جیتے جاگتے شہر کو ویراں کرنے والے

ہمارا شہر کراچی ہر ماہ کسی نہ کسی وجہ سے دو چار دنوں کے لیے بند کر دیا جاتا ہے۔


Dr Mansoor Norani June 11, 2014
[email protected]

ہمارا شہر کراچی ہر ماہ کسی نہ کسی وجہ سے دو چار دنوں کے لیے بند کر دیا جاتا ہے۔ آئے دنوں کی ہڑتال اور احتجاج سے یہاں کے باسی انتہائی مضطرب اور پریشان ہیں۔ اعلان شدہ ہڑتال سے ایک روز قبل ہی شرپسندوں کے ہاتھوں بسوں، گاڑیوں اور سرکاری املاک کو آگ لگا کر اور شہریوں کو خوفزدہ کر کے ہڑتال کو کامیاب بنانے کا طریقہ ایک عرصے سے جاری و ساری ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں اب کاروبار کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔

دُکاندار کاروباری حضرات جب دن چڑھے اپنے کاروبار کا آغاز کرنے نکلتے ہیں تو اُنہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کِس وقت اچانک کوئی واقعہ رونما ہو جائے اور سارا شہر ایک قبرستان کی خاموشی کا سا منظر پیش کرنے لگے۔ چند سر پھر ے مسلح نوجوانوں کا ٹولہ کہیں سے نمودار ہو کر علاقے کی دُکانوں کو جبراً بند کروا دیتا ہے۔ سڑکوں پر دوڑتی گاڑیوں کو روک کر نذرِ آتش کر دیتا ہے اور طاقت کے زور پر زندگی سے بھر پور شہر کو چند لمحوں میں ویران اور ماتم کدہ بنا دیتا ہے۔ خوف اور دہشت کے مارے لوگ اپنے اپنے گھروں میں خود ہی نظر بند ہو جاتے ہیں۔

کوئی سیاسی جماعت اور گروہ اِن دہشت گردوں کو اپنانے کو تیار نہیں۔ سب اِنہیں نامعلوم شر پسند کہہ کر اُن سے لا تعلقی ظاہر کرتے ہیں لیکن وہ ہیں کہ بغیر کسی واضح شناخت اور پہچان کے اپنا کام برابر کیے جا تے ہیں۔ ابھی حالیہ دنوں میں جب لندن سے جناب الطاف حسین کی گرفتاری کی خبر نے اُن کے چاہنے والوں کو افسردہ اور غمزدہ کر دیا ۔

اِس واقعے کی آڑ میں پھر وہی نامعلوم شر پسند افراد سڑکوں پر دندناتے نکل آئے اور سارے شہر کو بند کرا کے حسبِ معمول غائب ہو گئے۔ متحدہ کی رابطہ کمیٹی نے اُن سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے اُن کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کر دیا اور یہ بھی کہا کہ یہ شرپسند افراد اپنی حرکتوں سے ایم کیو ایم کو بدنام کر تے ہیں اِنہیں گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے۔ کیونکہ لندن سے آنے والی افسوسناک خبر کا تعلق ایم کیو ایم کی قیادت سے تھا لہذا ردِ عمل میں جو کچھ کیا گیاوہ یقینی اور توقعات کے عین مطابق تھا ۔

شہر کے مختلف علاقوں میں اُس کے لوگوں کی طرف سے خاموش دھرنا اُن کے اپنے قائد سے جذباتی تعلق، عشق اور والہانہ لگاؤ کا ایک فطری اور مثبت اظہار تھا جس کی کسی نے مخالفت بھی نہ کی۔ یہ دھرنا چار روز تک جاری رہا اور اپنے قائد کی رہائی کی خبر کے بعد ہفتے کو رات گئے اختتام پذیر ہوا۔ مگر اِس دوران نامعلوم شر پسند افراد اپنا کام کر گئے۔ احتجاج کے تیسرے روز جب کاروبار کھولنے کا ا علان ہوا تو پھر وہی بے چہرہ افراد تازہ دم اور سرگرم ہو کر دُکانیں بند کروانے کے اپنے مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا ہو گئے اور آناً فاناً سارے جیتے جاگتے شہر کو پھر سے ویرانی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔

کراچی وہ شہر ہے جہاں چھوٹی سی خبر جنگل کی آگ کی مانند پھیل جاتی ہے اور منٹوں میں سارے شہر کا امن و امان غارت کر دیتی ہے۔ شہر میں ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے لاکھوں افراد اچانک بیروزگار ہو جاتے ہیں اور اُن کے ذریعے پلنے والے ہزاروں خاندان فاقہ کشی پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اُن کا چولہا اُس وقت تک نہیں جلتا جب تک شہر کے حالات معمول پر نہیں آ جاتے۔ یہ سلسلہ کوئی آج کا پیدا کردہ نہیں ہے ایک عرصے سے یہی فعلِ قبیح جاری ہے۔

