سندھ کے کسان تاریخ کے تناظر میں
تاریخ کا مطالعہ اور شعور کی آنکھیں ہمیں سمجھاتی ہیں کہ ہماری تاریخ عوام کے ساتھ دھوکا دہی کی تاریخ ہے
آزادی کے 75 سال گزر جانے کے بعد بھی پاکستان میں کسانوں کی حالت زار میں کوئی نمایاں تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے۔ ملک کے دوسرے سب سے بڑے صوبہ سندھ میں ہاری تحریک کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ اس ضمن میں گوہر سلطانہ عظمیٰ کی ایک تحقیق کا مطالعہ بہت ضروری ہے تاکہ ہمارے سیاستدان اور دانشور سندھ کے کسانوں کے مسائل کے بارے میں زیادہ بہتر جان سکیں۔
جہانگیر کے دور حکومت میں سندھ کو 1614 میں مستقل علیحدہ صوبہ بنادیا گیا۔ 1732 میں یہ علاقہ نواب امیر خان کو بطور جاگیر بخش دیا گیا۔ اس نے جنوبی سندھ کا علاقہ 1738 میں میاں محمد یار کلہوڑا کی نگرانی میں دے دیا۔
اس طرح شمالی اور جنوبی سندھ کے تمام علاقے کلہوڑا خانوادے کے تصرف میں آگئے اور میاں نور محمد کلہوڑا کو مغلیہ حکومت کی طرف سے خدا یار خان کے خطاب کے ساتھ پورے سندھ کی حکمرانی کا پروانہ مل گیا، کیونکہ مغل فتوحات کا مقصد نہ تو فتح شدہ علاقوں کو مظالم سے آزاد کرانا تھا اور نہ اس سے عوام کی فلاح و بہبود مراد تھی۔ اس کا مقصد صرف اپنی طاقت کی ہیبت طاری رکھنا تھا۔ اس لیے سندھ میں مغل تسلط کسی قسم کی مثبت سماجی و اقتصادی تبدیلی کا باعث نہ بن سکا۔
کسان اورکاشت کار سمیت ایسے طبقے بدستور ماضی کی طرح استحصالی ہاتھوں میں پستے رہے۔ اسلام کی روح سے زمین کا مالک صرف خدا ہے۔ زمین اسی شخص کی عارضی ملکیت سمجھی جاتی ہے جو خود فصل بوتا اور کاٹتا ہے۔ آنحضرت نے زمین کو بٹائی پر دینے کی سخت ممانعت فرمائی ہے اور زمین و جائیداد کی ذاتی ملکیت کو حرام قرار دیا ہے۔
اسلامی مملکتوں میں جاگیرداری نظام کو سب سے پہلے خلفائے بنو امیہ نے رواج دیا کیونکہ اس وقت جگہ جگہ فتوحات ہورہی تھیں۔ انھوں نے زمین کے بڑے بڑے قطعات اپنے خاندان کے افراد اور دوسرے قریبی افراد کو انعام کے طور پر سونپ دیے۔
1843میں سندھ پر برطانوی تسلط سے پہلے کے ڈیڑھ سو برسوں کے دوران مقامی مسلمان حکمرانوں کی باہمی جنگوں کے سبب، روایتی لگان داری کا نظام زوال پذیر ہوچکا تھا۔ انگریزوں نے ایک ایسا طبقہ پروان چڑھایا جو حکومت اور کسان کے درمیان مالیہ جمع کرنے کا کام انجام دیتا تھا۔ اس طبقے کو زمین کے مالکانہ حقوق عطا کیے گئے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ زرعی علاقوں سے مالیہ وصول کرنے کی رفتار اور مالیے کی رقم میں مزید اضافہ کیا جاسکے۔ نتیجتاً سندھ میں پہلا مالیہ وصولی کا انتظام نقد رقم کی بنیاد پر قائم کیا گیا۔
یہ نقد رقم ہاریوں کی کاشت کردہ زمین کی کل پیداوار کا ایک مخصوص حصہ تھی جو زمیندار متعین کرکے علیحدہ کرلیتا تھا۔ زمین کا نقد مالیہ ادا کرنے سے زمیندار کا صرف وہ طبقہ مستثنیٰ تھا جس کی زرعی ریاستیں جاگیروں ( مالیے سے مستثنیٰ زمینی عطیات) کے زمرے میں شامل کر لی گئی تھیں۔ یہ جاگیریں یا تو ان افراد کو عطا ہوتی تھیں جنھوں نے نئے حکمرانوں کی حمایت کی تھی یا جو پہلے سے قائم تھیں اور جنھیں نئے حکمرانوں نے قائم کرنے کی اجازت دی تھی۔
برطانوی دور میں سندھ میں انگریزی راج میں لوٹ مارکے حوالے سے چند اور اہم شہادتیں ملتی ہیں۔ زرعی زمین سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے انگریزوں نے ریونیو کھاتے کی بنیاد ڈالی۔ زمین کے ریکارڈ کا اندراج ہونے لگا۔ زمین کی سرکاری اور غیر سرکاری بنیادوں پر تقسیم اور الاٹمنٹ ہونے لگی۔
ٹپے دار، پٹواری، مختیار کار، مقدم، ڈپٹی کمشنر وغیرہ جیسے بااختیار افسر صاحبان اور پولیس کی مدد سے افسر شاہی کا ایک ایسا فرمانبردار گروہ پیدا کیا گیا جو اپنے اپنے علاقے کے سیاہ و سفید کا مالک تھا اور لگان وصولی اب جنس کے بجائے سکہ رائج الوقت کے تحت ہونے لگی۔
ایک اہم بات یہ تھی کہ 1843 میں سندھ پر انگریز کے قبضے کے وقت سندھ میں تمام زمیندار چھوٹے ہوں یا بڑے سب مسلمان تھے۔ ہندو بنیا کاروبارکرتا تھا سود پر قرض دیتا تھا، تالپوروں کے دربار میں ملازم تھا۔ زمین کی ملکیت ہندوئوں کے لیے حاصل کرنا ممکن نہ تھا۔
1866 میں سندھ میں سول عدالتیں وجود میں آئیں۔ ہندوئوں کو قانون کے ذریعے قرض کی واپسی کی سبیل کی ڈگری ہوجانے کی صورت میں مقروض مسلمان کی زمین جبری طور پر فروخت ہونے لگی اور ہندو پہلی مرتبہ زمیندار بننے لگے۔ 1866 سے 1892 تک 1771 ہندو ایسے زمیندار بن چکے تھے جو دو سو ایکڑ سے زائد زمین کے مالک تھے، جب کہ مسلمان زمینداروں کی تعداد 7620 تھی۔ 1947 تک ہندوئوں نے مقامی مسلمان زمینداروں اور کاشت کاروں کی لاکھوں ایکڑ اراضی اپنے پاس گروی رکھ لی۔
1930 میں عبدالقادر نے جیٹھ مل پرس رام، حیدر بخش جتوئی اور عبدالمجید سندھی کے ساتھ انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما جمشید اے آر مہتہ کی جانب سے میرپور خاص میں طلب کردہ کسان تحریک کے سرگرم کارکنوں کی کانفرنس میں حصہ لیا۔ جس میں تنظیمی طور پر سندھ ہاری کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔ عبدالقادر کو اس کا جنرل سیکریٹری چنا گیا۔
سندھ ہاری کمیٹی کو اس وقت زبردست کامیابی ملی جب اس نے بے دخلی کے مقدموں کو قانونی کارروائی کے ذریعے ان کے وراثتی حقوق دلوائے۔ حیدرآباد کی کامیابیوں نے سندھ ہاری کمیٹی کو اپنی سرگرمیاں مزید پھیلانے کا حوصلہ دیا اور بہت جلد اس کی سرگرمیاں حیدرآباد سے لے کر نواب شاہ، سانگھڑ اور لاڑکانہ کے ضلعوں تک پھیل گئیں۔
