نئی حکومت اور مسائل ہی مسائل

ہمارے ملک کی شروعات کچھ اس طرح ہوئی کہ ایک عشرہ تو جمہوری حکومتوں کی کھینچا تانی میں لگ گئے



ستمبر2013میں جب جی 20کی سربراہی کانفرنس جاری تھی تو کئی ملکوں کی جانب سے اس بات کا اظہارکیاگیا کہ ہمارے شہریوں کی بہت بڑی تعداد عالمی معاشی بحالی یا معاشی ترقی میں شریک نہیں۔ معاشی ترقی کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے۔

یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ملک میں معاشی ترقی بھی ہو رہی ہو لیکن بہت سے افراد کو چھوڑکر یہ ترقی ہو رہی ہو تو اس کے منفی نتائج سامنے آتے ہیں اور اس کے سب سے زیادہ منفی اثرات معیشت کے راستے سے اثر انداز ہوتے ہیں۔

ہمارے ملک کی شروعات کچھ اس طرح ہوئی کہ ایک عشرہ تو جمہوری حکومتوں کی کھینچا تانی میں لگ گئے ۔ کئی حکومتیں آئی اورگئی، وزرائے اعظم تبدیل ہوتے رہے۔

نئی نئی جمہوریت ملی تھی لہٰذا اس پر نئے نئے تجربات بھی ہوتے رہے۔ اس وقت ملک کے دو حصے تھے۔ ایک حصہ جو کہ مشرقی بازو کہلاتا تھا وہاں کی زمین بڑی زرخیز تھی، وہاں علیحدگی کا بیج بودیاگیا جو کہ جلد ہی تناور درخت بن گیا۔

اس دوران اس کی آبیاری بھی مغربی حصے سے خوب ہوتی رہی۔ 60 کی دہائی شروع ہوئی تھی کہ دوسرا منصوبہ کچھ کچھ کامیاب کہلایا لیکن اس منصوبے میں ایک غلطی ہوگئی کہ شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس کے فوائد میں شریک نہ ہوسکی۔

عالمی ادارہ محنت نے 2012میں کہا تھا کہ دنیا کی 5 ارب 30کروڑ آبادی کام کرنے کی عمر میں ہے، جس میں سے 20 کروڑ افراد بے روزگار ہیں۔ میرے خیال میں اس میں کئی غلطیاں ہوسکتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کام کرنے کی عمر ان کے ہاں 18برس کی ہو یا پھر وہ تمام لوگ جوکہ زراعت پر، زرعی زمینوں پر بوجھ بنے ہوئے ہوں لیکن کام کرنے کی عمر والے زیادہ سے زیادہ افراد مختصر قطعہ زمین پر کام کر رہے ہوں جس کو چھپی ہوئی بیروزگاری کہا جاتا ہے۔

ان سب کوکام کرنے والوں برسرروزگارکی فہرست میں ڈال دیاگیا ہو، اگر ایسا نہ ہوتا تو بیروزگاری کی شرح بدترین ہوتی۔ جیسا کہ پاکستان میں ہے بیروزگاری کی شرح میں خاصی کمی ساٹھ کی دہائی میں آنا شروع ہوئی تھی پھر 1992 کے بعد سے مشرق وسطیٰ کے لیے کام کرنے والوں کی مانگ میں زبردست اضافہ ہوا اور پاکستان نے بھی اس سے فائدہ اٹھایا۔

یوں پوری دہائی اس بات میں صرف ہوئی کہ ملکی پیمانے پر صنعتوں کو قومیانے کے باعث کارخانوں کا قیام انتہائی سست روی کا شکار رہا لیکن اس وقت ملک کی بڑی افرادی قوت چند ہزار روپے خرچ کر کے مشرق وسطیٰ کے ممالک میں اپنا روزگار کماتی رہی، لیکن 80کی دہائی کے درمیان تک واپسی کا عمل بھی شروع ہوا جس نے ملک بھر کے چھوٹے چھوٹے شہروں کو خوب رونق بخشنے کا عمل شروع کیا۔

کیوں کہ واپس آنے والوں نے اپنی جمع شدہ رقم سے یہاں پر کاروبارکا آغاز کیا۔ کتنے ہی لوگوں نے بلڈنگز، جائیدادیں، دکانیں حتیٰ کہ مارکیٹیں وغیرہ بنوادی تھی۔ اس طرح خاص طور پر پنجاب میں معاشی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ پاکستان میں بھی 1985 کے بعد 1999 تک کئی حکومتیں آتی جاتی رہیں اور برسراقتدار طبقہ عوام سے زیادہ حزب اختلاف پر توجہ مرکوز رکھتا کیونکہ ہر دم یہی کھٹکا لگا رہتاکہ حکومت گرادی جائے گی۔

اس طرح عوام کے اصل مسائل سے یک گو نہ دوری نے کام کر دکھایا۔ ملک میں بیروزگاری بڑھتی چلی گئی۔ اس کے ساتھ کارخانے بھی کہیں کہیں بند ہوتے چلے گئے۔ بہت سوں نے اسے گودام کی شکل دے دی کیونکہ گودام میں اناج اور دیگر مال چھپاکر رکھیں یا ذخیرہ کرلیں پھر اگر اس کی قلت پیدا ہوجائے تو وارے نیارے ہوتے ہیں اور فیکٹری چلانے کی جھنجھٹ سے دور رہ کر زیادہ منافع کما لیا جاتا لیکن اس میں نہ غریب کا کچھ بھلا ہوتا نہ اسے روزگار میسر آتا اور یوں بیروزگاری بڑھتی رہی۔

غربت میں اضافہ ہوتا رہا، بھوک پلتی رہی، فاقے پروان چڑھتے رہے۔ مہنگائی سر چڑھ کر بولتی رہی اور عوام غربت کی چکی میں پستی رہی۔ اس دوران نئی صدی کا آغاز ہوا۔ اقوام متحدہ میں عالمی سربراہوں کا اجلاس ہوا لہٰذا وہاں مشترکہ دشمن کی تلاش ہوئی بالاخر غربت کو ڈھونڈ نکالا گیا اور یوں عالمی غربت کے خلاف جنگ کا آغاز ہوا۔

عالمی ادارہ محنت 2015 سے پہلے ہی اس بات کی توقع کر رہا تھا کہ دنیا بھر کے ممالک بڑے پیمانے پر اصلاحی معاشی تبدیلیاں رونما نہ کرسکے لہٰذا مجموعی بیروزگاری 6 فی صد پر برقرار رہے گی اور نوجوانوں میں یہ شرح دگنی سے بھی زائد یعنی 12.9فی صد ہوجائے گی۔

بس انھی اعداد و شمارکو آپ پاکستان میں دگنا سمجھیں کیونکہ سماج کی بہت سی باتیں، عوام کی بہت سی باتیں، معاشرے کی بہت سی باتیں ہمیں بہت کچھ سمجھا رہی ہیں کہ پانی سر سے اوپر ہوچکا ہے۔ ملک بھر میں جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے۔ دکانوں میں بھتے کی پرچیاں پہنچ رہی ہیں۔ کیا یہ سب خبریں، اطلاعات، واقعات اس بات کے لیے کافی نہیں کہ نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح میں شدید اضافہ ہو رہا ہے۔

نئی حکومت کی ترجیحات یہ ہیں کہ آئی ایم ایف سے کیسے نمٹا جائے، کس طرح سے رقم لے کر قرض لے کرکام چلائیں۔ ماضی کی طرف نظر دوڑائیں 1970 اور 1960 کی پالیسی کو دہرائیں، 1960 کی دہائی میں نئے نئے کارخانے لگ رہے تھے۔ ملک کی زرعی ترقی کے لیے رقوم صرف کی جارہی تھی۔

1970 کی دہائی میں زیادہ سے زیادہ افراد کو بیرون ملک ملازمت پر بھجوایا جارہا تھا نہ کمیشن ایجنٹ تھا۔ نہ رشوت دی جارہی تھی نہ ہی 40 سے50 لاکھ یا 80 لاکھ روپے صرف کر کے کسی نہ کسی طرح دیار غیر میں داخلے کی کوشش کی جا رہی تھی۔

وہ بھی زیادہ تر غیر قانونی داخلے ہو رہے ہیں۔ حکومت فوری توجہ دے۔ ہمارے پاس وافر تعداد میں افرادی قوت موجود ہے اسے ملک میں برسروزگار کرنے کے لیے پہلی ترجیح دیں۔ اس کے ساتھ پن بجلی کی پیداوار، گیس کی پیداوار، زراعت کو جدید طرز پر اس طرح استوارکرنا کہ کم ازکم پڑوسی ملک کے برابر فی ایکڑ پیداوار حاصل ہوجائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں