مسٹر پرائم منسٹر
پیپلز پارٹی، مسلم لیگ کی نسبت سیاسی طور پر زیادہ شاطر ہے، ان کی قیادت اسٹیبلشمنٹ کے پاؤں پکڑتی ہے
پہلی بات پر تو مشورے کی ضرورت نہیں، اس لیے کہ آپ خود جانتے اور سمجھتے ہیں کہ حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج مہنگائی کم کرنا اور معیشت کو مستحکم کرنا ہے۔
عمران خان کی حکومت معیشت کوبھنور میں پھنسا گئی ہے کہ اس سے نکل کر ساحل پر پہنچنا آسان نہیں ہے۔ انھی خدشات کے پیشِ نظر مسلم لیگ ن کے خیرخواہ حکومت لینے کی مخالفت کرتے تھے۔
پیپلز پارٹی، مسلم لیگ کی نسبت سیاسی طور پر زیادہ شاطر ہے، ان کی قیادت اسٹیبلشمنٹ کے پاؤں پکڑتی ہے مگر صوبہ سندھ کی حد تک۔ سولہ مہینے وہ آپ کے ساتھ اقتدار میں برابر کے حصے دار رہے، ان کے وزیر موجیں کرتے رہے، بلاول یورپ کے دوروں سے لطف اندوز ہوتا رہا مگر جونہی حکومت ختم ہوئی تو آنکھیں ماتھے پر رکھ کر توپوں کا رخ مسلم لیگ ن کی طرف کرلیاجیسے اس کی سب سے بڑی دشمن ہی مسلم لیگ ن ہو۔ اب بھی انھوں نے سندھ کا اقتدار اور صدارت کا عہدہ حاصل کرلیا ہے، اپنے سینئر لوگوں کو بھی اہم عہدے دلوالیے ہیں جب کہ ذمے داری لینے اور گالیاں کھانے والے عہدے مسلم لیگ ن کے سپرد کر دیے ہیں۔
عمران خان کے خلاف عدمِ اعتماد کے بعد سولہ مہینے کے اقتدار سے مسلم لیگ ن کو بھی اور آپ کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا۔ آپ کے ریاست بچانے والے بیانیے کو عوام نے قبول نہیں کیا۔ ان سولہ مہینوں میں مہنگائی میں اضافہ ہوا اور اہم تعیناتیوں میں میرٹ کو پامال کیا گیا جس سے عوام میں امیج خراب ہوا اور مسلم لیگ ن اپنا ووٹ بینک برقرار نہ رکھ سکی۔
1997میں آپ جب پہلی بار سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ بنے تو اُس وقت آپ نے میرٹ اور انصاف کا راج قائم کرکے سب کو حیران کردیا تھا۔ میں بہت سے واقعات کا عینی شاہد ہوں کہ پانچ پانچ وزیروں سے سفارش کروا کے بھی کوئی بدنام افسر آپ سے فیلڈ پوسٹنگ حاصل نہ کرسکا، اور ضلع بھر کے تمام ممبرانِ اسمبلی اکٹھے ہو کر بھی آپ سے کسی دیانتدار افسر کو تبدیل نہ کراسکے۔
آپ جانتے تھے کہ امن صرف انصاف کی کوکھ سے جنم لیتا ہے، آپ نے صوبے بھر میں رزقِ حلال کھانے والے انصاف پسند اور دلیر پولیس افسر تعینات کیے جنھوں نے پنجاب کو امن کا گہوارہ بنادیا آپ نے ہر قسم کا دباؤ برداشت کیا مگر ان پر آنچ نہ آنے دی، انھیں مکمل طور پر operational independence دی، آپ نے اس دور میں کسی کرپٹ افسر کو قریب نہ پھٹکنے دیا اور ایماندار اور پیشہ ورانہ قابلیت کے حامل سول سرونٹس کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کی۔
جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پنجاب امن کا گہوارہ اور گُڈ گورننس کا استعارہ بن گیا اور آپ کا ملک بھر میں ایک بہترین administrator کا امیج قائم ہوا۔ عوام کو آپ کی سولہ مہینے کی وفاقی حکومت پسند نہیں آئی، وہ اب بھی کہتے ہیں کہ ہمیں سولہ مہینوں والا شہبازشریف نہیں ہمیں انیس سو ستانوے اٹھانوے والا شہبازشریف چاہیے۔
اِس وقت وفاقی دارالحکومت میں امن وامان کی حالت بھی غیر تسلی بخش ہے اور میونسپل سروسز کی فراہمی کی صورتحال بھی ناگفتہ بہ ہے، پولیس اور سی ڈی اے کے سربراہ ایسے ہونے چاہیے جو ''اسٹیٹس کو'' تبدیل کرنے کے جذبوں سے سرشار ہوں۔ وزارتِ داخلہ سے منسلک بہت سے اہم ادارے ایسے ہیں جو برسوں سے حکومت کی بے توجہی کا شکار ہیں،ضروری ہے کہ دیانتدار اور باصلاحیت افسروں کو قومی اداروں کا سربراہ مقرر کریں۔
امیگریشن اینڈ پاسپورٹ اور NEVTTC جیسے اہم اور حساس ادارے پھر سے زوال پذیر ہیں، اپنے سیاسی ساتھیوں کی ناراضگی سے بے نیاز ہو کر ان دونوں اداروںکی اصلاح کریں'ایک اور اہم ترین شعبہ جو آپ کی ترجیحات میں بہت اوپر ہونا چاہیے ' پبلک سیکٹر میں تعلیمی ادارے زبوں حالی کا شکار ہیں، ان کا معیار بلند کرنے یا تعلیمی مسائل جاننے کے لیے صرف ایک بیوروکریٹ کے بجائے کالجوں کے پرنسپل صاحبان اور سینئر پروفیسر صاحبان سے مشاورت کریں۔ بانیٔ پاکستان کے نام پر قائم وفاقی دارالحکومت کی سرکاری یونیورسٹی کا آدھا حصہ جنگل بن چکا ہے، باقی سے دھول اُڑ رہی ہے۔
سال کا زیادہ عرصہ یہ یونیورسٹی بند رہتی ہے اور ہوسٹلوں پر علاقائی تنظیموں کا قبضہ ہے۔ اس یونیورسٹی پر آپ کی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔
قائداعظم یونیورسٹی کا ڈسپلن اور تعلیمی ماحول بحال کرنے کے لیے وہاں شیخ امتیاز علی صاحب جیسا سخت گیر وائس چانسلر تعینات کیجیے۔ نئے تعلیمی ادارے بنانے کے بجائے ہمسایہ ملک کے کیجری وال کی طرح سرکاری اسکولوں اور کالجوں کا معیار بہتر بنائیں۔ اساتذہ کو عزت دیں، اہم سرکاری تقریبات میں سینئر اساتذہ کو مدعو کیا کریں۔ ایسی تقریبات کی پہلی قطار میں وزیروںاور بیوروکریٹوں کے بجائے educationists کو بٹھایا جائے۔
نوجوانوں کی ہنرمندی (skill development) حکومت کی ترجیح اوّل ہونی چاہیے۔ ہماری آبادی کا ساٹھ فیصد نوجوان ہیں، یہ بیکار رہیں گے تو اکانومی پر بوجھ اور امن وامان کے لیے خطرہ ہوں گے۔ لیکن اگر ہم انھیں ملکی اور بین الاقوامی مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق ہنر(Skill) فراہم کردیں تو یہی youth bulge ہمارے لیے تیل اور سونے سے بڑا خزانہ ثابت ہوگا۔
میں تین سال skill development کے قومی ادارے کا سربراہ رہنے کی وجہ سے اس کی اہمیت اور افادیت سے واقف ہوں۔ اسلام آباد میں عالمی معیار کی ٹریننگ فراہم کرنے والے (چین کے شہر تیانجن کے تربیتی ادارے کے ماڈل پر) کم از کم دو بڑے ادارے ضرور قائم کریںاورTVET سیکٹر کو دلکش بنانے کے لیے اس کے ٹیچرز اور ٹرینرز کی تنخواہیں ضرور بڑھائیں۔
کسی وقت ہم دعویٰ کیا کرتے تھے (میں خود ملک سے باہر اس طرح کی تقریریں کرتا رہا ہوں) کہ ہم اتنا غلہ اُگا سکتے ہیں جس سے پورے ایشیا کا پیٹ بھر جائے۔ مگر کس قدر شرم کی بات ہے کہ آج ہم گندم، چینی، ٹماٹر، پیاز جیسی اجناس بھی دوسرے ملکوں سے درآمد کرتے ہیں۔
اس ضمن میں حکومت سب سے پہلا کام یہ کرے کہ قابلِ کاشت رقبے پر کسی بھی ہاؤسنگ کالونی کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دیا جائے اور ایسا کرنے والے کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ دوسرا یہ کہ مقرر کردہ قیمت پر بروقت کھاد اور معیاری بیج کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے۔
حکومت غیر موثر ہو تو کھاد کے ڈیلر من مانی کرتے ہیں، کسانوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور مصنوعی قلت پیدا کرکے اُن سے منہ مانگے دام ہتھیا لیتے ہیں۔ سرکاری قیمتوں پر خوردنی اشیاء اور کھاد کی دستیابی کو یقینی بنانا صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے مگر اسلام آباد سے ان کی سخت monitoring کی جانی چاہیے۔
اس کے علاوہ فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے لیے کسانوں کے درمیان مقابلے منعقد کرائیں اور زیادہ پیداوار اگانے والوں کو فیاضی سے انعامات دیں۔ قدرت نے ہمیں اتنے خوبصورت علاقے عطا کیے ہیں کہ جن پر تھوڑی سی توجہ دے کر انھیں مقبول سیاحتی مقام بنایا جاسکتا ہے۔
اس سلسلے میں مری کے آس پاس ایک مزید فائیو اسٹار ہوٹل (صرف غیر ملکی سیاحوں کے لیے) بنایا جائے۔ سیاحوں کی اہم ترین ضرورت سیکیوریٹی اور صاف واش روم ہیں ان کا آسانی سے اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ مری، گلیات، سوات، شمالی علاقہ جات اور چولستان میں سیاحتی مرکز قائم کرکے وفاقی حکومت اپنی آمدنی بڑھا سکتی ہے۔
پچھلے کچھ سالوں سے پوری قوم خصوصاً نوجوان بڑی تیزی سے اخلاقی گراؤٹ کا شکار ہوئے ہیں، ان میں بداخلاقی، بدزبانی، جنسی جرائم اور منشیات کا رجحان بڑھا ہے۔ قوم کی اخلاقی تربیّت کرنا اور نئی نسل کو اپنی دینی اور تہذیبی اقدار کی جانب موڑنا آپ کا اہم ہدف ہونا چاہیے۔ اس جہاد میں والدین، اساتذہ، میڈیا، علماء اور ملک کے دانشوروں اور رائٹرز کو شامل کرنا ہوگا۔
اس ضمن میں سنگاپور، ملائشیا اور ترکی کی طرح فحش اور نامناسب مواد کی سائٹس مکمل طور پر بند کرائی جائیں اور بے لگام سوشل میڈیاکے لیے حدود مقرّر کی جائیں۔
آخری (last but not the least) بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن نے اپنی نظریاتی شناخت کھودی ہے، مسلم لیگ ن کے کچھ لیڈر احساسِ کمتری کی وجہ سے اور کچھ مغرب کو خوش کرنے کے لیے بانیانِ پاکستان کے اسلامی نظریات کا ذکر کرنے سے کتراتے ہیں، مسلم لیگ ن اگر اپنے آپ کو پاکستان کے founding fathers کے وژن سے دور کرے گی اور اسلامی نظریۂ حیات (جو اس ملک کی بنیاد ہے) سے لاتعلق ہونے کی کوشش کرے گی تو اس کی جڑ کٹ جائے گی اور وہ بے سمت اور کمزور ہو کر عوامی حمایت سے بالکل محروم ہوجائے گی۔
پاکستان میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے تمام اہم عہدیدارو ں کے لیے لازم ہونا چاہیے کہ وہ پاکستان بننے کی جدوجہد کا تفصیلی مطالعہ کریں تاکہ وہ علیحدہ وطن حاصل کرنے کے تمام عوامل، مسلمانانِ برصغیر کی امنگوں اور آرزوؤں، فکرِ اقبالؒ، دو قومی نظریے اور قراردادِ مقاصد سے روشناس ہوسکیں اور انھیں بانیانِ پاکستان کے وژن اور نظریات کا پوری طرح ادراک ہوسکے۔