مسلمانان ِ غزہ کی نسل کشی

فلسطینیوں پہ ظلم وستم ڈھاتے ہوئے ظالم اسرائیلی حکمران طبقے نے مذہب وقانون کی تمام حدود ملیامیٹ کر دیں


فلسطینیوں پہ ظلم وستم ڈھاتے ہوئے ظالم اسرائیلی حکمران طبقے نے مذہب وقانون کی تمام حدود ملیامیٹ کر دیں ۔ فوٹو : فائل

9 فروری 1924ء کو اسرائیلی وزیراعظم، بنجمن نیتن یاہو نے بیان دیا کہ ان کی فوج رفح میں پیش قدمی کرے گی، جو غزہ کی پٹی کا آخری باقی ماندہ شہر ہے اور جس پرتب تک اسرائیلیوں کا قبضہ نہیں ہوا تھا۔

غزہ میں رہنے والے بائیس تئیس لاکھ فلسطینیوں میں سے زیادہ تر 13 اکتوبر 2023ء کو اسرائیلیوں کی طرف سے یہ بتانے کے بعد مصر کے ساتھ لگنے والی جنوبی سرحد کی سمت بھاگ گئے تھے کہ شمال چھوڑناہوگا اور جنوب کا علاقہ ایک "محفوظ زون" ہے۔

جب شمال سے فلسطینیوں نے خاص طور پر غزہ شہر سے، اپنا عام طور پہ پیدل مارچ جنوب کی طرف شروع کیا تو ان پر اسرائیلی فورسز نے حملہ کر دیا۔اسرائیلی فوج نے انہیں کوئی محفوظ راستہ نہیں دیا۔ حالانکہ اسرائیلیوں کا کہنا تھا کہ وادی غزہ کے جنوب میں کوئی بھی چیز جو تنگ پٹی کو تقسیم کرتی ہے، محفوظ رہے گی۔ لیکن پھر جب فلسطینی دیر البلاح، خان یونس اور رفح کے علاقوں کی طرف بڑھے تو انہوں نے اسرائیلی جیٹ طیاروں کو ہوا میں منڈلاتے اور اپنے پیچھے اسرائیلی فوجیوں کو دیکھا۔ وہ دیوانہ وار ان کے پیچھے آرہے تھے.انھوں نے پناہ گاہوں کی بڑھتے فلسطینیوں کو بے دریغ نشانہ بنایا۔

اس کے بعد نیتن یاہو نے اعلان کر دیا کہ اسرائیل کی افواج حماس کا مقابلہ کرنے کے لیے رفح میں داخل ہوں گی۔ 11 فروری کو نیتن یاہو نے امریکی ٹی وی چینل، این بی سی نیوز کو بتایا کہ اسرائیل "شہری آبادی کو محفوظ راستہ" فراہم کرے گا اور کوئی "تباہی" نہیں ہوگی۔

''تباہی'' سے مراد

لفظ "تباہی" (catastrophe)کا استعمال اہم ہے۔ یہ عربی لفظ ''نکبہ'' کا قبول شدہ انگریزی ترجمہ ہے جو 1948 ء سے اس سال فلسطینیوں کی نصف آبادی کو ان کے گھروں سے جبری بے دخلی کی وضاحت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

نیتن یاہو کی جانب سے اس اصطلاح کا استعمال اسرائیلی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے پہلے ہی "غزہ نکبہ" یا "دوسری نکبہ" کے بارے میں بات کرنے کے بعد سامنے آیا ۔ یہ جملے 29 دسمبر 2023 ء کو بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) میں جنوبی افریقہ کی درخواست کا حصہ تھے، جس میں یہ الزام لگایا گیا کہ یہ "اسرائیلی ریاستی اہلکاروں کی طرف سے فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی کے عزائم کے اظہار" کا حصّہ ہیں۔

ایک ماہ بعد آئی سی جے نے اسرائیلی حکام کے الفاظ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان جملوں سے عیاں ہوتا ہے ،غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ایک اہلکار، اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے حملہ کرنے سے قبل کہا تھا: "میں نے (فلسطینی شہریوں پر حملے کے سلسلے میں )تمام پابندیاں ختم کر دی ہیں۔''

