روس یوکرین تنازع اور عالمی صف بندی

یوکرین جنگ کی طوالت کی وجہ سے بھی روسی معیشت کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے


Editorial March 10, 2024
یوکرین جنگ کی طوالت کی وجہ سے بھی روسی معیشت کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ فوٹو: فائل

یوکرین جنگ کے خاتمے کے آثار نظر نہیں آ رہے، روس اس جنگ میں الجھتا جا رہا ہے، امریکا کے صدر جوبائیڈن نے گزشتہ روز روس کے صدر پیوٹن کا نام لے کر خاصا سخت بیان جاری کیا ہے۔

امریکا کے صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ میرا روس کے صدر پیوٹن کو پیغام ہے کہ ہم ہار نہیں مانیں گے، یوکرین کے مسئلے پرکسی کے سامنے نہیں جھکیں گے۔

امریکا کے صدر جوبائیڈن نے اسٹیٹ آف دی یونین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کو امریکا اور بیرونی دنیا میں خطرات کا سامنا ہے، جمہوریت پر حملے ہو رہے ہیں لیکن ہم سر نہیں جھکائیں گے ، یوکرین کے ساتھ کھڑے تھے اور کھڑے رہیں گے۔ جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ روس نے یوکرین پر حملہ کرکے یورپ اور یورپ سے باہر افراتفری پیدا کی ہے، امریکا یوکرین کو ہتھیار دے تو وہ اپنا دفاع کر سکتا ہے۔

اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں امریکی صدر نے اپنی حکومت کے کارناموں کی تفصیلات بھی بتائیں اور ارکان کانگریس اور اپنے دور اقتدار میں ان کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کا شکریہ بھی ادا کیا۔صدر جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ جب اقتدار ملا تو امریکی معیشت تباہی کے دہانے پر تھی، کورونا وبا کا بہادری سے مقابلہ کیا اور معیشت کو مستحکم کیا، ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت نے تین سال میں ڈیڑھ کروڑ نئی ملازمتیں پیدا کیں۔

صدر جوبائیڈن نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کی،ان کا کہنا تھا کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو جمہوریت پر حملے کے لیے اکسایا، سیاسی افراتفری کے لیے امریکا میں کسی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، امریکا میں کسی کو جمہوریت کے خلاف سازش کی اجازت نہیں دیں گے۔

صدر جوبائیڈن آیندہ صدارتی الیکشن میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک بار پھر صدارتی امیدوار ہیں جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدارتی امیدوار بننے کے لیے زبردست جدوجہد کر رہے ہیں۔ ریپبلکن پارٹی میں وہ سب سے آگے جا رہے ہیں۔ اگر ریپبلکن پارٹی انھیں صدارتی امیدوار نامزد کر دیتی ہے تو پھر دونوں امیدوار ایک بار پھر آمنے سامنے ہوں گے۔ چونکہ امریکا میں صدارتی الیکشن قریب ہیں اس لیے جوبائیڈن جہاں اپنی معاشی کامیابیوں کا ذکر کر رہے ہیں وہیں وہ روس کے حوالے سے سخت ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔

غزہ پر اسرائیلی حملے کے حوالے سے بھی جوبائیڈن انتظامیہ امریکا کے یہودی ووٹرز کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے اسرائیلی حکومت کا ساتھ دے رہی ہے۔ صدر پیوٹن اس وقت خاصے دباؤ میں ہیں۔ ان کے مدمقابل اپوزیشن لیڈر کی جیل میں پراسرار موت کی وجہ سے صدر پیوٹن پر زبردست تنقید ہو رہی ہے۔

ادھر یوکرین جنگ کی طوالت کی وجہ سے بھی روسی معیشت کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور روسی عوام سوال پوچھ رہی ہے کہ یوکرین پر حملہ کرتے وقت صدر پیوٹن اور ان کے ساتھیوں نے یقین دلایا تھا کہ یوکرین میں رجیم چینج کا عمل تین چار روز کے اندر مکمل کر لیا جائے گا لیکن یہ لڑائی شروع ہوئے سال ہونے کو آ رہا ہے اور اس کے ابھی ختم ہونے کے امکان نہیں ہیں کیونکہ امریکا، نیٹو اور یورپی یونین کھل کر یوکرین کا ساتھ دے رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یوکرین کی فوج روسی فوج کا مقابلہ کر رہی ہے۔

روس اور امریکا کے درمیان آویزش خاصی بڑھ گئی ہے۔ میڈیا کی ایک خبر کے مطابق روس نے بعض امریکی سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔

رشیا ٹوڈے کے مطابق روسی وزارت خارجہ کی طر ف سے ماسکو میں تعینات امریکی سفیر لین ٹریسی کو بتایا گیا ہے کہ روس میں کام کرنے والے امریکی سفارت کار جو روسی حکومت کی جانب سے ناپسندیدہ قرار دیے گئے بعض غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں، انھیں ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ روسی وزارت خارجہ کی طرف سے امریکی سفیر کو طلب کر کے انھیں تین این جی اوز کی تبدیل شدہ قانونی حیثیت کے بارے میں مطلع کیا گیا۔

روس کا موقف ہے کہ یہ این جی اوز جن کو ماسکو میں امریکی سفارت خانے کی حمایت حاصل ہے، روس مخالف نوعیت کے منصوبوں پر کام کر رہی ہیں، جن کا مقصد تعلیمی اور ثقافتی تبادلوں کی آڑ میں ایجنٹ بھرتی کرنا ہے۔

