نئی حکومت کے ابتدائی چیلنجز

مخلوط حکومت کا سب سے بڑا چیلنج خود اپنی اتحادی جماعتوں کی سطح پر اعتماد سازی اور سیاسی ہم آہنگی کا فقدان ہوگا


سلمان عابد March 05, 2024
[email protected]

پاکستان کو اگر سیاسی، سماجی اورمعاشی بنیادوں پر آگے بڑھنا ہے تو اس کا واحد نقطہ مضبوط جمہوری نظام ہے اوراسی کو بنیاد بنا کر ہم اپنے داخلی، علاقائی اور عالمی چیلنجز سے نمٹ سکتے ہیں ۔جو مسائل ہیں وہ سنگین نوعیت کے ہیں اور یہ معمولی اقدامات کی بنیاد پر حل نہیں ہوں گے بلکہ اس کے لیے ہمیں غیر معمولی اقدامات درکار ہیں۔

یہ کام ایک بڑی سیاسی کمٹمنٹ اور سیاسی حکمت عملی کا تقاضہ کرتا ہے لیکن یہ عمل کسی سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں بلکہ سب کو ہی اس مشکل حالات میں اپنی اپنی سطح پرزیادہ سنجیدگی کے ساتھ اپنا اپنا ذمے دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔یہ کام حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان باہمی اہم آہنگی کی بنیاد پر ہی آگے بڑھ سکتا ہے ،اگر فریقین پارلیمنٹ سے باہر سیاسی میدان میں کھڑے ہوجائیں گے تو حالات کی بہتری کے امکانات محدود بھی ہوں گے اور نیا سیاسی بگاڑ بھی دیکھنے کو ملے گا۔

نئی حکومت اقتدار میں آرہی ہے اوریہ ایک مخلوط حکومت ہے۔ اس حکومت کو ابتدا ہی میں کئی محاذوں پر چیلنجز ہیں۔ چیلنجز کا ہونا فطری امر ہوتا ہے مگر ان سے نمٹنا ہی بہتر حکمت عملی کا تقاضہ کرتا ہے۔ پاکستان کو اس وقت داخلی محاذ پر جمہوری تشخص کی بحالی، ملکی معیشت کی بدحالی کو بہتری میں تبدیل کرنا اور جو معاشی مسائل ہیں ان کا مثبت متبادل حل سامنے لانا، قومی سیکیورٹی یا دہشت گردی پر مبنی اہم مسائل ، طرز حکمرانی یعنی گورننس سے جڑے معاملات ،ادارہ جاتی ترقی یا اداروں کی سطح پر سیاسی مداخلت، عدم شفافیت ، عدم جوابدہی سمیت عدم احتساب اور عوامی مفادات میں موجود مسائل کا منصفانہ اور شفاف حل شامل ہے۔

اسی طرح علاقائی یا عالمی مسائل کی طرف دیکھیں تو ہمیں پاک بھارت تعلقات میں بہتری اور مفاہمت کا راستہ تلاش کرنا ، پاک افغان بداعتمادی میں اعتماد ساز ی کا ماحول پیدا کرنا، امریکا اور چین کے درمیان تعلقات میں توازن پیدا کرنا ، سی پیک منصوبہ پر عملدرآمد ، پاک ایران تعلقات شامل ہیں۔ ہم اپنی نیشنل سیکیورٹی پالیسی کی سطح پر یہ طے کرچکے ہیں کہ ہمیں جیو معیشت اور جیو سیکیورٹی کی بنیاد پر آگے بڑھنا ہے او رجنگوں یا تنازعات میں کسی بھی ملک کی ڈکٹیشن پر ہمیں فریق نہیں بننا اور ہمارے ہر اقدام کے پیچھے ریاستی مفاد اور معاشی سیکیورٹی ہوگی ۔

یہ تمام داخلی ، علاقائی او رخارجی مسائل اس نقطہ کا تقاضہ کرتا ہے کہ نئی مخلوط حکومت کو ابتدائی یا پہلے 100دنوں میں حقائق کو بنیاد بنا کر محتاط طور پر لیکن جرات مندانہ سوچ اور عملی اقدامات درکار ہیں۔ کیونکہ مخلوط حکومت کی سیاسی پیچیدگیوں، معاشی دباؤ سے جڑے چیلنجزیا معاشی سطح پر موجود کچھ عالمی پابندیوں یا سخت گیر شرائط، اصلاحات سے گریز کی پالیسیاں ، سیاسی سمجھوتے ، حکومت او رحزب اختلاف کے درمیان موجود ٹکراو، محاذ آرائی اور تناؤ متنازعہ مسائل آگے بڑھنے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

مخلوط حکومت کا سب سے بڑا چیلنج خود اپنی اتحادی جماعتوں کی سطح پر اعتماد سازی اور سیاسی ہم آہنگی کا فقدان ہوگا۔کیونکہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم حکومت کی حمایت تو کررہی ہیں لیکن حکومت کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ مسلم لیگ ن کو سیاسی و معاشی طور پر فیصلے کرنا مشکل ہوسکتا ہے ۔

پیپلزپارٹی او رایم کیو حکومتی اتحاد کا حصہ نہیں بنتی تو ان میں خود داخلی محاذ پر ٹکراؤ کے مختلف مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔ابتدا ہی میں حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ ایک نئے معاہدے کا حصہ بننا ہے جو ناگزیر ہے۔

اس معاہدے کی بنیاد پر جو معاشی یا ادارہ جاتی محاذ پر سخت گیر یا کڑوے فیصلے شامل ہوں گے تو اس کے نتیجے میں جو نیا معاشی بحران یا عوام پر اس کا براہ راست بڑا بوجھ پڑے گا، اس سے کیسے نمٹا جائے گا۔اسی کھیل میں جو عمل سب سے زیادہ متاثر ہوگا، وہ سخت گیر اصلاحات یا سخت یا کڑوے فیصلے ہوں گے جو ریاستی و حکومتی نظام کی بقا کے لیے یا آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہیں۔کیونکہ حکومت حکومتی امور چلانے کے لیے قدم قدم پر سیاسی اور معاشی سمجھوتے کرنے ہوں گے اور اس کا عملی نتیجہ پہلے سے موجود حالات میں اور زیادہ بگاڑ کی صورت میں سامنے آئے گا۔

ہمیں اگر واقعی دیانت داری سے یا شفافیت کے طور پر حکمرانی کے نظام کو آگے بڑھانا ہے تو ایک بڑے گورننس کے فریم ورک پر اتفاق رائے کے تحت آگے بھی بڑھنا ہے اور اس پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔ کیونکہ ہمارا موجودہ گورننس کا نظام اپنی افادیت کھوچکا ہے اور ایک بھاری بھرکم گورننس کا ماڈل جو بنیادی طور پر مرکزیت پر کھڑا ہے جو عوامی مفادات کے برعکس ہے ہمارے مسائل کا حل نہیں ۔

دیکھنا ہوگا کہ کیا وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر آئین میں ایسی ترامیم کی طرف بڑھیں گی جو ایک خودمختار اور شفاف مضبوط مقامی حکومتوں کے نظام کی طرف پیش رفت کرسکے ۔کیونکہ اگر صوبائی حکومتوں نے بغیر کسی آئینی ترمیم کے روایتی موجودہ مقامی حکومتوں کے نظام پر انحصار کیا یا ان کے روایتی انتخابات سے نظام کو چلانے کی کوشش کی تو نتائج ماضی سے مختلف نہیں ہونگے۔ اس تاثر کا پیدا ہونا جمہوری نظام کے حق میں نہیں ہے کہ ہم غیر جمہوریت پر مبنی نظام کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔

ایک اور بڑا چیلنج حزب اختلاف کی سیاست ہے۔ اس وقت جو انداز نئی پارلیمنٹ نے اختیار کیا ہے اور جس انداز سے حزب اختلاف نے اپنا احتجاج دکھایا ہے، وہ ظاہر کرتا ہے کہ انتخابات او راس کے نتائج نے پہلے سے زیادہ سیاسی تقسیم کو گہرا کیا ہے ۔ انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرنا اور پورے انتخابی نظام سمیت نئی حکومت کی ساکھ کو چیلنج کرنے سے یقینا محاذ آرائی میں اضافہ ہوگا۔

اس وقت حکومت کی سیاست کو پارلیمانی سیاست یا پارلیمنٹ کے اندر بھی ایک مضبوط حزب اختلاف کا سامنا ہے او رپارلیمنٹ سے باہر بھی جو پارلیمنٹ سے باہر ہیں بہت مشکل حالات سے دوچار کرے گی ۔ مرکز سمیت پنجاب میں بھی حکومت کو ایک مضبوط حزب اختلاف کا سامنا ہے۔حکومت 9مئی کو ایک ریڈ لائن قرار دیتی ہے، کیا اس میں پی ٹی آئی کو ریلیف مل سکے گا یا قانونی کاروائی جاری رہے گی ،اگر ایسا ہوتا ہے تو بحران یا تلخیاں کم نہیں بلکہ بڑھیں گی ۔

علاقائی اور خارجی محاذ پر مثبت طور پر آگے بڑھنے کے لیے ہمیں داخلی استحکام سیاسی ، معاشی اور سیکیورٹی کے محاذ پر درکار ہے اور بغیر کسی سیاسی استحکام کے معاشی استحکام کے معاملات میں بھی کمزوری دیکھنے کو ملے گی۔دوسری جانب ہم پر داخلی بحران یا مسائل کی وجہ سے عالمی دنیا کی طرف سے بھی چاہے وہ سیاسی ہوں یا مالیاتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ جب ہم کمزور وکٹ پر کھڑے ہوں گے تو دنیا بھی اپنے مفاد کی بنیاد پر سوچے گی ۔

اس وقت حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان ہم آہنگی دیکھنے کو مل رہی ہے اور دیکھنا ہوگا کہ کیا ملک کی معیشت آگے بڑھے گی ۔اس لیے نئی حکومت کے پہلے تین ماہ ہی اس نقطہ کی وضاحت کے لیے کافی ہوں گے کہ حکومتی سمت کیا ہے اوریہ کس طرف او رکس رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ ہی پہلے تین ماہ کے فیصلے موجودہ حکومت کے مستقبل کا تعین بھی کرے گی کہ یہ حکومت کہاں کھڑی ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