یہ بڑی ستم ظریفی ہے کہ تیس ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کے شہید ہونے اور غزہ میں 2.3 ملین فلسطینیوں میں سے 2 ملین کے بے گھر ہونے کے بعد نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ کوئی "تباہی'' نہیں ہو گی۔آئی سی جے کے حکم کے بعد سے اب تک اسرائیلی فوج تقریباً ڈھائی ہزار فلسطینیوں کو ہلاک کر چکی ۔ اسرائیلی فوج نے پہلے ہی رفح شہر پر حملہ کرنا شروع کر دیا ، جہاں آبادی کی گنجانی 22,000 افراد فی مربع کلومیٹر ہے۔

اسرائیل کے اس اعلان کے جواب میں کہ وہ رفح شہر میں داخل ہو جائے گا، نارویجن ریفیوجی کونسل (NRC) نے کہا، جو غزہ کے جنوبی حصے میں کام کرنے والے چند گروپوں میں سے ایک ہے، کہ اس طرح کا حملہ "غزہ میں امدادی سرگرمیاں انجام دیتے اداروں کے مشن ختم کر سکتا ہے۔"



این آر سی نے رفح میں دس پناہ گاہوں میں سے نو کا جائزہ لیا، جن میں 27,400 شہری رہائش پذیر ہیں اور پتا چلا کہ رہائشیوں کے پاس پینے کا پانی نہیں ۔ چونکہ پناہ گاہیں 150 فیصد صلاحیت کے ساتھ کام کر رہی ہیں، سیکڑوں فلسطینی سڑکوں پر رہ رہے ہیں۔

این آر سی نے جن علاقوں کا مطالعہ کیا، ان میں سے ہر ایک میں انہوں نے فلسطینی پناہ گزینوں کو ہیپاٹائٹس اے، گیسٹرو اینٹرائٹس، اسہال، چیچک، جوئیں اور انفلوئنزا کی گرفت میں پایا۔ اگر این آر سی نے بھی اپنی امدادی سرگرمیاں روک دیں تو غزہ میں صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔یاد رہے، اقوام متحدہ کی ایجنسی، UNRWA اسرائیلی حکومت کے جھوٹے الزامات کی وجہ سے اپنی عالمی فنڈنگ کھو چکی اور اسرائیلیوں کے حملے کی زد میں ہے ۔

محفوظ راستہ

نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ اس کی حکومت فلسطینیوں کو "محفوظ راستہ" فراہم کرے گی۔ یہ الفاظ فلسطینیوں نے اکتوبر کے وسط سے سنے جب انہیں اسرائیلی بمباری سے ہلاک ہونے سے بچنے کے لیے جنوب کی طرف جانے کو کہا گیا تھا۔ نیتن یاہو کی باتوں پر مگر کوئی یقین نہیں کرتا۔

ایک فلسطینی ہیلتھ ورکر، سلیم نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ غزہ کے اندر کسی بھی محفوظ جگہ ہونے کا تصّور نہیں کر سکتا۔ وہ خان یونس سے رفح کے الزہور محلے میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ آیاتھا۔ اسرائیلی بندوقوں کے دائرے سے نکلنے کے لیے بے چین تھا۔

''اب ہم کہاں جائیں؟''اس نے عالمی نیوز ایجنسیوں کے نامئندوں سے سوال کیا۔ "ہم مصر میں داخل نہیں ہو سکتے۔ سرحد بند ہے۔ اس لیے ہم جنوب نہیں جا سکتے۔ ہم اسرائیل میں نہیں جا سکتے، کیونکہ یہ ناممکن ہے۔ کیا ہم شمال میں واپس خان یونس اور غزہ شہر جائیں گے؟''

سلیم کو یاد ہے کہ جب وہ الزہور پہنچا تو اسرائیلیوں نے ڈاکٹر عمر محمد حرب کے گھر کو نشانہ بنایا، جس میں 22 فلسطینی (جن میں پانچ بچے تھے) ہلاک ہوگئے۔ اب گھر ملبے کا ڈھیر تھا۔ڈاکٹر عمر محمد حرب کا نام غزہ میں جانا پہچانا ہے۔وہ سماجی راہنما بھی تھے۔ دو سال پہلے ان کی بیٹی عبیر کی شادی صحافی اسماعیل عبد الحمید دویک سے ہونی تھی۔ شہدا پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی فضائی حملے میں اسماعیل شہید ہو گیا۔