پھیلائو کے ساتھ یہ ضرورت محسوس ہونے لگی کہ کسی مرکزی جگہ پر تنظیم کا مرکز قائم کیا جائے ، نتیجتاً سندھ ہاری کمیٹی کا مرکز 1936 میں حیدرآباد منتقل کر دیا گیا اور اس عمارت میں قائم کیا گیا جو ایک مسلمان مال افسر نے بطور عطیہ دی تھی اس مسلمان افسر کا نام حیدر بخش جتوئی تھا۔ یہی حیدر بخش جتوئی مستقبل میں ہاری کمیٹی کی ناقابل شکست قیادت بن کر سامنے آئے۔ انھوں نے ڈپٹی کلکٹر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور کمیٹی کے قطعی عملی رکن بن گئے۔
تاریخ کا مطالعہ اور شعور کی آنکھیں ہمیں سمجھاتی ہیں کہ ہماری تاریخ عوام کے ساتھ دھوکا دہی کی تاریخ ہے۔ سندھ ہاری کمیٹی کی مضبوط اور باصلاحیت قیادت جس طرح ہاریوں میں مقبول اور محبوب بن گئی تھی اس نے نہ صرف رخصت ہونے والی انگریز حکومت کے لیے مشکلات پیدا کردی تھیں بلکہ وہ آنے والی حکومتوں کے لیے، ان کے حقوق تسلیم نہ کرنے کی صورت میں ہمیشہ کے لیے درد سر بن سکتی تھی۔ اس ہوش ربا فتنے کو کچلنے سے قبل اسے اپنے مقصد کے لیے کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت کے سیاست دانوں کی سوچ نے اس سمت سفر کرنا شروع کیا۔
لیگ کے بڑے رہنما اس بات سے اچھی طرح واقف تھے کہ یہ بدحال ہاری کبھی بھی لیگ کے بڑے زمینداروں کو ووٹ نہیں دیں گے۔ خواہ اسلام کے نام پر پاکستان کی کتنی ہی پرزور اپیل کیوں نہ کی جائے۔ سندھ کے ہاری کی ہمدردیاں اور ووٹ مسلم لیگ اور کانگریس کے نظریات سے زیادہ اس امر سے وابستہ تھے کہ خود ان کی صدیوں کی محرومیوں اور برسوں کی جدوجہد کا پھل کون ان کے ہاتھ پر رکھتا ہے۔
یہ لوگ پاکستان کی حمایت اس لیے کررہے تھے کہ ان کے خیال میں نئی ریاست ان کو ایسے مواقع فراہم کرے گی جن کی مدد سے وہ ایک غیر ملکی حکومت اور اس کے تحت کام کرنے والی نوکر شاہی کی مداخلت سے آزاد ہوکر اپنی سماجی اور سیاسی طاقت استعمال کرسکیں گے ۔ ہاریوں کو یقین تھا کہ پاکستان کی نئی ریاست میں قرآن کے احکامات نافذ ہوں گے اور زمین کی ملکیت ان قوانین کے تحت تسلیم کی جائے گی۔ دوسری طرف ہاری کے سامنے اپنی سندھ ہاری کمیٹی کا کردار تھا۔ اس کے امیدواروں کے پاس صرف وعدے اور نعرے نہیں تھے بلکہ ان کی ایک طویل اور کامیاب جدوجہد تھی۔
راسخ العقیدہ مسلمان اور سادہ لوح ہاری نے پرکھ کی کسوٹی کو یوں دیکھا کہ جب سندھ ہاری کمیٹی بغیر کسی طاقت و اقتدار کے اس کی صدیوں کی غلامی کی زنجیروں کو پگھلا سکتی ہے تو مسلم لیگ طاقت اور اقتدار حاصل کر کے ان زنجیروں کو نام و نشان تک کیوں نہیں مٹا سکتی۔ لہٰذا وقت کے کشکول میں ہاری نے ایک غلط فیصلہ کا سکہ پھینک دیا۔ جس نے اس کی عروج پاتی تقدیر کو زوال کے راستے پر ڈال دیا۔