’’ ایم کیو ایم پاکستان کی بھاگ دوڑ‘‘
ایم کیو ایم چونکہ اٹھارہویں ترمیم میں مزید ترمیم لانے کو ایک اہم مسئلہ خیال کرتی ہے
ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت انتخابات سے قبل بھی پریشان تھی مگر اب زیادہ پریشان نظر آرہی ہے۔ اس کی وجہ صاف ہے کہ اس نے کراچی کے مسائل حل کرنے کا عوام سے وعدہ کر رکھا ہے اور اس وعدے کو وفا کرنے کے لیے وہ بھاگ دوڑ کر رہی ہے۔ اسی لیے ایم کیو ایم کے رہنمائوں نے مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد کا فیصلہ کیا اور شہباز شریف کو وزیراعظم بنوایا ہے۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی سے کیا اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے مگر مسلم لیگ ن کی جانب سے کچھ سرد مہری نظر آرہی ہے کیونکہ ان کے حکومت سازی کے لیے نمبر پورے ہیں اور وہ ایم کیو ایم کی ضرورت محسوس نہیں کر رہے ہیں۔
دراصل ایم کیو ایم کراچی اور حیدرآباد میں عوام کی مقبول ترین جماعت ہے۔ حالیہ الیکشن میںاس نے اپنی تمام پرانی نشستیں جیت لی ہیں، تاہم ایم کیو ایم پر برابر یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ اس نے اتنی ساری سیٹیں کیسے جیت لی ہیں؟
الزام لگانے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہمیشہ سے ہی ایم کیو ایم کراچی کی ایک دوکو چھوڑ کر تمام صوبائی اور قومی اسمبلیوں کی سیٹیں جیتتی آرہی ہے، یہ بات دراصل اس لیے بھی کہی جارہی ہے کہ اس دفعہ الیکشن کے نتائج مرتب کرنے میں الیکشن کمیشن سے کچھ غلطیاں ہوئی ہیں جن کی بنیاد پر یہ بات کہی جا رہی ہے اور ان غلطیوں کو کچھ سیاسی پارٹیاں بہت سنجیدگی سے لے رہی ہیں اور ملک گیر احتجاج کررہی ہیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت اس سلسلے میں سب سے آگے ہے۔
الیکشن کمیشن ابھی کہہ رہا ہے کہ کوئی دھاندلی نہیں ہوئی ہے۔تمام الزامات اس کی اچھی کارکردگی پر پردہ ڈالنے اور بدنام کرنے کے لیے لگائے جارہے ہیں ۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ 2018کے انتخابات میں بھی زبردست دھاندلی کی گئی تھی۔ اب اس ذکر نہیں کیا جارہا، موجودہ دھاندلی کو زیادہ ہی اچھالا جارہا ہے، جہاں تک ایم کیو ایم پاکستان کا تعلق ہے اسے شہباز شریف پر مکمل اعتماد ہے کہ وہ کراچی کے مسائل کے حل میں اس کا ساتھ دیں گے ۔ اس وقت کراچی میں پیپلز پارٹی کا میئر موجود ہے۔
ایم کیو ایم میئر کے عہدے کو انتہائی اہمیت دیتی ہے مگر میئر موجودہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت بااختیار نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ اکثر شہری مسائل کے حل کے سلسلے میں سندھ حکومت کا محتاج ہے جب کہ لوکل باڈیز قانون کے تحت میئر ایک با اختیار حیثیت کا مالک ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کی وجہ سے بلدیات کا ادارہ بری طرح متاثر ہوا ہے اور شہروں کی ترقی کا دارومدار بلدیاتی اداروں پر ہی ہوتا ہے۔ وفاق صوبوں کی ترقی کے لیے جو فنڈز مہیا کرتا ہے اس میں سے رقم بلدیاتی اداروں کو بھی جانا چاہیے مگر چونکہ وہ تمام وزیراعلیٰ کو حاصل ہوتی ہے، چنانچہ صوبہ سندھ میں یہ ہورہا ہے کہ اس رقم سے میئر کو کچھ بھی نہیں ملتا۔
کراچی میں پانی کا منصوبہ K-4 ایک زمانے سے لیت و لعل کا شکار چلا آرہا ہے۔صوبائی حکومت وفاق کی طرف امید لگائے بیٹھی ہے مگر نہ وہ اس معاملے میں دلچسپی دکھا رہا ہے اور نہ ہی صوبائی حکومت کوئی ہل جل کررہی ہے۔ بقول ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما مصطفیٰ کمال اگر کراچی کا میئر با اختیار ہوتا تو یہ مسئلہ کبھی کا حل ہوچکا ہوتا۔
ایم کیو ایم چونکہ اٹھارہویں ترمیم میں مزید ترمیم لانے کو ایک اہم مسئلہ خیال کرتی ہے چنانچہ اس نے شہباز شریف کے زبانی وعدے پر ہی اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ اس سلسلے میں باقاعدہ ایک معاہدہ بھی عمل میں آیا ہے۔ لگتا ہے اب پیپلز پارٹی کے اعتراض کے باوجود بھی شہباز شریف اٹھارہویں ترمیم کے معاملے کو حل کرنے کے پابند ہوچکے ہیں۔ ایم کیو ایم کامران ٹیسوری کو ہی گورنر سندھ کے عہدے پر برقرار رکھنا چاہتی ہے، کیونکہ انھوں نے صوبے کے معاملات کو نہایت عمدگی سے سنبھالا ہے۔
عوامی فلاح و بہبود کے کئی کام کر کے ایم کیو ایم کا نام روشن کیا ہے۔ ساتھ ہی عوام میں خود بھی مقبولیت کا درجہ حاصل کرلیا ہے۔ شہباز شریف کو چاہیے کہ وہ کسی اور شخص کو اس عہدے پر فائز کرنے کے بجائے انھیں ہی یہ خدمت انجام دینے دیں، اس سے انھیں کراچی کے مختلف مسائل سمیت دیگر معاملات سے نمٹنے میں مدد ملتی رہے گی اور کراچی میں امن وامان اور عوامی یکجہتی کو فروغ حاصل ہوتا رہے گا، جس کی شہباز حکومت کو سخت ضرورت ہے۔