عبیر اپنے والد کے گھر پر حملے میں شہید ہوئی جو شمال سے آنے والے متاثرین کے لیے پناہ گاہ تھا۔ سلیم جان بچا کر رفح کے علاقے میں چلا گیا لیکن یہ علاقہ بھی اب غیر محفوظ ہے۔ وہ بے چین ہو کر کہتا ہے:''اب ہم کہاں جائیں۔اسرائیلی ہمیں تڑپا تڑپا کر مارنا چاہتے ہیں۔''

ڈومیسائیڈ یعنی نسل کشی

29 جنوری ، فلسطینیوں کو مناسب رہائش کا حق دینے کے معاملے پر اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے، ڈاکٹر بالاکرشنن راجا گوپال نے نیویارک ٹائمز میں ایک عمدہ مضمون لکھا جس کا نام تھا "ڈومیسائیڈ: گھروں کی بڑے پیمانے پر تباہی انسانیت کے خلاف ایک جرم ہونا چاہیے۔''("Domicide: the Mass Destruction of Homes Should Be a Crime Against Humanity.")

اس کے مضمون کے ساتھ یقین نان بائی کا ایک تصویری مضمون بھی تھا، جس کا گھر جبالیہ (شمالی غزہ) میں اسرائیلی بمباری سے تباہ ہو گیا ۔یقین نے امریکی اخبار کے صحافی کو بتایا: "غزہ میں گھروں کی تباہی ایک عام سی بات ہو گئی ہے، اور اسی طرح غم ودکھ کے جذبات بھی!اہم بات یہ ہے کہ آپ محفوظ ہیں،باقی سب کچھ بدلا جا سکتا ہے۔''

یہ ایک ایسی سوچ ہے جو غزہ میں ان لوگوں کے درمیان مشترکہ بن چکی جو ابھی تک زندہ ہیں۔ لیکن جیسا کہ راجا گوپال کہتے ہیں، غزہ میں مکانات کی تباہی کے پیمانے کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے، "نسل کشی" کی ایک شکل ہے۔

راجا گوپال لکھتے ہیں کہ غزہ پر اسرائیلی حملہ اس سے کہیں زیادہ بدتر ہے جو ہم نے دوسری جنگ عظیم کے دوران ڈریسڈن اور روٹرڈیم (جرمن شہروں)میں دیکھا جہاں ہر شہر میں تقریباً 25,000 گھر تباہ ہوئے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ غزہ میں 70,000 سے زیادہ مکانات مکمل طور پر تباہ ہو چکے اور 290,000 کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ اسرائیلی بم باری کے ان تین مہینوں میں، وہ نوٹ کرتے ہیں: "غزہ میں 60 سے70 فیصد تک عمارات، اور شمالی غزہ میں 84 فیصد تک شہری ڈھانچے کو نقصان پہنچا یا وہ تباہ ہو گیا ۔"

اس ''ڈومیسائڈ'' یا نسل کشی کی وجہ سے رفح میں جانے فلسطینیوں کے لیے اب کوئی رہایشی جگہ باقی نہیںرہی۔ شمال کی طرف واقع ان کے گھر تباہ ہو چکے ۔راج گوپال اپنے مضمون میں واضح طور پہ لکھتے ہیں:'' غزہ کو ایک جگہ کے طور پر کچلنا بہت سے فلسطینیوں کے ماضی، حال اور مستقبل کو مٹا دینا ہے۔" اقوام متحدہ کے اعلی عہدے دار کا یہ بیان غزہ میں جاری نسل کشی کا اعتراف ہے۔

جب امریکا و یورپ سے آئے صحافی سلیم سے بات کر رہے تھے تو دور سے پیش قدمی کرتی اسرائیلی فوج کی جانب سے فائرنگ کی آوازیں آ رہی تھیں۔ وہ سرد آہ لے کر بولا:'' مجھے نہیں معلوم کہ ہم اگلی بات کب کر سکتے ہیں... مجھے نہیں معلوم کہ میں کہاں رہوں گا...زندہ بھی رہوں گا یا نہیں!''