روسی وزارت خارجہ کی طرف سے امریکی سفیر لین سفیر ٹریسی کو ایک باضابطہ نوٹ جاری کیا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا اور روس کے درمیان کشیدگی مزید بڑھے گی۔ امریکا کا صدارتی الیکشن اس حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ روسی صدر کے قریب ہیں۔

ٹرمپ نے روس کے حوالے سے ایک متنازعہ بیان بھی دیا تھا، جس پر امریکی ڈیموکریٹک پارٹی اور صدر جوبائیڈن نے انھیں سخت تنقید کا بھی نشانہ بنایا ہے۔ ایسی صورت میں اگر ڈونلڈ ٹرمپ ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار بن جاتے ہیں اور وہ الیکشن میں کامیاب ہو کر صدر بن جاتے ہیں تو امریکا کی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلی کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔

عالمی منظرنامے میں بڑی طاقتوں کے درمیان آویزش بڑھتی جا رہی ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد یہ امید لگائی گئی تھی کہ اب عالمی سطح پر حالات بہتر ہو جائیں گے، وہ امید ختم ہو رہی ہے۔ روس اور چین کے ساتھ امریکا اور یورپ کی آویزش اب کھل کر سامنے آ چکی ہے۔ روس نے امریکا کو شام کی لڑائی میں ٹف ٹائم دیا۔ افغانستان میں طالبان کے ساتھ بھی روسی تعلقات کے بارے میں چرچا ہوتا رہا ہے۔

ادھر چین کے ساتھ تائیوان کے مسئلے پر خاصے اختلافات پیدا ہو چکے ہیں۔ کورونا وباء کے دوران میں اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین پر کورونا وائرس پھیلانے کا الزام عائد کیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکا کے ایران کے ساتھ بھی تعلقات خاصے کشیدہ ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے حالات مسلسل خراب ہو رہے ہیں اور اسرائیلی جارحیت ختم ہونے میں نہیں آ رہی۔ امریکا کھل کر اسرائیل کا ساتھ دے رہا ہے۔

امریکا کی اس پالیسی کی وجہ سے فلسطینیوں، شامیوں اور یمنی حوثیوں میں امریکا مخالف جذبات پیدا ہوئے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں عرب حکومتیں بھی مشکل صورت حال سے دوچار ہیں کیونکہ ایک طرف وہ مشرقِ وسطیٰ میں پراکسی جنگ کی وجہ سے پریشان ہیں اور دوسری طرف فلسطینیوں کے تنازع کی وجہ سے وہ مغرب کے ساتھ بھی ایک محتاط پالیسی لے کر چل رہے ہیں۔

عالمی منظرنامے میں ہونے والی صف بندیوں کو دیکھیں تو دنیا گریٹ پاورز کے دور میں نظر آ رہی ہے۔ اس وقت یہ گریٹ پاورز گریٹ گیم کے نام سے ایک دوسرے کے ساتھ عالمی مفادات کے حصول کے لیے دست وگریباں تھیں۔ اب امریکا، یورپی یونین، برطانیہ اور نیٹو ایک طرف متحد ہیں تو دوسری طرف روس، چین اور ایران ہیں جو کسی ایک اتحاد میں تو شامل نہیں ہیں تاہم امریکا اور یورپ کی پالیسیوں نے کئی معاملات پر انھیں مشترکہ مؤقف اختیار کرے پر مجبور کر دیا ہے۔

پاکستان کے لیے بھی صورت حال خاصی پیچیدہ ہے۔ سابق پی ٹی آئی حکومت کی خارجہ پالیسی مبہم رہی ہے۔ اس مبہم اور غیرواضح پالیسی کی وجہ سے پاکستان امریکا، برطانیہ اور نیٹو سے بھی فاصلے پر رہا جب کہ چین اور روس کے ساتھ بھی تعلقات دوری پر رہے ہیں۔

مشرق وسطیٰ کے معاملات میں بھی پاکستان زیادہ بڑا کردار ادا نہیں کر سکا۔ پاکستان کے انتہائی قریب اور دوست ملک جن میں سعودی عرب اور یو اے ای شامل تھے، ان کے ساتھ تعلقات میں بھی کسی حد تک سردمہری دیکھنے میں آئی۔ ان سارے معاملات کا نتیجہ معاشی بحران کی صورت میں نظر آیا۔

آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کرتے وقت حقائق کی سنگینی کا ادراک نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے تعلقات سردمہری کا شکار ہوئے۔ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ پاکستان کے لیے دردِ سر بنی رہی۔ اس وجہ سے بھی پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاملات میں سردمہری آئی۔

سابق پی ٹی آئی حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان گرے لسٹ سے اپنا نام نکلوانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اب نئی منتخب حکومت کے لیے عالمی منظرنامے کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان کو اپنی جیو پولیٹیکل، جیو اسٹرٹبجک اور جیو اکنامک پوزیشن کی گہری اسٹڈی کی ضرورت ہے تاکہ اس حقائق کو سامنے رکھ کر پاکستان کی حکومت خارجہ پالیسی کے اصول اور ترجیحات طے کر سکے۔

پاکستان کے پاس غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔ افغان پالیسی میں تبدیلی وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اسی طرح ایران کے ساتھ کیا پالیسی اختیار کرنی ہے، اس پر بھی پاکستان کے پالیسی سازوں کو واضح اور دوٹوک فیصلہ کرنا پڑے گا۔ شمال مغرب میں سردجنگ دور کی پالیسی آج کی نئی عالمی صف بندی میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