برصغیر میں بدھ مت کا زوال
بدھ مت نے ہندو دھرم میں برہمن سامراج کے جبر کی وجہ سے جنم لیا
اہلِ علم حیران ہیں کہ بدھ مت جیسا صوفیانہ مذہب ، برصغیر سے کیونکر تقریباً معدوم ہو گیا۔اس کی اصلی وجہ آج تک متعین نہیں ہوسکی۔
بدھ مت نے ہندو دھرم میں برہمن سامراج کے جبر کی وجہ سے جنم لیا۔ موجودہ نیپال کے علاقے میں کوئی ڈھائی ہزار سال پہلے ایک ریاست کے مہاراجہ کے گھر جنم لینے والے شہزادے سدھارترا گوتم نے جب ہوش سنبھالا تو نیپال سے افغانستان تک زیادہ تر لوگ ہندو مت کے پیروکار تھے۔
ہندو دھرم اپنی اصل،اپنی بنیاد یعنی ویدک تعلیمات سے دور ہو چکا تھا۔برہمنوں نے ویدوں میں من پسند تبدیلیاں کر دی تھیں۔وید تو کہہ رہے تھے کہ خداوندِ عظیم ایک ہے،اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں۔اس کی کوئی شبیہ،کوئی مورتی نہیں،کوئی تصویر نہیں تو ان احکامات کی خلاف ورزی میں ہزاروں لاکھوں دیوی دیوتا بنا لیے گئے۔
مندروں میں مورتیاں رکھ دی گئیں۔ برہمن سامراج نے اپنا کنٹرول مضبوط کرنے کے لیے ذات پات پر مبنی جاتی نظام قائم کر لیا،یوں برہمن جبر کی علامت بن گیا۔شہزادہ سدھارترا گوتم اس جبر کو دیکھ کر بہت دکھی ہوا۔اس نے اس نظام کے خلاف آواز اُٹھائی تو اس کی آواز میں جادو تھا،وہ مقناطیسیت تھی کہ جوکوئی اس کے شبدھ سنتا، متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا۔
اصل میں لوگ ہندو مت کی بگڑی تعلیمات،رسومات اور برہمنی جبر کے خلاف گوتم کی آواز پر لبیک کہہ رہے تھے۔ گوتم بدھ نے ذات پات کے نظام کو یکسر رد کرتے ہوئے تمام انسانوں کو برابر قرار دیا۔ میانہ روی کو فروغ دیا۔
گوتم بدھ کی یہ روشن تعلیمات برصغیرمیں بہت تیزی سے پھیلیں۔ سارا بنگال، سارا جنوبی ہندوستان، پنجاب، کشمیر،سندھ،گندھارا،سوات، سارا بنگال اور مشرقی افغانستان مہاتما بدھ کاپیروکار ہو گیا، البتہ سینٹرل ہندوستان زیادہ تر ہندو ہی رہا۔ مہاتما بدھ کے آدرشوں پر مبنی تعلیمات،ہندو سماج میں ایک نیا مذہب بن گئیں۔
یہ مذہب لگ بھگ گیارہ بارہ سو سال تک ہندو مت کے متوازی ایک طاقتور مذہبی قوت بنا رہا۔ایک دور ایسا بھی تھا جب یہ برصغیر کا سب سے بڑا مذہب تھا۔پھر آہستہ آہستہ یہ مذہب برِ صغیر میں ختم ہونا شروع ہو گیا اور بارھویں صدی عیسوی کے آخر تک بدھ مت اپنی جائے پیدائش برصغیر سے ایک مضبوط روحانی قوت کے طور پر رخصت ہو چکا تھا۔ہاں برصغیر سے باہر مشرقِ بعید میں پھیلتا چلا گیا۔بدھ مت معدومیت کی کئی ایک وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔
اہلِ علم اس بات پر بہت زور دیتے ہیں کہ ہندو بادشاہوں نے بدھ مت کو کچلنے کے لیے بہت ظلم و زیادتیاں روا رکھیں۔شمالی ہندوستان کے ایک ہندو بادشاہ یشی مترا سنگ اور متحدہ بنگال کے بادشاہ شاہشوک کی پکڑ دھکڑ،بے رحمی، شدید مظالم اور قتل و غارت نے بدھ مت کو ناپسندیدہ مذہب بنا دیا۔ان ہندو بادشاہوں کی بے رحمانہ پالیسیوں کے سبب بدھ مت کے پیروکار ہندو ریاستوں میں دوسرے درجے کے شہری بن گئے۔
انھوں نے بدھ خانقاہوں کو مسمار کیا،بھکشوؤں اور تعلیم و تربیت دینے والوں و طالبعلموں کو موت کے گھاٹ اتارا اور محتاج و بے کس کر دیا۔شاہی درباروں کی سرپرستی اور دستِ شفقت سے محرومی بھی بدھ مت کے زوال کا سبب بنی۔کہا جاتا ہے کہ شاہی درباروں کی سرپرستی سے محرومی کی وجہ سے بدھ خانقاہوں کو اپنی اصلی حالت میں برقرار رکھنا ممکن نہ رہا۔
خانقاہیں ،عبادت خانے اجڑنا اور برباد ہونا شروع ہو گئیں،البتہ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ ان ہندو بادشاہوں کے ظلم و ستم اور شاہی درباروں کی سرپرستی ختم ہو جانے کے بعد بھی بدھ خانقاہیں تعمیر ہوتی رہیں اور بدھ مت فروغ پاتا رہا،اس لیے یہ وجہ اکیلی بدھ مت معدومیت کا احاطہ نہیں کرتی۔
بھگتی تحریک۔برصغیر میں ہندوؤں خاص کر برہمنوں نے بھگتی تحریک شروع کی۔اس تحریک نے بدھ مت کو بہت نقصان پہنچایا۔۔ہندو برہمن سامراج نے بظاہر معصومیت سے اور اصل میں بہت چالاکی سے بدھ مت کو ایک مکمل مذہب سے گرا کر ہندو مت کی ایک شاخ قرار دیا،گوتم بدھ کا رتبہ کم کر کے ہندو پنڈتوں نے قرار دیا کہ دراصل گوتم لارڈ وشنو کے اوتاروں میں سے ایک اوتار تھے۔
ہندو مذہب میں کسی کو بھی دیوی ،دیوتا بنانا مشکل نہیں۔یوں ہندو پنڈت اپنے مذہب کو چیلنج کرنے والی ہر ہستی کو رتبے میں کم کر کے اپنے اندر سمو لیتے ہیں۔پنڈتوں نے یہی سلوک جین مت کے ساتھ کیا لیکن جین مت کے ماننے والوں نے اپنے مذہب اور اپنی الگ شناخت کابہت زور شور سے دفاع کیا۔
پتہ نہیں کیوں لیکن بدھ مت کے ماننے والوں نے اس مذہبی حملے کا کوئی دفاع نہیں کیا۔ بدھوں نے ہندو پنڈتوں کے اس بیانیے کو کہ گوتم بدھ،لارڈ وشنو کے ایک اوتار ہیں،رد نہیں کیا،اپنا کوئی بیانیہ نہیں بنایا اور چپ سادھ لی۔اس غلط برداشت کا نتیجہ یہ نکلا کہ بدھ سماج کمزور ہو کر ہندو سماج کا حصہ بنتا چلا گیا۔
مہاتما بدھ کی بہت بڑے پیمانے پر کامیابی کے پیچھے گوتم کا سنسکرت کی جگہ مقامی زبان میں اپنی تعلیمات کا پرچار تھا۔عام آدمی کے لیے یہ ایک بہت بڑی اور خوشگوار تبدیلی تھی۔ہندو پنڈت ویدک تعلیمات اور رسوم کو علماء کی زبان سنسکرت میں بیان کرتے تھے۔بدھ کے مقامی زبان کے استعمال نے اس کی تعلیمات کو خواص و عام تک بآسانی پہنچا دیا۔گوتم بدھ کی جاذبِ نظر،مقناطیسی شخصیت اورمقامی زبان کے استعمال نے بدھ مت پھیلانے میں بہت مدد کی۔
گوتم بدھا کی اپنی زبان بالی جب خانقاہی زبان بن گئی تو عام آدمی اسی طرح اس روحانی چشمے سے فٰیض یاب ہونے سے محروم رہ گیا جس طرح سنسکرت کے نہ جاننے والے اپنے مذہب سے دور ہوئے۔گزرتے وقت کے ساتھ باہمی جھگڑوں و منافرت نے بدھ مت کو دبوچ لیا۔کئی فرقے مثلاًمہایان، بجریان اور وجریان بن گئے۔
ان فرقوں کے درمیان آٹھویں سے دسویں صدی عیسوی بہت جھگڑے ہوئے جن سے بدھ مت کو بہت نقصان ہوا۔مسلمانوں کی آمد نے بدھ مت معدومیت کو مکمل کر دیا، مسلمانوں کی فتوحات نے اسلام کے سادہ لیکن بہت طاقتور پیغام کو پھیلانے میں کافی مدد کی۔
مسلمانوں کی فتوحات سے پہلے بدھ تاجر سلک روٹ کی سہولتوں سے بہت فائدہ اُٹھا رہے تھے۔ان کے اوپر ٹیکس بھی واجبی سے تھے۔مسلمانوں نے تمام غیر مسلموں بشمول بدھ مت کے ماننے والوں پر ٹیکس لگا دیے جس کی وجہ سے بدھ تاجروں کو کاروبار میں پہلے والے مواقع اور منافع ملنا بند ہو گئے۔جب بدھوں کے لیے کاروبار منافع بخش نہ رہا تو انھوں نے بدھ عبادت گاہوں اور خانقاہوں کو وافر فنڈز دینے بند کر دیے۔
کہا جاتا ہے کہ گوتم بدھ نے بدھ راہبوں اور بھکشوؤں کو روزی کمانے سے روک دیا تھا۔ فنڈز کی کمیابی سے بدھ عبادت گزاروں اور طالبعلموں کا گزر بسر بہت مشکل ہو گیا۔عبادت خانے و خانقاہیں اجڑنے اور گرنے لگیں۔ بدھ مت ایک صوفیانہ مذہب ہے۔مسلمانوں کی آمد کے ساتھ مسلمان صوفیاء جب منظر نامے پر ابھرے تو بدھ مت کا سورج گہنا گیا۔برِ صغیر میں لوگ مسلمان صوفیا کے کردار سے متاثر ہو کر ان کے گرد اکٹھے ہونا شروع ہو گئے۔