معاشرے کی ترقی کا راز خواتین کو بھرپور انداز سے قومی دھارے میں شامل کرنے میں مضمر ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانے کے بہت سے دعوے ہم دن رات سنتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔
اکیسویں صدی میں بھی ہم خواتین کی ترقی کو لے کر بہت پیچھے ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے صرف زبانی کلامی ہی سب کام کیے ہیں، دل سے خواتین کو بااختیار بنانے کے متعلق کبھی نہیں سوچا۔
آج خواتین بلاشبہ ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں لیکن خواتین کی ترقی استحصال کے ساتھ ہورہی ہے۔ ہر انسان اب تک اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ خواتین اپنے حقوق کےلیے مسلسل جدوجہد کررہی ہیں اور مردوں کے مقابلے میں انھیں اپنا آپ منوانے کےلیے کئی گنا تگ و دو کرنا پڑ رہی ہے تو یہ غلط نہیں۔
ہر عورت کو ہر نئے دن ایک نئے محاذ کا سامنا ہے۔ عورت اگر بیٹی، بیوی، بہن ہے تو صرف اسی پر یکطرفہ ذمے داریاں عائد کردی گئی ہیں۔ عورت اگر خاتون خانہ ہے تو اس کے گھریلو امور میں مصروف رہنے کو کوئی کام ہی نہیں گردانتا اور اگر ملازمت پیشہ ہے اور قابل بھی تو وہاں بھی ایک نئی جنگ اس کی منتظر ہے۔
ملازمت میں ترقی کو اس کی شخصیت یا خوبصورتی سے جوڑ دینا بہت ہی آسان کلیہ بنا دیا گیا ہے۔ کردار کشی، جنسی اور آن لائن ہراسانی آج کی دنیا کا وتیرہ بن گیا ہے۔ اگرچہ میں تمام افراد کی بات نہیں کررہی لیکن ہمارے معاشرے کی اکثریت خواتین کو مردوں کے مساوی تو کیا انسان سمجھنے کے بھی قائل نہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خواتین کا عالمی دن منانے سے اس کے تمام تر حقوق پورے ہوجاتے ہیں؟ ایسا ہرگز نہیں! دیکھا جائے تو ہر دن عورت کا ہے۔ اس ماں کا دن ہے جو سارا دن کام کاج کرتی ہے، اپنے بچوں کا خیال رکھتی ہے۔ ہر دن اس بہن کا ہے جو جب بھی باہر نکلتی ہے اپنے باپ اور بھائی کی غیرت کا مان بن کر نکلتی ہے۔ ہر دن اس بیوی کا ہے جو گھریلو کام کاج کے ساتھ ملازمت کرکے اپنے شوہر کے شانہ بشانہ زندگی کی گاڑی چلا رہی ہے۔
پاکستان کے قانون وارثت کی دفعہ چار سو اٹھانوے اے کے مطابق بیوہ اور کنواری تمام خواتین کو جائیداد کے حقوق دیے گئے ہیں لیکن قوانین کی موجودگی سے مراد یہ نہیں کہ ان قوانین کا اطلاق بھی یقینی بنایا جارہا ہے۔ آج کے اس مہذب معاشرے میں مائیں بیٹوں کو اب تک اپنے سروں کا تاج سمجھتی ہیں، بچیوں کو شروع سے ہی یہ سکھایا جاتا ہے کہ تمھارا اصل گھر تمھارے شوہر کا گھر ہے، تو شروع سے ہی وہ مہمانوں کی طرح اپنے گھر میں رہتی ہیں۔ اور ایک طرح سے انھیں یہی سمجھا دیا جاتا ہے کہ گویا یہ بھائیوں کا ہی گھر ہے، تم اپنے حصے سے متعلق کوئی امید یا توقع مت رکھنا۔
پاکستان کے وراثتی قوانین کے مطابق خاتون کی چاہے شادی ہو یا نہ ہو، وہ بھائیوں کی موجودگی میں جائیداد کے آدھے حصے کی وارث ہے۔ اسی طرح اگر ایک بیوہ عورت شوہر کے مرنے کے بعد دوسری شادی کرتی ہے تو وہ بھی ناقابل واپسی جائیداد کی مالک ہے۔ کنواری اور بیوہ دونوں خواتین وراثت میں ملنے والی جائیداد فروخت بھی کرسکتی ہیں۔
لیکن اس سب کی باوجود خواتین ساری زندگی کورٹ کچہری کے چکر ہی لگاتی رہتی ہیں اور ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔
ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر دو گھنٹے میں ایک ریپ کا کیس سامنے آرہا ہے جبکہ ہر آٹھ گھنٹے کے بعد ایک اجتماعی زیادتی کا اندوہناک سانحہ پیش آرہا ہے۔ اب کچھ بات اگر عورت مارچ کے حوالے سے ہوجائے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ عورت مارچ نے خواتین کے حقوق دلانے کے بجائے خواتین کے اصل مسائل سے پہلوتہی کی ہے۔ عورت مارچ کے نام نہاد لبرل ازم کے نعروں کی گونج نے خواتین کو حقوق تو نہیں دلائے بلکہ لایعنی و بے مقصد اور قابل مذمت ایشوز کو ضرور جنم دے دیا ہے۔
سڑکوں پر پلے کارڈز اٹھائی گنتی کی چند خواتین نوے فیصد خواتین کی نمائندگی نہیں کرتیں اور نہ ہی نوے فیصد خواتین یہ جانتی ہیں کہ یہ نام نہاد نعرے ان کے مسائل ہیں۔
خواتین کے مسائل میں ناخواندگی، بے روزگاری، کاروکاری، وراثتی حقوق سے محرومی، کم عمری کی شادی اور جبری نکاح جیسے مسائل شامل ہیں۔ لیکن ان کا ذکر عورت مارچ کے بینرز میں کہیں نہیں ہوتا۔
اس ایک دن کے ڈھونگ کا کیا فائدہ؟ ہمارے ڈرامے ہیں تو وہاں خواتین کا استحصال دکھایا جاتا ہے۔ طلاق، تھپڑ اور غیر ازدواجی تعلقات ہمارے پورے ڈراموں میں یہی کہانی ہوتی ہے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ ہماری نوے فیصد خواتین جو ڈرامہ دیکھ رہی ہیں وہ کیا سیکھ رہی ہیں؟ کیا ان ڈراموں میں خواتین کے حقیقی مسائل کی طرف نشان دہی کی گئی ہے؟ یقینی طور پر نہیں۔
اس سب صورتحال کا ذمے دار کون ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ میں، آپ اور ہم سب۔ کیونکہ ہم سب مل کر ہی یہ معاشرہ بنا رہے ہیں۔ چاہے ہم ادیب ہیں یا شاعر، ڈاکٹر یا انجینئر، استاد یا بالفرض ہمارا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبے سے ہو، ہمارے ہر عمل کا براہ راست اثر اس معاشرے پر پڑتا ہے۔ آج اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ خواتین کو معاشرے میں وہ عزت اور مقام نہیں مل رہا جس کی وہ مستحق ہے تو اس میں ہم سب کی گھریلو تربیت بھی کہیں نہ کہیں ضرور اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔
ہمیں اپنی عورت کو اگر بااختیار بنانا ہے تو سب سے پہلے ایک عورت کو ہی بطور ماں ایک مرد یعنی بیٹے کی تربیت کرنا ہوگی۔ بہترین خانگی تربیت کی وجہ سے ہی ہم ترقی کی منازل طے کرسکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