کچھ ایسا ہی منظر محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت والے دن بھی دیکھنے میں آیا جب اِن ہی نامعلوم شر پسندوں اور بلوائیوں نے چند گھنٹوں میں ملک کے سب سے بڑے شہر کو آگ اور خون کی ہولی کے رنگ میں رنگ دیا۔ سرکاری اور نجی املاک، بینکوں اور پیٹرول پمپوں کو نذرِ آتش کر کے اور بڑی تعداد میں کاریں، ٹرک اور مال بردار کنٹینروں کو خاکستر کر کے وہ بڑے اطمینان و آرام سے اپنے بلوں میں جا چھپے۔ حالتِ اضطراب اور پریشانی میں گھروں کو واپس جانے والوں کو دل کھول کر لوٹا گیا۔ اسلحے کے زور پر اُن کی قیمتی اشیاء اور نقدی سے اُنہیں محروم کر دیا گیا۔

اِس سانحہ کو سات سال کا عرصہ بیت چکا مگر اِن میں سے کسی ایک ملزم کو گرفتار بھی نہیں کیا جا سکا۔ بے نظیر کی ناگہانی ہلاکت کا بدلہ اِس شہر کے معصوم اور بے گناہ لوگوں سے لیا گیا۔ اِس شہر کا کوئی پُر سانِ حال نہیں۔ امن قائم کرنے والے اِن شر پسندوں کے آگے بے بس و لاچار ہیں۔ یہ کِس طرح اپنی کارروائی کر جاتے ہیں کہ کسی کے ہاتھ بھی نہیں لگتے۔ جب وہ اپنی تمام کارروائی مکمل کر لیتے ہیں تو پھر متعلقہ ایجنسیاں اور ادارے حرکت میں آتے ہیں اور اِن شر پسندوں اور دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے آہنی ہاتھوں کے استعمال کا اعلان ہوتا ہے۔

لیکن حقیقتاً اور عملاً کچھ بھی نہیں ہوتا۔ رات گئی بات گئی کی مانند شہر کے امن و امان پر مامور سرکاری محکمے اور ادارے اگلی واردات تک کے لیے چین کی نیند سو جاتے ہیں۔ کہنے کو شہر میں ٹارگٹڈ آپریشن گزشتہ ایک سال سے جاری ہے۔ ذمے داران کی جانب سے ہزاروں شرپسندوں کی گرفتاری کے دعوے تو بہت کیے گئے مگر حقیقتاً حالات وہیں کے وہیں ہیں۔ نہ رہزنی اور ڈکیتیاں رکیں ہیں اور نہ بھتہ خوری کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ شہر کا امن تباہ کرنے والے پہلے کی طرح چوکس، مستعد اور سر گرم ہیں۔

اُن کی سرپرستی کرنے والے بھی بے خوف و خطر اپنا کام کیے جا رہے ہیں اور کوئی اُنہیں روکنے والا نہیں۔ بس ساری حکمرانی اور عمل داری صرف بیان بازی تک ہی محدود ہے۔ کہا جاتا ہے کراچی اِس ملک کی شہ رگ ہے۔ جب تک یہاں امن قائم نہیں ہو گا ملک ترقی نہیں کرے گا۔ سارا بزنس اور غیر ملکی انویسٹمنٹ اِس شہر کے امن سے وابستہ ہے۔ حکمرانوں کو بظاہر یہ احساس تو ضرور ہے لیکن عملاً کوئی ٹھوس منصوبہ بندی اور حکمتِ عملی ہنوز سامنے نہیں آئی۔

نائن الیون کے بعد ہمیں جن دہشت گردوں کا سامنا رہا اُنہیں تو ہم اچھی طرح جانتے ہیں، اُن کے تعارف اور اُن کی پہچان سے سبھی آشنا ہیں اور اُن کے خلاف آج کل پا ک فوج کی بھرپور کارروائی بھی جاری ہے مگر کراچی میں آئے دن وارداتیں کرنے والے گزشتہ کئی دہائیوں سے بے نام اور نا معلوم ہی چلے آ رہے ہیں۔ ایک انجانا خوف اور ڈر اُن کی اصل پہچان اور شناخت کی راہ میں اول روز ہی سے حائل ہے۔ بڑے بڑے بہادر، نڈر اور بے باک حکومتی اہل کار دیکھے مگر سبھی کی زبان اُن کا نام لیتے ہوئے کند ہو جاتی ہے۔

بڑے بڑے حوصلہ مند صحافی اور نقاد سامنے آئے لیکن وہ بھی اِن شرپسندوں کو نامعلوم ہی کہتے دِکھائی دیتے ہیں۔ کسی میں اتنی ہمت اور جرأت نہیں کہ وہ اِن گمنام دہشت گردوں کو بے نقاب کر سکیں۔ یہاں تو مر کزی اور صوبائی حکومتیں بھی مصلحتوں سے کام لیتے ہوئے اُن کے سرپرستوں اور وارثوں کو موردِ الزام ٹہرانے سے کتراتی رہی ہیں پھر بھلا عام شہری کسِ طرح اُن کے خلاف کوئی بات کہہ سکتے ہیں۔ یہ سلسلہ نجانے کب تک چلے گا۔ کب اِس شہر کے باسیوں کو امان نصیب ہو گا۔ کب اِس شہر کی رونقیں بحال ہونگی۔ کب وہ سکون و اطمینان سے اپنا کاروبار کر سکیں گے۔ کب وہ اور اُن کے بچے شام ڈھلے خیریت و عافیت سے اپنے گھروں کو لوٹ سکیں گے۔ یہ ایک ایسا حسین خواب ہے جس کی تعبیر فی الحال ممکن دکھائی نہیں دیتی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں