حکمرانوں کی خدمت میں

ہماری اسٹیبلشمنٹ کی ادارہ جاتی یادداشت میں ملک کی سیاسی معاشی اورسماجی خامیوں اور اسے حل کرنے کی اجتماعی دانش محفوظ ہے


سرور منیر راؤ March 03, 2024
[email protected]

قدیم چین کے تذکروں میں ایک بادشاہ کا ذکر ہے جس نے اقتدار پر متمکن ہوتے ہی حکم دیا کہ رموز سلطنت میں راہنمائی کے لیے دانشمند افراد سے ملنا چاہتا ہوں۔

بادشاہ کے مصاحبین نے عظیم فلاسفر کنفیوشس کا نام دیا اور عرض کی کہ کنفیوشس کو دربار شاہی میں بلانا ممکن نہیں تا ہم اس کے پاس جا کر ملاقات کی جا سکتی ہے۔ بادشاہ کنفیوشس کے پاس پہنچا، دوران نشست بادشاہ نے راہنمائی کی غرض سے پوچھا کہ مجھے کامیاب بادشاہ بننے کے لیے کن چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے۔

کنفیوشس نے کہا کہ تین امور کی طرف توجہ دو تو ناکامی نہیں ہو گی۔ (1) عوام کو خوراک کی فراہمی یقینی بنانا۔ (2) ملکی سرحدوں کی حفاظت کرنا ۔ (3) عوام پر اپنا اعتماد قائم رکھنا۔ بادشاہ نے پوچھا اگر ان کی ترجیح طے کی جائے تو میں کیا کروں ؟کنفیوشس نے کہا ''فو قیت سرحدوں کی حفاظت اور عوامی اعتماد کو دینا'' ۔

بادشاہ نے پھر پوچھا کہ اگر ایسی صورتحال پیش آئے کہ مجھے ان دونوں میں سے کسی ایک کو ترجیح دینا پڑے تو کیا کروں؟کنفیو شس بو لا کہ اپنے اور عوام کے اعتماد کے رشتے کو ٹھیس نہ پہنچنے دینا ۔ کیونکہ عوام کا حکمران پر اعتماد ہی اس کی اصل طاقت ہے۔ اگر عوام کا اعتماد قائم ہے تو وہ مشکل صورتحال میں بھی حکمران کے ساتھ کھڑے رہیں گے لیکن اگر حکمران کے قول اور فعل میں تضاد ہو اور وہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے جھوٹے وعدے کرے تو عوام ایسی صورتحال میں کبھی اس کا ساتھ نہ دیں گے۔

اسی اعتماد کی وجہ سے عوام بھوکے رہ کر بھی حکمران کا ساتھ دینے کو تیار ہوں گے لیکن اگر تم نے اعتماد کھو دیا تو تمھاری مضبوط ترین فو جی طاقت اور اقتصادی خوشحالی بھی تمہاری حکمرانی کو نہ بچا سکیں گی اور تم تاریخ میں کبھی نیک نامی حاصل نہ کر سکو گے۔

بظاہر یہ ایک فلاسفر کی جانب سے بیان کیے گئے چند الفاظ ہیں لیکن ان میں جو حکمت اور دانائی چھپی ہے وہی اس تحریر کا حاصل ہے۔ فلاسفر اور دانشور خود کبھی رموز سلطنت نہیں سلجھاتا لیکن اس کی علمیت، قوت مشاہدہ اور قانون قدرت سے واقفیت اس کو راز کائنات سے شنا سا کرتی ہے اور یہی گہرائی وہ موتی بکھرتی ہے کہ جس نے ان کو چن لیا، وہ کامیابی سے ہمکنار ہو گئے۔

میاں محمد نواز شریف صاحب اور آصف علی زرداری سب سے زیادہ تجربہ کار سیاستدان ہیں،وقت کی چکی نے انھیں بہت کچھ سکھا دیا ہے۔ دوسری طرف ہماری اسٹیبلشمنٹ کی ادارہ جاتی یادداشت میں ملک کی سیاسی معاشی اور سماجی خامیوں اور اسے حل کرنے کی اجتماعی دانش محفوظ ہے۔شرط صرف یہ ہے کہ ہمارے قائدین اس اجتماعی دانش اور تجربے سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے مستقبل کی پیش بندی کریں۔

ہم گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنے ماضی سے سبق حاصل کرنے میں قطعی طور پر ناکام ہوئے ہیں۔ہم نے قومی سوچ کے بجائے گروہی سوچ کو مقدم سمجھا۔ اب بد قسمتی سے ملک ایک ایسی سیاسی اور سماجی تقسیم اختیار کر گیا ہے کہ اسے حل کیے بغیر ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود ایک خواب نظر آتا ہے۔ہم میں صبر برداشت اور ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنے کی سوچ تقریبا ختم ہو چکی ہے۔یہ صورتحال کسی بھی طرح خوش آیند نہ ہے۔

ملک کو جن مسائل کا سامنا ہے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ عوام اس امر سے بھی بخوبی واقف ہی کہ یہ مسائل چٹکی بجاتے حل نہیں ہوں گے۔ یوں تو مسائل کی ایک طویل فہرست اور اس کے حل کے لیے تجاویز میاں صاحب کی سیاسی جماعت کے مدارالمہاموں نے پہلے سے تیار کر رکھی ہو گی اور ورکنگ پیپرز کے نام پر ''امرت دھارے''تیار بھی کر رکھے ہوں گے۔

ہماری تویہی گزراش ہے کہ وہ ورکنگ پیپرز اور امرت دھاروں پر غور ضرور کریں لیکن ریاستی اداروں کی باگ دوڑ صرف اور صرف ایسے افراد کو دیں جن میں دیانت، اہلیت اور کام کو انجام تک پہنچانے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہو۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موجودہ پارلیمان اس صورتحال میں کوئی مدد کر سکتی ہے۔ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ اب بھی اگر تمام سیاسی قائدین اور اسٹیبلشمنٹ نیک نیتی سے ساتھ بیٹھ کر لائحہ عمل طے کریں تو مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔دوسری سوچ اس کے برعکس ہے۔

ملک کی معیشت کو مفروضوں کی بنیاد پر نہیں چلایا جا سکتا ، اس کے لیے ایک طویل المدت اور قلیل مدت حکمت عملی اختیار کرنا ضروری ہے۔ موجودہ پارلیمان اور حکمرانوں کو ان سب پہلوؤں کا ادراک ہے لیکن کف افسوس کہ کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی اصلاح احوال کے لیے کوئی قابل عمل قدم نہیں اٹھایا گیا۔

وقت کی ضرورت ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں، ہمارے پاس وقت نہ ہونے کے برابر ہے۔اس حوالے سے تمام تر پہلوئوں پر غور کرنے کے بعد نیلسن میڈیلا کی طرز پر اپنے اپنے جرم کا اقرار کرتے ہوئے قومی معافی کا اعلان کیا جائے تا کہ ماضی کو بھول کر نئی شروعات کی جائیں، گومگو کی سیاست سوائے الجھن کے اور کچھ نہ دے سکے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں