خار دار سفر
جمہوری نظام حکومت میں اپوزیشن کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا
ہماری قومی سیاسی زندگی میں تحمل، برداشت، رواداری، احترام، اصول، نظریات، تدبر، فراست، اخلاقیات اور اقدارکی پاس داری کی کوئی قابل رشک اور تابندہ مثال نظر نہیں آتی۔ آپ گزشتہ تین چار دہائیوں کے دوران پروان چڑھنے والے سیاست دانوں کے قول و فعل، ان کی اخلاقیات، اصول و نظریات اور اس سے جنم لینے والے سیاسی ماحول کا جائزہ لیں تو یہ تلخ اور افسوسناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین اور رہنما قائداعظم کے اصولوں، نظریات اور ارشادات پر عمل پیرا ہونے کے بلند و بانگ وعدے صبح و شام کرتے رہتے ہیں۔
آئین و قانون کی پاسداری کا راگ الاپتے نہیں تھکتے۔ لوگوں کو صبر، تحمل اور برداشت کا درس اور تھوڑا انتظارکرنے اور خوش حالی آنے کے سبز باغ دکھانا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کی جگہ اپنی اور خاندان بھرکی ترقی و خوشحالی اور بینک بیلنس میں اضافہ ان کا محبوب مشغلہ بن جاتا ہے۔ آئین کی پاسداری، قانون کی حکمرانی، پارلیمان کی بالادستی اور عوام کی فلاح و بہبود کی منصوبہ بندی ایک خواب، سراب اورکاغذی بیانات اور خوش نما تقریروں میں سمٹ کر رہ جاتی ہے۔ دہائیاں گزرگئیں لیکن سیاست دانوں کے رویے، لہجے اور انداز اطوار نہیں بدلے۔
2024کے الیکشن کے نتیجے میں جو اسمبلیاں وجود میں آئی ہیں اور سیاسی جماعتیں اور ان کے تجربہ کار رہنما و قائدین اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے ہیں۔ کیا وہ ماضی کی غلطیوں، تلخیوں اور بدلے وانتقام کی سیاست کے نقصانات سے کوئی سبق حاصل کریں گے۔
افسوس کہ اس سوال کا جواب ایک واضح نفی میں ہے ، جس کی تازہ مثال نو منتخب اسمبلیوں کے حالیہ اجلاسوں سے دی جاسکتی ہے جب اراکین اسمبلی حلف لینے سے لے کر اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر اور وزرائے اور وزیراعظم کے انتخاب تک حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کے درمیان بد زبانی، بدکلامی، نعرہ بازی اور ہنگامہ آرائی کے افسوسناک مناظر نے اراکین اسمبلی کی اخلاقیات، عمل، برداشت، مہذب اور شائستگی کا لباس لیر لیر کر دیا، آج کی مخلوط حکومت میں بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم شامل ہیں۔ میاں نواز شریف، شہباز شریف اور آصف زرداری کہنہ مشق اور حالات پرگہری نظر رکھنے والے ہیں۔ انھیں ملک کو درپیش مسائل اور سنگین چیلنجز کا بھی بخوبی ادراک ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کو تین بڑے چیلنجز کا سامنا ہے سب سے بڑا چیلنج ملک کو معاشی پستی سے نکال کر مستحکم معیشت کی بنیاد رکھنا ہے، قرضوں کی زنجیریں توڑنا ہے۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کا شافی حل تلاش کرنا ہے۔ دوسرا بڑا چیلنج اپنے اپنے پارٹی منشور، دعوؤں اور وعدوں کے مطابق عوام کو درپیش مہنگائی، بے روزگاری، غربت جیسے گھمبیر مسائل سے نجات دلانا اور تیسرا بڑا چیلنج اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کے ذریعے ان کی شکایات کا ازالہ کر کے ملک میں سیاسی استحکام کو یقینی بنانا ہے کیونکہ سیاسی استحکام کے بغیرکوئی بھی حکومت نہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتی ہے اور نہ ہی ملک میں معاشی استحکام اور خوشحالی آسکتی ہے۔
جمہوری نظام حکومت میں اپوزیشن کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت اور اپوزیشن مل کر افہام و تفہیم سے ملک کو مسائل کے گرداب سے نکال سکتے ہیں چونکہ اپوزیشن کے مقابلے میں حکومت کے پاس اختیارات اور وسائل ہوتے ہیں اور اس پر زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپوزیشن کو اپنے ساتھ لے کر چلے۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت سنی اتحاد کونسل جس میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اراکین اسمبلی شامل ہیں کو بھی ملکی حالات کے پیش نظرافہام و تفہیم کا مظاہرہ کرتے ہوئے سنگین چیلنجز کے لیے اپنا مثبت و تعمیری کردار ادا کرنا چاہیے۔
شہباز شریف نے 201 ووٹ لے کر وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد ایوان میں تقریرکرتے ہوئے کہا کہ میں اپوزیشن کو میثاق معیشت کے ساتھ ساتھ میثاق مفاہمت کی دعوت دیتا ہوں ۔ وہ آئیں ہم سب مل کر ملک کو مشکل صورتحال سے نکالنے کی تدابیرکریں گے۔ انھوں نے چاروں صوبوں کو ساتھ لے کر چلنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غربت میں کمی، روزگار کی فراہمی، معاشی انصاف اور لوگوں کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرنا ہمارا نصب العین ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ معاشی منصوبہ بجٹ میں پیش کریں گے۔ نئی حکومت کے اقدامات سے مہنگائی میں کمی آئے گی، روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور قرض کا خاتمہ ہوگا۔