غزہ جنگ ایک امریکی تنظیم کی نظر میں

دی امریکین فرینڈز سروس کمیٹی(The American Friends Service Committee)امریکا کی ایک نامور سماجی تنظیم ہے۔ اس کو 1947ء میں بنی نوع انسان کی فلاح وبہبود پہ امن کا نوبل انعام ملا تھا۔ جناب مائیک میریمین(Mike Merryman-Lotze)تنظیم کے پالیسی ڈائرکٹر ہیں۔ اہل فلسطین پر اسرائیل کی حالیہ یلغار کے سلسلے میں ان کا ایک مضمون ''5 things you need to know about what's happening in Israel and Gaza''امریکی میڈیا میں شائع ہوا۔ یہ ان امریکی عوام و خواص کا نکتہ نظر عیاں کرتا ہے جو اپنے حکمران طبقے سے اختلاف رکھتے ہیں۔اس مضمون کے اقتباسات پیش خدمت ہیں۔

٭٭

7 اکتوبر کو غزہ سے فلسطینیوں نے اسرائیل پر حملے کیے جن میں کم از کم 1,200 اسرائیلی ہلاک، ہزاروں زخمی ہوئے، اور ایک اندازے کے مطابق 240 کو یرغمال بنایا گیا۔ اسرائیل نے فوری طور پر غزہ پر حملے شروع کر دیئے۔ تب سے اب تک غزہ میں کم از کم تیس ہزار فلسطینی مارے جا چکے جن میں 70 فیصد خواتین اور بچے شامل ہیں۔ تشدد مسلسل بڑھ رہا ہے اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

اسرائیل نے غزہ کو ہرممکن بندش کے تحت رکھا ہے ...ایندھن، پانی، بجلی، خوراک، طبی سامان اور دیگر سامان غزہ کے لوگوں تک نہیں پہنچ سکتا۔ مغربی کنارے میں آباد فلسطینیوں کے خلاف بھی اسرائیلی تشدد میں اضافہ ہوا کیونکہ (اسرائیلی )آباد کاروں کے حملے بڑھ گئے۔ بڑے پیمانے پر اہل فلسطین کو گرفتار کرنے کی مہم چلی اور فوجی چھاپوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ حماس کے حملے کے بعد مغربی کنارے میں کم از کم 397 فلسطینی ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ۔

اے ایف ایس سی ان لوگوں کے ساتھ سوگ مناتی ہے جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا اور جو لوگ تکلیف میں ہیں۔ ہم اس تشدد کو ختم کرنے اور ایک منصفانہ اور دیرپا امن قائم کرنے کے لیے درکار تبدیلیوں کی خاطر کام کرتے رہیں گے۔

صورتحال سے نمٹنے کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ تشدد کس تناظر میں ہو رہا ہے۔ یہاں پانچ باتیںہیں جنھیں آپ کو جاننے کی ضرورت ہے:

٭... تشدد کا آغاز غزہ حملوں سے نہیں ہوا

7 اکتوبر سے پہلے بھی یہ سال (2023ء ) ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں اہل فلسطین پہ سب سے زیادہ پُرتشدد برسوں میں سے ایک تھا۔ ستمبر کے اختتام سے قبل اسرائیلی فوجیوں اور آباد کاروں کے ہاتھوں 47 بچوں سمیت کم از کم 247 فلسطینی ہلاک ہو چکے تھے۔ اسی عرصے کے دوران اسرائیلی آباد کاروں نے فلسطینیوں اور ان کی ملکیتی املاک پر 800 سے زیادہ حملے کیے ۔ مزید برآں 1100 سے زائد فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے زبردستی بے گھر کیا گیا۔

یہ کارروائیاں ایسے حالات میں ہوئیں جب فلسطینیوں کی اراضی پر قبضے، بڑے پیمانے پر ان کی گرفتاری کی مہم، فلسطینی شہروں پر فوجی حملوں اور یروشلم میں ایک اہم مذہبی مقام، مسجد اقصیٰ پر فلسطینیوں کے کنٹرول کو لاحق خطرے میں اضافہ ہوا ہے۔

اقتدار میں آنے کے بعد سے اسرائیل میں انتہائی دائیں بازو کی نیتن یاہو حکومت نے فلسطینی قوم کے خلاف تشدد میں اضافہ کیا ہے۔ جبکہ فلسطینیوں کی آزادی یا مساوات کے کسی بھی امکان کو مسترد کر دیا۔ آبادکار رہنماؤں نے اب اسرائیل میں غلبہ حاصل کر یا ہے اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی اکثریت ختم کرنے کی کوششیں آگے بڑھاتے ہوئے اسرائیل سے مغربی کنارے کے الحاق کی جانب ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔

٭... غزہ 16 سال سے پُرتشدد ناکہ بندی کی زد میں
فلسطینیوں کے لیے تشدد ایک انتہائی، روزمرہ کی انتہائی تلخ حقیقت ہے۔سولہ سال سے زیادہ عرصے سے غزہ کے لوگ اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ ناکہ بندی کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔ اس نے وہاں کے 22 لاکھ سے زیادہ باشندوں کے لیے سفر، تجارت اور روزمرہ کی زندگی کو بری طرح محدود کر دیا ہے۔ نتیجتاً، غزہ پر حالیہ حملے سے قبل بھی ناکہ بندی کے اثرات سفاکانہ و ظالمانہ رہے ہیں:
۰ غزہ کے 80 فیصد لوگ زندہ رہنے کے لیے بین الاقوامی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔
۰ 50 فیصد سے زیادہ آبادی بے روزگار ہے۔
۰ ہسپتالوں میں مسلسل 40 فیصد تک ضروری سامان اور ادویات موجود نہیں۔
۰ غزہ میں تقریباً 96 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں ۔
۰ بجلی صرف وقفے وقفے سے دستیاب ہے۔
ناکہ بندی نے غزہ میں تمام فلسطینیوں کی زندگیوں اور صحت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ غذائیت کی کمی کی وجہ سے بچوں کی نشوونما رک جاتی ہے۔ فلسطینی آسانی سے مرجا تے ہیں کیونکہ وہ طبی امداد تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ نقل و حرکت کی پابندیوں کی وجہ سے خاندان کے خاندان الگ ہو گئے ہیں۔
اور ناکہ بندی تشدد کے ذریعے نافذ کی جاتی ہے۔ غزہ میں اسرائیلی فوج کی دراندازی ہفتہ وار ہوتی ہے۔ فوج روزانہ غزہ پر گولہ باری کرتی ہے اوریہ بمباری باقاعدگی سے ہوتی ہے۔غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کے باعث یکم جنوری 2008ء سے 19 ستمبر 2023 ء کے درمیان 5,365 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے جن میں 1,206 بچے بھی شامل ہیں۔
غزہ پر اسرائیل کے پچھلے حملوں کے بعد یہ وعدے کیے گئے تھے کہ ناکہ بندی کم یا ختم کر دی جائے گی۔ لیکن ناکہ بندی غزہ میں فلسطینیوں کے لیے مہلک اثرات کے ساتھ جاری ہے۔

٭... بین الاقوامی قانون کے تحت فلسطینی اور اسرائیلی تشدد کے استعمال کے قانونی حقوق کے پابند لیکن تشدد انصاف اور دیرپا امن نہیں لاتا
امریکی حکومت نے بارہا کہا ہے کہ غیر ملکی فوجی قبضے کے تحت رہنے والے لوگوں کو جیسا کہ یوکرین میں ہوا ہے، اپنے قبضے کے خلاف فوجی مزاحمت کرنے کا حق حاصل ہے۔ فلسطینیوں کو بھی یہی حق حاصل ہے۔ اس کے ساتھ ہی، جنگ کے قوانین جو قبضے کے خلاف مزاحمت کے حق کا تعین کرتے ہیں، یہ بھی عیاں کرتے ہیں کہ شہریوں پر حملے کرنا منع ہے۔ جیسا کہ 7 اکتوبر کو اور دیگر جنگی جرائم میں دیکھا گیا۔



جنگ کے یکساں قوانین اسرائیل سمیت قابض طاقتوں پہ ذمہ داریاں عائد کرتے اور ان کے اقدامات کو محدود کرتے ہیں۔ مگر کئی دہائیوں سے اسرائیل نے منظم طریقے سے فلسطینیوں کے لیے بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمے داریوں کی خلاف ورزی کی ہے۔اہل فلسطین کے حقوق کی خلاف ورزی کی ہے اور اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں نسل پرستی کا نظام نافذ کیا ہے۔ عام شہریوں اور شہری اہداف پہ حملوں پر پابندی کا اطلاق اسرائیل پر بھی ہوتا ہے۔

ایک کوئیکر( Quaker )تنظیم کے طور پراے ایف ایس سی تمام تشدد کی مخالفت کرتا اور اس کے خاتمے کے لیے کام کرتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ تشدد مزید تشدد سے ختم نہیں ہوگا۔ تبدیلی لانے کے لیے ہمیں تنازعات کی جڑوں سے نمٹنا چاہیے، بشمول تاریخی اور فلسطینیوں کی جاری نقل مکانی، فلسطینی علاقوں پہ قبضے، اور نسل پرستی (apartheid) کا جاری نظام۔

٭... امریکی فنڈنگ، اسلحہ اور اسرائیلی حکومت کی طرف سے کی جانے والی ناانصافی عدم مساوات اور تشدد کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔

کئی دہائیوں سے امریکا اسرائیل کی بلا روک ٹوک حمایت کر رہا ہے حالانکہ اسی دوران اس نے فلسطینیوں کے حقوق کی منظم خلاف ورزی کی ہے۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کے درمیان اس اتفاق کے باوجود کہ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستی کو نافذ کر رہا ہے، امریکا ہر سال اسرائیل کو 3.8 بلین ڈالر کی فوجی امداد فراہم کرتا ہے۔

اس حقیقت کے باوجود کہ موجودہ اسرائیلی حکومت فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کرتی ہے اور ریکارڈ شرحوں پر فلسطینی اراضی پر قبضہ کرنے کے لیے آگے بڑھی ہے، امریکی حکومت وزیر اعظم نیتن یاہو اور ان کے اتحادیوں کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کر رہی ہے۔ اور اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے خلاف ریکارڈ سطح پر تشدد کرنے کے باوجود، جس میں امریکی شہریت والے فلسطینی بھی شامل ہیں ، امریکا اسرائیل کو معافی کی پیشکش کرتا رہتا اور احتساب کی کوششوں کو روکتا ہے۔

جواب دہی کا یہ فقدان اور فلسطینیوں کا یہ احساس کہ انہیں عالمی برادری نے ترک کر دیا ہے، حالیہ تشدد سمجھنے کے لیے اہم ہے۔ تشدد کے خاتمے کے لیے امریکی پالیسی کو تبدیل کرنا ہوگا۔ اسرائیل کو اس کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے، اور نسل پرستی کا نظام ختم ہونا چاہیے۔

٭... آپ (امریکی باشندے )تبدیلی لانے میں مدد کر سکتے ہیں
تشدد روکنے اور (فلسطینی علاقوں پہ ) قبضے کے خاتمے کے لیے ہر ایک (امریکی) کا کردار ہے۔ یہاں کچھ باتیں ہیں جو آپ ابھی کر سکتے ہیں۔

کانگریس کو بتائیں: ابھی غزہ میں جنگ بندی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رسائی کا مطالبہ کریں!ان (امریکی پارلیمنٹ کے ارکان ) پر زور دیں کہ اسرائیل بین الاقوامی انسانی اور انسانی حقوق کے قانون کی پاسداری کرے۔ غزہ پر اسرائیل کی بمباری ختم کرنے کے لیے مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کریں۔

غزہ میں انسانی امداد کی کوششوں کے لیے عطیہ کریں۔ غزہ میں ہمارے دفاتر کے ذریعےAFSC سب سے زیادہ ضرورت مند اور خطرے کا سامنا کرنے والے فلسطینیوں کو مدد اور مدد فراہم کرتا ہے۔ موصول ہونے والے عطیات کو جاری حملوں سے متاثر ہونے والے افراد اور خاندانوں کی مدد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

نسل پرستی سے پاک مہم میں شامل ہوں۔ ان حملوں کو ختم کرنا پہلا قدم ہے، لیکن یہ کافی نہیں ۔ دیرپا تبدیلی لانے کے لیے اسرائیل اور فلسطین میں تشدد کی جڑوں یعنی قبضے، نسل پرستی اور آبادکاری کے نظام کو ختم ہونا چاہیے۔ اس بارے میں مزید جانیں کہ آپ تشدد کے ان نظاموں کو ختم کرنے کے لیے AFSC میں کیسے شامل ہو سکتے ہیں تاکہ ایک منصفانہ اور دیرپا امن قائم ہو سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں