جب وہ آئے کہاں تھے تم

خوف ناک حملہ حکومتی اداروں کے حفاظتی اقدامات پر سوالیہ نشان


Mirza Zafar Baig June 10, 2014
خوف ناک حملہ حکومتی اداروں کے حفاظتی اقدامات پر سوالیہ نشان. فوٹو : اے ایف پی

کراچی میں ایک بار پھر مسلح دہشت گردوں نے ایک بڑی واردات کرکے ہمارے حفاظتی اقدامات کی پول کھول کر رکھ دی ہے۔

اتوار اور پیر کی درمیانی رات کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے خصوصی ٹرمینل میں 12 مسلح دہشت گرد داخل ہوئے، جو راکٹ لانچر اور مشین گنوں سے لیس تھے۔ انہوں نے پانچ گھنٹے تک ایئرپورٹ پر اپنا قبضہ جمائے رکھا اور کم از کم 19 افراد ہلاک، 26 زخمی کردیے۔ رات بھر کراچی ایئرپورٹ کے آس پاس مسلسل دھماکے سنائی دیتے رہے جس کے بعد سیکیوریٹی فورسز نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے تمام حملہ آوروں کو ہلاک کردیا۔

تحریک طالبان پاکستان نے ان حملوں کی ذمے داری قبول کرلی ہے۔ اس کے ترجمان شاہد اﷲ شاہد کا کہنا ہے،'' ہم نے کراچی ایئرپورٹ پر کارروائی کرکے حکیم اﷲ محسود کے قتل کا انتقام تو لے لیا ہے، مگر ہم ابھی اور حملے کریں گے۔ ہمیں اپنے علاقوں کے ان معصوم اور بے قصور لوگوں کے قتل کا بھی انتقام لینا ہے جنہیں سرکاری طیاروں نے فضائی حملے کرکے یا زمینی کارروائیوں کے ذریعے شہید کیا ہے۔''

واضح رہے کہ یہ حملے ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب حکومت اور طالبان ودیگر عسکری گروپوں کے ساتھ امن مذاکرات میں تعطل پیدا ہوگیا ہے اور مذاکرات کا یہ عمل آگے بڑھتا دکھائی نہیں دے رہا ۔ متعدد سیاسی لیڈر اس حق میں ہیں کہ طالبان سے امن مذاکرات کیے جائیں، مگر دوسری طرف سے مذاکرات میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا۔ اگر صورت حال یہی رہی تو ملک کے حالات مزید ابتری کی طرف جائیں گے۔

کیا تازہ دہشت گردی کا واقعہ مذاکرات میں تعطل کا نتیجہ ہے؟ کیا مسلح گروپ ساری دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان کے آگے حساس مقامات کی سیکیوریٹی کوئی حیثیت نہیں رکھتی؟ کیا اس طرح وہ دنیا بھر کے امن پسندوں کو چیلینج کررہے ہیں؟ یہ ایسے سلگتے ہوئے سوال ہیں جن کا جواب کسی کے پاس نہیں ہیں۔

کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر حملے کا آغاز اتوار کی رات کو ہوا اور اس کا اختتام پیر کو صبح کی روشنی نمودار ہونے سے پہلے ہی ہوگیا۔ اعلیٰ عہدے داروں کا کہنا ہے کہ تمام مسافروں کو ایئرپورٹ سے بہ حفاظت نکال لیا گیا ہے۔ مسلح دہشت گردوں کے اس حملے کے دوران ٹرمینل پر زبردست فائرنگ ہوتی رہی اور متعدد خوف ناک دھماکے بھی سنے گئے۔



واضح رہے کہ یہ وہ ٹرمینل ہے جو صرف وی آئی پی فلائٹس یا کارگو کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جس پر کنٹرول کے لیے دہشت گردوں اور سیکیوریٹی فورسز کے درمیان زبردست مقابلہ ہوتا رہا۔ ایئر پورٹ سے اٹھنے والے آگ اور دھوئیں کے بادل دور دور سے نظرآرہے تھے جس سے پورا آسمان بھی روشن ہوگیا تھا، اس روشنی میں کھڑے ہوئے جیٹ طیارے صاف دکھائی دے رہے تھے۔

سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ نے اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ دہشت گردی کی یہ خوف ناک کارروائی 12 مسلح دہشت گردوں نے کی۔ وہ مکمل طور پر تربیت یافتہ تھے، انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ منصوبہ تیار کیا تھا۔ وہ بعض طیارے اور ایئرپورٹ کی عمارتیں تباہ کرنے آئے تھے، مگر اس میں انہیں مکمل طور پر ناکام ہوئی۔

بعد میں ڈی جی رینجرز رضوان اختر نے رپورٹرز کو بتایا کہ ایئرپورٹ کی اچھی طرح دیکھ بھال کرکے اسے پیر کی شام کو چار بجے تک سویلین اتھارٹیز کے حوالے کردیا جائے گا، تاکہ وہ وہاں اپنی روزمرہ کی سرگرمیاں شروع کرسکیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ حملہ آور بظاہر ازبک لگتے تھے، لیکن اتھارٹیز حملہ آوروں کی شناخت اور ان کی قومیت کا تعین نہیں کرسکیں، جب کہ خود تحریک طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمے داری قبول کرلی۔

پاکستانی ملٹری کے ترجمان جنرل عاصم باجوہ نے کہا ہے کہ کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر دہشت گردوں کے اس حملے میں کوئی بھی طیارہ تباہ نہیں ہوا ہے، مگر سیکیوریٹی فورسز احتیاطی اقدام کے طور پر پورے ایئرپورٹ کی تلاشی لے رہی ہیں، تاکہ ہر طرح سے تسلی اور اطمینان کیا جاسکے۔ اس کے بعد ہی یہ ایئرپورٹ سول ایوی ایشن اتھارٹی اور ایئرپورٹ پولیس کے حوالے کیا جاسکے گا، جہاں یہ ادارے اپنے روزمرہ آپریشن شروع کرسکیں گے۔

ایئرپورٹ پر کچھ صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ایک سرکاری عہدے دار نے کہا کہ مسلح حملہ آور ایئر پورٹ سیکیوریٹی فورس کی وردی پہنے ہوئے تھے، جس کا کام ہی قومی ایئرپورٹس کی حفاظت کرنا ہے۔ ان سب نے اپنے جسموں کے ساتھ آتش گیر مواد باندھ رکھا تھا۔ ان میں سے ایک حملہ آور کے جسم کے ساتھ بندھا آتش گیر مواد پھٹا تو سیکیوریٹی فورسز نے اس پر فائرنگ کردی۔ یہ دیکھ کر دوسرے حملہ آور نے بھی خود کو بڑی تیزی سے اڑا لیا۔ مذکورہ عہدے دار نے بتایا کہ اس کا تعلق ملک کی ایک انٹیلی جینس ایجینسی سے ہے، مگر اس نے اپنا نام بتانے سے انکار کردیا۔

سینیر پولیس افسر غلام قادر تھیبو کا کہنا ہے:''مسلح دہشت گرد کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے گراؤنڈز میں کسی طوفان کی طرح داخل ہوئے اور انہوں نے دو سیکشنز میں مورچے جمالیے۔ اس کے بعد جو دھماکا ہوا تھا، وہ اس وقت ہوا جب ہماری پولیس پارٹی ایک دہشت گرد کی لاش اٹھانے گئی تھی۔ وہ حملہ آور کی لاش تھی جس نے خود کو اڑایا تھا۔ اس کے بعد سیکیوریٹی فورسز نے چار مشین گنیں اور ایک راکٹ لانچر اپنے قبضے میں لے لیا۔ لیکن آگ اور دھوئیں کے بادل اس وقت بنے جب تیل نے آگ پکڑی۔''



دہشت گردی کی اس کارروائی میں اب تک 19 افراد کے جاں بحق اور 26 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ایک عہدے دار کا کہنا ہے کہ کراچی آنے والی تمام پروازوں کا رخ دوسرے شہروں کے ایئرپورٹس کی طرف موڑ دیا گیا تھا۔ پی آئی اے کے ترجمان کے مطابق: اس سارے ہنگامے کے دوران پندرہ سے بیس پروازیں متاثر ہوئیں۔

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، اسے ملک کا معاشی اور اقتصادی مرکز ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، جہاں بے شمار لوگوں کو روزگار ملتا ہے، یہاں بے شمار فیکٹریاں، ملیں، صنعتیں قائم ہیں جن سے صرف کراچی کے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے لوگ مستفید ہوتے ہیں اور اس شہر کی ترقی میں اپنے حصے کا کردار ادا کرکے اپنے حصے کی روزی حاصل کرتے ہیں۔ لیکن یہ اس شہر کی بدقسمتی ہے کہ یہ ہمیشہ حملہ آوروں کی ہٹ لسٹ پر رہا ہے۔ دہشت گردوں کا جب جی چاہتا ہے، شہر میں آگ و خون کی ہولی کھیلنے لگتے ہیں۔ ماضی میں بھی یہ شہر دہشت گردوں کے نشانے پر رہا۔کبھی انھوں نے حساس مقامات کو اپنی کارروائی کا نشانہ بنایا تو کبھی کسی بستی پر ٹوٹ پڑے، انہوں نے اپنی مرضی سے جو چاہا کیا، سیکیوریٹی عہدے دار دیکھتے رہ گئے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں کسی ہوائی اڈے پر دہشت گردی کا پہلا واقعہ 15 دسمبر 2012 کو پشاور کے باچا خان انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پیش آیا، جس کا ہدف پاکستان ایئرفورس بیس تھا۔ اس واقعے میں 40 سویلین جاں بحق ہوئے، جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ اس حملے کی ذمے داری بھی تحریک طالبان نے قبول کی تھی۔

اس کے بعد دوسرا واقعہ 22 مئی 2011 کو پیش آیا، جب دہشت گردوں نے نیول بیس کراچی پر 18 گھنٹے تک قبضہ رکھا تھا۔ اس افسوس ناک کارروائی میں 10 افراد جاں بہ حق ہوئے جس پر مسلح افواج نے بھی شدید افسوس کا اظہار کیا تھا۔ لیکن حکومت کی جانب سے ٹھوس، عملی اور قابل عمل اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے۔ شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ دہشت گردوں کے حوصلے بڑھتے جارہے ہیں، نہ انہیں کوئی روکنے والا ہے اور نہ للکارنے والا، وہ خود کو ہر ایک سے برتر سمجھتے ہیں اور جو جی چاہتا ہے، جب جی چاہتا ہے، کر ڈالتے ہیں۔

تیسرا واقعہ 16 اگست 2012 کو کامرہ ایئر بیس پر پیش آیا جب 7دہشت گردوں نے خود کار ہتھیاروں کے ساتھ حملہ کیا جس میں تمام دہشت گرد ہلاک ہوگئے اور ایک پاکستانی فوجی جاں بحق ہوا۔ اور اب یہ چوتھا واقعہ 8 جون 2014 کو کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پیش آیا ہے جس میں یہ سطور لکھے جانے 28 افراد کے ہلاک اور 26 کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ کراچی میں پیش آنے والا یہ تازہ ترین واقعہ اب تک ایئرپورٹس پر پیش آنے والے واقعات میں سب سے زیادہ سنگین ہے جو ارباب اقتدار کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔

اگر دہشت گرد اسی طرح ایئرپورٹس اور دیگر حساس مقامات پر اپنی من مانی کارروائیاں کرتے رہے تو عام لوگوں اور خاص طور سے غیرملکی سرمایہ کاروں کا ہمارے ملک پر سے اعتبار اٹھ جائے گا اور وہ اپنا سرمایہ یہاں سے نکال کر کسی پرامن ملک میں لگانے کے بارے میں سوچیں گے جہاں ان کا سرمایہ محفوظ ہو اور ان کی آمدنی کے لیے بھی کوئی خطرہ نہ ہو۔

کراچی ایئرپورٹ پر حملوں کی ذمے داری تحریک طالبان پاکستان قبول کرچکی ہے، جس کے ساتھ حکومت پاکستان سنجیدگی سے امن مذاکرات کی کوشش کررہی ہے، لیکن ابھی تک اس کوشش میں کوئی کام یابی نہیں ملی، بلکہ ملک بھر میں مسلح گروپوں کے حملوں کا خطرہ مسلسل بڑھتا چلا جارہا ہے۔

دہشت گردوں کا یہ حملہ نصف شب سے کچھ پہلے شروع ہوا، جس کے بعد ہر طرف سے شدید فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں اور اسی دوران دو بار کافی تیز دھماکے بھی سنائی دیے۔ ایئر پورٹ کے اندر موجود کئی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اس حملے کے دوران کم از کم تین طیاروں کو نقصان پہنچا۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ بعض طیاروں کو گولیاں لگی تھیں، مگر ان میں سے کسی میں بھی آگ نہیں لگی۔

ایک سینیر انٹیلی جینس عہدے دار نے واشنگٹن پوسٹ کو نام نہ ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بعض مسلح حملہ آور ایک طیارے کو ہائی جیک کرنا چاہتے تھے، مگر وہ اپنے اس مقصد میں ناکام رہے۔

متحدہ قومی موومنٹ کے سینیر ممبر فاروق ستار بھی لندن جانے والے طیارے پر سوار تھے اور ایئر پورٹ پر ہی موجود تھے۔ اس صورت حال میں ان کے طیارے کو واپس گیٹ پر لایا گیا، لیکن کسی کو طیارے سے اترنے کی اجازت نہیں ملی جس سے مسافروں میں بے چینی پھیل گئی۔ دوسری جانب یہ پریشانی بھی تھی کہ طیارے کی ایندھن کے ٹینک بھرے ہوئے تھے اور اندیشہ تھا کہ اگر یہ فائرنگ کی زد میں آگئے تو کیا ہوگا۔ بعد میں مسافروں کو طیارے سے اتارکر ڈیپارچر لاؤنج میں بھیج دیا گیا، مگر انہیں باہر جانے کی اجازت پھر بھی نہیں ملی۔ کراچی آنے والی کئی پروازوں کا رخ کراچی سے چند سو میل دور واقع شہروں کی طرف موڑ دیا گیا۔

پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ خواجہ محمد آصف نے کہا: ''یہ ناقابل معافی جرم ہے۔ حکومت ایسی بزدلانہ کارروائیوں کا بھرپور جواب دے گی۔ جو لوگ ایسے وحشت ناک منصوبے بناتے اور جو ان پر عمل کرتے ہیں، ان سب کو شکست ہوگی۔''



یہ حملہ متعدد حوالوں سے حکومت کی کارکردگی پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اس سے عوام کے جان و مال کے تحفظ کے ان حکومتی اقدامات کا بھی پتا چل گیا ہے جن کے وہ دعوے کررہی ہے۔ ساری دنیا کو معلوم ہوگیا ہے کہ ہم عسکری گروپوں سے اپنے حساس مقامات تک کی حفاظت نہیں کرسکتے۔ یہ عسکری گروپ ریاست پاکستان کے خلاف لڑرہے ہیں۔

یہ حملہ مہران نیول ایئربیس پر حملے کے تین سال بعد ہوا ہے جو ایئرپورٹ سے صرف تین میل دور واقع ہے۔ مہران نیول ایئر بیس پر بھی دہشت گردوں نے اسی انداز کا حملہ کیا تھا، جس میں ملٹری کے 10 افراد شہید ہوئے تھے اور دو طیارے مکمل طور پر تباہ ہوگئے تھے۔

ماضی میں بھی ایئرپورٹ پر سیکیوریٹی اقدامات پر نکتہ چینی کی جاتی رہی ہے۔ سیکیوریٹی فورسز ایئرپورٹ کے احاطے کی نگرانی کرتی ہیں، جن کے پاس صرف dowsing rods ہوتی ہیں، جن کی مدد سے وہ آنے والے مسافروں یا انہیں چھوڑنے کے لیے آنے والوں کو اور ان کے سامان کو چیک کرتے ہیں۔ لیکن ٹھوس اور عملی اقدامات نہیں کیے جاتے۔ محض ڈاؤزنگ راڈز ہی ایئرپورٹ کی سیکیوریٹی کو یقینی بنانے کے لیے کافی نہیں ہیں، اس کے لیے مزید سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے، تاکہ آنے والوں کو مکمل طور پر چیک کیا جاسکے۔

اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ایئرپورٹ جیسے حساس مقامات پر ایسے حفاظتی اقدام بھی نہ کیے جائیں جن سے عام لوگوں اور عام مسافروں کو پریشانی ہو، مگر ایسے اقدام بہت ضروری ہیں جن کی وجہ سے دہشت گردی کے عزائم رکھنے والے یا مسلح لوگ کسی بھی صورت میں ایئرپورٹ میں داخل نہ ہوسکیں، بلکہ انہیں پکڑا جاسکے۔ اس کے لیے عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کو سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے اور ماہرین کی مدد اور مشورے سے پلاننگ کرنی ہوگی۔ اب اس کام میں مزید تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اسے ترجیحی بنیادوں پر کرنا ہوگا، تاکہ مستقبل قریب میں پھر کبھی ایسے سنگین واقعات پیش نہ آئیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں