فطرت کی عکاسی بھرپور انداز میں کی گئی ہے۔ شاہ بنیادی طور پر دھرتی کے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں سندھی زبان کی خوبصورتی عروج پر دکھائی دیتی ہے، جس سے جڑی ثقافت کا اظہار بھی انہوں نے مہارت سے کیا ہے۔

علامہ اقبال بیسویں صدی کے معروف شاعر، سیاستدان، مصنف، قانون دان تھے، وہ تحریک پاکستان کے اہم رہنمائوں میں سے ایک تھے، ان کی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ شاعری میں ان کے موضوعات محبت، تصوف اخلاقی و روحانی اقدار تھے۔ شاہ لطیف اور علامہ اقبال میں موضوعاتی طور پرکئی قدر مشترکہ ہیں خاص طور پر ان کے موضوعات میں فطرت کی عکاسی خوب تر ہے۔

علامہ اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان گئے تو انہوں نے رومانوی شعراء کا مطالعہ کیا۔ ان کی شاعری میں ولیم ورڈز ورتھ کا رنگ نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ شاہ لطیف نے کسی بھی تعلیمی ادارے سے تعلیم حاصل نہیں کی تھی اور نہ ہی اس وقت سندھ، یورپ کی طرح ترقی یافتہ تھا۔ اس کے باوجود بھی شاہ لطیف کی شاعری فکری حوالے سے اپنے دور سے کہیں آگے تھی۔ ان کی فکری اڑان زمان و مکاں کے قید سے آزاد تھی۔ کہا جاتا ہے کہ علم عاجزی ہے، حقیقی عالم میں غرور نہیں ملتا، علم وسیع النظری اور ذہنی کشادگی سکھاتا ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں۔

میرا طریق امیری نہیں غریبی ہے

خودی نہ بیچ فقیری میں نام پیدا کر

اس شعر میں صوفی فکرکی جھلک واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ صوفی ازم عجزوانکساری، ربط باہمی اور انسان دوستی کی پرچارکرتا ہے۔ شاہ صاحب اسی تناظر میں فرماتے ہیں۔

نہ بدن کو ہے پیرہن درکار

نہ سفر میں عزیز توشہ ہے

گھر کو ویران کرکے نکلے ہیں

اور معمور دل کا گوشہ ہے

یہ حقیقت ہے کہ سکھ اور خوشحالی تن آسانی کے رویے تشکیل دیتی ہے، جس کی وجہ انسان کی جستجو ختم ہوجاتی ہے اور وہ اپنی ہستی سے غافل ہوجاتا ہے، لٰہذا علم جذب وجستجو کا نام ہے۔ علم عقل و عرفان کی دین کسر نفسی اور عاجزی ہے۔ غرور، انا پرستی اور ہٹ دھرمی انسانیت کی سالمیت کے لیے بہت بڑا خطرہ بن جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صوفی ہمیشہ سادگی اور عاجزی کی بات کرتے ہیں۔

شاہ لطیف اور علامہ اقبال کی شاعری میں فطرت کے موضوعات میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ فطرت شاعرکو تخلیقی تحرک عطا کرتی ہے۔ فطرت میں کئی تخلیقی و تعمیری عوامل پائے جاتے ہیں۔ فطرت کے پاس اعلیٰ پائے کا تخلیقی جوہر موجود ہے۔ بیج بونے سے پنپے تک تخلیق کا مکمل طریقہ کار دکھائی دیتا ہے۔ فطرت انسان کو تعمیری سوچ اور رویے سکھاتی ہے۔ علامہ اقبال اپنی شاعری میں منظر نگاری کا فن بیان کرنے میں بڑی مہارت رکھتے ہیں۔ اقبال فرماتے ہیں۔

جگنوکی روشنی ہے کاشانہ چمن میں

یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں

آیا ہے آسمان سے اڑکرکوئی ستارہ

یا جان پڑگئی ہے مہتاب کی کرن میں

اقبال کی فطرت کے حوالے سے تشبیہات واستعارے ان کی شاعرانہ ہنر مندی کا ثبوت ہیں۔ فطرت کی رنگینی انہیں تعمیری تحرک عطا کرتی ہے اور وہ خیالات شعرکے قالب میں ڈھل جاتے۔ قاری کو وہ فطرت بیانی دل و روح میں اترتی محسوس ہوتی۔ شاہ صاحب کو فطرت کے ہر منظر میں خالق کائنات کی جھلک دکھائی دیتی، وہ اس حسین کائنات کے ہر رنگ پہ دل و جان سے فدا تھے۔ یہ رنگ ان پر جذب و کمال کی کیفیت طاری کردیتے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں۔

خموں میں بھری ہے شراب بہاراں

فضا کیف پرور ہوئی جا رہی ہے

بلانوش ہیں سر بکف آج ساقی

بلانے کو بادِ شمال آرہی ہے

دیکھا جائے تو شراب بہاراں ایسا استعارہ ہے جو منظر دیکھنے والے پر خمار سا طاری کردیتا ہے۔ بہار میں تعمیری سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ درخت پھل اور پھول دیتے ہیں۔ باغات کا سبزہ کھل اٹھتا ہے۔ تتلیاں، پرندے، کیڑے، مکوڑے و شہدکی مکھیاں متحرک ہوجاتی ہیں۔ بہار خوبصورتی کی علامت ہونے کے ساتھ رابطوںکو فعال رکھتی ہے۔ پھولوں پر تتلیاں، شہید کی مکھیاں اور بھنورے منڈلاتی ہیں۔ فطرت کا ہر ایک محرک کئی تعمیری محرکات سے جڑا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ دوسری جانب علامہ اقبال فرماتے ہیں۔

ہے رگ گل صبح کے اشکوہ سے موتی کی لڑی

کوئی سورج کی کرن تبسم میں ہے الجھی ہوئی

علامہ اقبال نے فطرت کو خوش و توانائی کا ذریعہ سمجھا ہے۔ فطرت کے مناظر میں انہیں بے کراں مسرت جھلکتی دکھائی دیتی ہے، جو ان کی احساس میں رچ بس سی جاتی ہے۔ یہ تعلق باہمی (Reciprocal) ہے۔ شاعرکا خیال اور فطرت کے رنگ یکجا ہوجاتے ہیں۔ یہ خصوصیت انگریزی کے شاعر ولیم ورڈز ورتھ میں پائی جاتی ہے۔ ورڈز ورتھ کہتا ہے۔

''اب بھی میں تیری صدا تیرے سریلے نغمے

لیٹ کر گھاس پہ آرام سے سن لیتا ہوں

تیرے نغمات سے لوٹ آتا ہے عہد ذریعہ

اپنے گزرے ہوئے ایام کو پالیتا ہوں۔''

ورڈز ورتھ کی نظموں میں درخت، پھول، بادل، مہکتی ہوا، دریا اور پرندے ہیں۔ مظاہر فطرت اس کی تخلیق میں سمٹ کر زندہ جاوید ہوجاتے ہیں، وہ غیر مشروط خوشی کی بات کرتا ہے، جسے دولت سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ شاہ صاحب کے لیے فطرت خوشی، خوشحالی، بخشش اور رابطے کا وسیلہ ہے۔ فطرت ہمیشہ سے انسان کو نوازتی رہی ہے۔ دوسرے عوامل کے ساتھ شاہ لطیف کو فطرت میں جابجا محبوب کا عکس دکھائی دیتا ہے۔

چندا پونم رات کا،کرے گا جگمگ آج

پیارے پیا ہیں آنیوالے، پورے ہوں گے کاج

حسن کا وہ سرتاج، بھیگی رات کو انگنا آیا

شاہ لطیف کی شاعری میں وقت کے مختلف لمحوں کا ذکر ہے، جن کی الگ تاثیر ہے۔ یہ لمحے انسان کی سوچ و نفسیات پر اثر پذیر ہوتے ہیں۔ اس کے احساس کی آبیاری کرتے ہیں۔ ذہن کو جلا بخشتے ہیں اور روح کو رباب بنادیتے ہیں، شاہ صاحب موسیقی سے واقف تھے۔ موسیقی وقت کی فریکوئنسی کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری میں فطرت کے حوالے سے کئی موضوع زیرِ بحث آئے ہیں، جن کا تعلق عام مناظر سے ہے، یہ تمام منظر علامہ اقبال کے قلم کی حدت پاکر بامعنیٰ اور خاص ہو جاتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں