مرحبا رمضان
رمضان کی ایک اور عظیم نعمت قیام الیل یعنی نماز تراویح ہے، اس کا خشوع خضوع سے اہتمام کیا جائے
ماہ رمضان الکریم کی آمد آمد ہے، یہ اﷲ کریم کا خاص مہینہ ہے اور بڑی سخاوت و بخشش والا مہینہ ہے۔ اس ماہ مقدس میں اﷲ رب العزت نے اپنے گنہگار بندوں کی بخشش کے بہت سے مواقع رکھے ہیں۔
نیک عمل وہی ہے جو عام مہینوں اور عام دنوں میں کیا جائے تو اس کا بھی اجر و ثواب ملتا ہے لیکن اگر ماہ رمضان میں نیکی کی جائے تو خدا اجر و ثواب کو بہت بڑھادیتا ہے، اپنے خاص کرم سے نوازتا ہے، اور ہر اس شخص کے لیے نیکی کے دروازے کھول دیتا ہے جو اس کی خواہش رکھتا ہے۔
یہ عنایات، نوازنے اور نیکیوں کا مہینہ ہے، رحمت، بخشش اور جہنم کی آگ سے آزادی کا مہینہ ہے، یہ وہ مہینہ ہے جس میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور یہ وہ مہینہ ہے جس کے بارے میں اﷲ کریم نے فرمایا:''رمضان کا مہینہ جس میں قرآن نازل ہوا'' (البقرہ: 186)۔
یہ برکتوں اور نعمتوں سے بھرا مہینہ ہے، اور قرآن کریم کا اس کی طرف توجہ دلانا ہی ہمارے لیے کافی ہے، جیسا کہ اس میں اس کا تذکرہ ہے، اس کے واجبات کا حکم دیا گیا ہے، اور پھر اس کی جامع نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ایک اور جگہ قرآن کریم میں اﷲ رب العزت فرماتے ہیں۔''پس تم میں سے جو کوئی اس مہینے کو دیکھے وہ اس کے روزے رکھے''۔ (البقرہ: 186)۔
مسلمان رمضان کے روزے اس مقصد کے ساتھ رکھتا ہے کہ وہ گناہوں اور مکروہات سے چھٹکارا حاصل کرے جو سال بھر اس پر جمے رہتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مختلف عبادات سکھائی ہیں تاکہ ان کی روح کو نافرمانی اور گناہوں کی غلاظت سے پاک کیا جا سکے۔ اﷲ تعالیٰ کے پاس روزہ دار کے لیے بہت اعلیٰ اور خاص اجر ہے، اور اس کی تصدیق ایک حدیث پاک میں ہے:''روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا''۔ (صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب روزے کی فضیلت)۔
روزہ دار اپنے روزے کے ذریعے اﷲ تعالیٰ کاقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ کوشش کسی حد تک اسے اللہ تعالیٰ سے ملنے کا اہل بناتی ہے۔ یہاں ایک بہت اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ صرف بھوک اور پیاس کو برداشت کرنے سے روح کیسے پاکیزہ ہو سکتی ہے اور یہ جسمانی تھکاوٹ خدا اور بندے کے درمیان تعلق کہاں سے قائم کرتی ہے؟ واضح رہے کہ انسانی دل بہت سی برائیوں سے داغدار ہے۔
دل کا برتن خدا کی پاکیزہ محبت رکھنے کے قابل نہیں ہے اور اس کے چکھنے کی اعلیٰ خوشنودی حاصل نہیں ہو سکتی سوائے اس کے کہ دل کو مصائب کی آگ میں جھونک دیا جائے اور اس کی نجاستوں اور برائیوں کو دور کرنے کے لیے صبر کیا جائے۔
روح کو اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے مشقت، تھکاوٹ، اور برداشت کر کے اﷲ تعالیٰ سے ملنے کے قابل بنانا ضروری ہے، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اے لوگو تم اپنے رب کے لیے کوشش کرو اور تم اس سے ملو گے''۔ (الانشقاق:7)۔
اﷲ تعالیٰ سے ملاقات کے لیے سچے مومن کے لیے سخت جدوجہد اور مختلف مشکلات کی آگ میں داخل ہونے کی ضرورت ہے۔ جان لو کہ یہ مصیبتیں دو قسم کی ہوتی ہیں، پہلی وہ مصیبتیں اور آفتیں ہیں جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش کے طور پر انسان پر آتی ہیں اور جن کو انسان برداشت نہیں کر سکتا، اس لیے اﷲ تعالیٰ نے ہمیں ان کو دور کرنے کی دعا سکھائی۔ مشکلات جو ایک شخص برداشت نہیں کر سکتا۔ فرمایا:''اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہم میں طاقت نہ ہو۔'' (البقرہ: 287)۔
دوم: یہ وہ جدوجہد ہیں جن کا انتخاب مومن اﷲ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے کرتا ہے۔ روزہ ان جدوجہد میں سے ایک ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں روزے کا حتمی مقصد، جو تقویٰ حاصل کرنا ہے، اپنے اس فرمان میں واضح کیا ہے: ''...تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ''۔ (البقرہ: 184)۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ روزہ دار اپنے روزے کے ذریعے تقویٰ کیسے حاصل کر سکتا ہے۔
اول: روزہ دار جب کھانے پینے سے پرہیز کرتا ہے تو غریبوں، بھوکوں اور پیاسوں کی تکلیف کو محسوس کر سکتا ہے جو اسے تسلی دینے، ان کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے ساتھ ہمدردی کرنے پر اکساتا ہے۔ ایک شخص دوسروں کے دکھ کی قدر نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ اس سے دوچار نہ ہو یا اس سے گزر جائے۔
اس لیے اﷲ تعالیٰ نے مومن کو رمضان کے روزے رکھنے کا موقع دیا ہے تاکہ وہ دکھی اور مساکین کی تکالیف کا احساس کر سکے۔یہ ایک طرف ہے، اور دوسری طرف، یہ رمضان کو خیرات اور خدا کی خاطر خرچ کرنے والا مہینہ بنا دیتا ہے۔
دوسرا: روزہ دار روزے سے یہ سبق سیکھتا ہے کہ اگر وہ اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنی کچھ دنیاوی لذتیں، نفسانی خواہشات اور اپنی فطری ضرورتوں کو ترک کرنا ہو گا، اگر وہ ایسا کرے تو یہ اس کا حصہ ہے۔
دلوں کا تقویٰ۔ رمضان المبارک میں اﷲ تعالیٰ ہمیں جو کچھ سکھاتا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اﷲ تعالیٰ کے لیے حلال چیزوں میں سے کچھ ترک کر سکتا ہے تو وہ اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے حرام کو چھوڑنے کی کوشش کیوں نہیں کرتا؟ رمضان کے مقدس مہینے کی برکات میں سے ایک ''دعا کا جواب دینا'' ہے۔ اس مہینے میں دعاؤں کی قبولیت کے لیے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور اس کی تصدیق اﷲ تعالیٰ کے ان الفاظ سے ہوتی ہے جہاں اس نے روزے کی فرضیت کو بیان کرنے کے بعد فرمایا:
''اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کرتے ہیں تو میں قریب ہوں، میں پکارنے والے کی پکار کو قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے، پس چاہیے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں''۔ (البقرہ: 187)۔
رمضان کی ایک اور عظیم نعمت قیام الیل یعنی نماز تراویح ہے، اس کا خشوع خضوع سے اہتمام کیا جائے۔ تہجد کا اہتمام کیا جائے۔ یہ قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔ ماہ رمضان کی ایک ایک ساعت ہمارے لیے رحمت کا باعث ہے، کئی پہلوؤں پر بات ہوسکتی ہے لیکن تنگی دامن اجازت نہیں دیتی۔ اس ماہ مقدس میں اپنی زکوٰۃ، صدقات اور عطیات میں مدارس دینیہ کو یاد رکھیں، جہاں غریب گھرانوں کے بچے دین کا علم سیکھنے آتے ہیں، سب سے زیادہ وہی حقدار ہیں۔
آسمان کو چھوتی اس مہنگائی میں مدارس دینیہ کا نظام سب سے زیادہ متاثر ہے۔ بہت سے مدارس کو جانتا ہوں جہاں بچوں کے لیے راشن نہیں، اساتذہ کو کئی کئی ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں، یوٹیلیٹی بلز مدارس ادا کرنے کے قابل نہیں، مدارس لاکھوں روپے کے مقروض ہیں۔ اس مہینے میں مدارس کو ضرور یاد رکھیں۔
اس ماہ مبارک میں مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیلی بربریت کو مت بھولیے اور ان مظلوموں کو امت مسلمہ کے بزدل حکمرانوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑنا ان کی نصرت اور غیبی امداد اﷲ رب العزت سے گڑگڑا کر مانگیں۔ ہر لمحہ ارض مقدس کے مظلوم باسیوں کو مت بھولیے، جن پر اس رحمت کے مہینے میں بھی صیہونیت گولہ بارود برسا رہی ہے۔
اب تک تیس ہزار فلسطینی اسرائیلی بربریت کا شکار بن چکے ہیں، لاکھوں زخمی ہیں، غزہ کے باسیوں کے پاس سر چھپانے کی جگہ نہیں وہ کھلے آسمان تلے روزہ رکھتے ہیں، کھلے آسمان تلے افطار کرتے ہیں، ملبے کے ڈھیر پر نمازیں ادا کررہے ہیں۔ اپنی دعاؤں میں ان مظلوموں کو ہر حال میں یاد رکھیں۔ اﷲ کریم ان کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے اور صیہونیت کو نیست و نابود کردے۔ آمین