پاک ایران دوستی

دنیا کے شاید ہی کسی پڑوسی ممالک کے رشتوں کی نوعیت اس طرح کی ہو


Shakeel Farooqi March 08, 2024
[email protected]

حالیہ طوفانی بارشوں نے پاکستان اور ایران دونوں پڑوسی برادر ملکوں کو بہت بری طرح متاثر کیا ہے جس نے دونوں ممالک کے رشتوں کی اہمیت کو ایک مرتبہ پھر اجاگر کردیا ہے۔ دنیا کے شاید ہی کسی پڑوسی ممالک کے رشتوں کی نوعیت اس طرح کی ہو۔

دونوں ممالک کو اگر جڑواں کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ دونوں کی تاریخ اور ثقافت کی جڑیں انتہائی گہری اور مضبوط ہیں۔ ایران دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد اسے تسلیم کیا تھا۔ ایران اور پاکستان نے آڑے وقت پر ایک دوسرے کا ساتھ نبھایا ہے۔

1965 کی پاک بھارت جنگ میں ایران نے دوستی کا جو حق ادا کیا تھا، اسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ ایران کے اس کردار نے ثابت کردیا کہ:

دوست آں باشد کہ گیرد دست دوست۔ درپریشاں حالی و درماندگی

دونوں ممالک کے درمیان آر سی ڈی کے ذریعے باہمی تعاون بڑھانے میں بھی بڑی مدد ملی۔ پاکستان کی قومی زبان اردو ایران کی زبان فارسی کی مرہون منت ہے۔ اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ پاکستان کا قومی ترانہ پاک ایران تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔پاک ایران تعلقات کے حوالے سے اس کے سوا بھلا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔

دو دل دھڑک رہے ہیں پر آواز ایک ہے

نغمے جدا جدا ہیں مگر ساز ایک ہے

پاکستان کی اعلیٰ قیادت نے دونوں ممالک کے تعلق کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے 1995 میں ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبہ کی داغ بیل ڈالی تھی۔ افسوس کہ یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہوگیا ہے۔

میڈیا کی رپورٹس کے مطابق نگراں کابینہ کمیٹی نے 81 کلومیٹر گیس پائپ لائن کی منظوری دے دی ہے جو ایران کی سرحد سے لے کر گوادر تک جائے گی جو ایک سال کی مدت کے اندر تکمیل پذیر ہوگی۔ اصل منصوبہ کے مطابق یہ پائپ لائن جسے'' امن پائپ لائن'' کا نام دیا گیا ہے پاکستان کے ساحلی شہر تک پہنچنا طے پایا تھا جہاں سے اسے پڑوسی ملک بھارت تک پہنچنا تھا۔

بدقسمتی سے یہ منصوبہ ایران پر امریکی پابندیوں کے عائد کیے جانے اور بھارت کی جانب سے سیکیورٹی تحفظات کی وجہ سے کھٹائی میں پڑھ گیا۔ دوسری جانب پاکستان پر بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔

پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے بعد جب آصف علی زرداری نے صدر پاکستان کا منصب سنبھالا تو اس منصوبہ میں پیش رفت کا آغاز ہوا۔ اپنی صدارتی مدت میں صدر آصف علی زرداری نے اپنی شریک حیات کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کا بیڑا اُٹھایا اور اس سلسلے میں ایران کے آٹھ سے زیادہ دورے کیے۔

یہ وہ نازک وقت تھا جب ایران امریکا کی جانب سے پابندیوں اور شدید بین الاقوامی دباؤ کا شکار تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ بھارت نے بھی اس منصوبے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان نامساعد حالات میں ایران کے ساتھ تعاون کرنا آسان نہ تھا، تاہم اس کے باوجود بھی آصف زرداری نے حوصلہ مندی سے کام لیتے ہوئے ایران کے شہر چاہ بہار کا تاریخی دورہ کیا اور طویل انتظار کا شکار گیس پائپ لائن منصوبہ کی رسم افتتاح ادا کر کے حیران کر دیا۔ یہ مارچ 2013 کی بات ہے جب ایران کے صدر محمود احمدی نژاد تھے۔

پاکستان سے بین الاقوامی سطح پر یہ واضح پیغام دے دیا گیا کہ پی پی پی کی حکومت میں پاکستان کوئی بیرونی دباؤ قبول نہیں کرے گا اور عوامی بہبود کے منصوبوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

یہ طے پایا تھا کہ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے جنوری 2015 سے روزانہ کے حساب سے 750 ملین کیوبک فیٹ گیس کی فراہمی کا آغاز کیا جائے گا۔

یہ بھی طے پایا تھا کہ اگر پاکستان 2014 کے اختتام تک اپنے علاقے میں گیس پائپ لائن نہ ڈال سکا تو اسے ایران کو یومیہ 1 ملین ڈالر ہرجانہ ادا کرنا پڑے گا لیکن 9 سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی یہ منصوبہ ابھی تک مکمل نہیں ہوسکا۔ دوسری جانب ایران نے اپنی مقررہ مدت میں اپنے حصے کی پائپ لائن بچھانے کا کام مکمل کرلیا ہے۔ دریں اثنا بھارت ایک متبادل کے طور پر سمندری راستہ سے قدرتی گیس کی ترسیل کا خواہاں ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ آصف زرداری صاحب کو اس بات کا پورا احساس تھا کہ یہ گیس پائپ لائن کا منصوبہ اس خطے میں ہماری جیو اسٹرٹیجک اہمیت کے لحاظ سے ناگزیر ہے۔

ان کے مطابق پاکستان کے راستہ ایرانی گیس کی ترسیل سے وطن عزیز پر انحصار میں اضافہ ہوگا، جس کے نتیجے میں خطے میں امن و آشتی، استحکام اور طاقت کا توازن برقرار رہ سکے گا۔امید واثق ہے کہ مستقبل کی حکومت اس حقیقت کا ادراک کرے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