امن کے مُتلاشی کہاں جائیں

اس سنگین غفلت کا ذمے دار کون ہے؟ کولڈ اسٹوریج کو سات افراد کی قبر بننے سے روکا جاسکتا تھا


Mirza Zafar Baig June 11, 2014
اس سنگین غفلت کا ذمے دار کون ہے؟ کولڈ اسٹوریج کو سات افراد کی قبر بننے سے روکا جاسکتا تھا۔ فوٹو : اے ایف پی

سب حیران ہیں۔ کیا یہ ہالی وُڈ کی کسی ایکشن فلم کے ناقابلِ یقین مناظر تھے، دہشت ناک، رونگٹے کھڑے کردینے والے مناظر، آگ اور خون میں ڈوبے، آنسوؤں میں بھیگے مناظر، عذاب میں گھرے لوگوں کے عزیزوں کی سسکیوں کے مناظر؟

کون ذمے دار ہے؟ کس نے ذمے داری قبول کی ہے، یہ سب جانتے ہیں۔ لیکن کیا ذمے داری کا دائرہ یہاں ختم ہوجاتا ہے؟ حفاظتی اقدامات کے ذمے دار اداروں کی غفلت کا کون حساب دے گا؟ یہ غفلت اس قدر سنگین ثابت ہوئی کہ کل اے ایس ایف اکیڈمی پر بھی حملہ ہوگیا۔ یہ علاقہ ایر پورٹ سے متصل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غفلت عروج پر ہے، چوکسی کا عنصر غائب ہے۔ دوسرے علاقوں کو تو چھوڑیے، 8 جون کی دہشت گردی کے بعد خود ایر پورٹ اور اس سے متصل علاقوں کی سیکیوریٹی پر دھیان نہیں دیا گیا۔ایر پورٹ پر بھی حملہ آور آسانی سے اندر آ گئے تھے، اور صرف 38 گھنٹے کے اندر وہ اے ایس ایف اکیڈمی تک پہنچنے میں بھی کام یاب ہو گئے !! غفلت کا نادر نمونہ!!

ساری دنیا حیران ہے کہ ابھی کراچی ایئرپورٹ پر پیش آنے والے اندوہ ناک واقعات کی آہ و بکا کم نہیں ہوئی تھی، شہید ہونے والے معصوم اور بے گناہ افراد کی میتوں کو سپرد خاک بھی نہیں کیا گیا تھا، ابھی فضا میں گذشتہ روز جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کی چیخیں گونج رہی تھیں کہ موت ایک بار پھر رقص کرنے لگی۔ مگر دہشت گردی چاہے وہ کوئی بھی کرے، کسی طور قابل قبول نہیں۔



اس کی ہر سطح پر بھرپور مذمت کی جانی چاہیے۔ گذشتہ روز جس طرح ایک کھلی دھمکی دی گئی تھی اس کے بعد حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہیے تھا کہ اسے سنجیدگی سے لیتے اور بھرپور حفاظتی اقدامات کرتے۔ مگر ایسا لگتا ہے جیسے کسی کو یقین ہی نہیں تھا کہ دہشت گردی کی دوسری کارروائی اتنی جلدی کی جاسکتی ہے، وہ بھی ایرپورٹ کے قریب! اس بار جس طرح اے ایس ایف اکیڈمی پر حملہ ہوا ہے، اس سے ایک طرف تو حکومت کے تمام اقدامات کا پول کھل گیا، دوسرے دنیا کو یہ معلوم ہوگیا کہ حکومت یا قانون نافذ کرنے والے ادارے چاہے کچھ بھی کرلیں، مگر ایسی کارروائیاں کی جاتی رہیں گی۔

اتوار اور پیر کی درمیانی شب کو کراچی ایرپورٹ پر جو کچھ ہوا، یہ ہمارے اداروں کی کھلی اور مجرمانہ غفلت ہے جس کی وجہ سے معصوم لوگ جانوں سے جارہے ہیں اور عوام کے جان و مال کے تحفظ و سلامتی کا مسئلہ پیدا ہو رہا ہے۔ کیا ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس قدر کمزور ہیں کہ وہ اپنا بنیادی فریضہ بھی ادا نہ کرسکیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ان اداروں کا کام ہی عوام کے جان و مال کا تحفظ کرنا ہے۔ وہ بعض قانون شکنوں کو سب کچھ کرتے دیکھ رہے ہیں، لیکن ان کے سامنے بے بس نظر آرہے ہیں۔ کچھ حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہماری حکومت نے بھی غفلت کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ قوم اس وقت بہت دل شکستہ ہے، شدید جانی اور مالی نقصان نے اس کے اعصاب کو توڑ پھوڑ دیا ہے۔ ایسے میں مذاکرات کی بات لوگوں کو وقتی طور پر سکون یا تسلی تو دیتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ مذاکرات کا ذکر ہوتے ہوئے بھی مسلسل حملے ہورہے ہیں تو پھر ان میں مایوسی کا پھیلنا بالکل درست ہے۔

یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر دہشت گرد کہاں سے آتے ہیں اور ایر پورٹ جیسے حساس مقام میں کس طرح داخل ہوجاتے ہیں؟ کیا ہمارے ہاں چیکنگ اور نگرانی کا کوئی نظام نہیں ہے؟ کیا ایرپورٹ جیسی اہم جگہ کو بھی کسی عام جگہ کی طرح دیکھا جاتا ہے؟ اتوار اور پیر کی درمیانی شب میں دس دہشت گرد ایرپورٹ کے اندر کس طرح پہنچ گئے؟ ایک خبر کے مطابق وہ اے ایس ایف کی وردیوں میں تھے، شاید اسی وجہ سے ان کو چیک نہیں کیا گیا اور وہ اپنے مطلوبہ ہدف کی طرف بڑھتے چلے گئے۔



تشویش ناک امر یہ ہے کہ کراچی ایرپورٹ پر ان حملوں کے بعد ساری دنیا پر یہ عیاں ہوچکا ہے کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی قومی تنصیبات کو دہشت گردوں کے حملوں

تحفظ دینے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ اس سے پہلے بھی پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر انگلیاں اٹھتی رہی ہیں، کیوں کہ پہلے بھی اسی طرح کی وحشت ناک کارروائیاں کی جاچکی ہیں اور ہر بار قانون نافذ کرنے والے ادارے انہیں روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ کیا ان کی باقاعدہ تربیت نہیں کی گئی یا ان میں شجاعت کی کمی ہے؟ ظاہر ہے ان دونوں سوالوں کے جواب میں یہی کہا جائے گا کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے باقاعدہ تربیت یافتہ بھی ہیں اور ان کی بہادری میں بھی کسی شک یا شبہے کی گنجائش نہیں ہے۔ تو پھر ہر بار ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ضرور کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی کمی ضرور موجود ہے۔ وہ کیا کمی ہوسکتی ہے؟ یہی وہ اہم سوال ہے جو پوری پاکستانی قوم پوچھ رہی ہے۔

٭کولڈ اسٹوریج کی کہانی:
یہاں ایک اہم اور بنیادی نکتہ غفلت اور بے پروائی کا ہے۔ ہمارے اداروں نے جس طرح مجرماہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے، وہ ناقابل معافی ہے۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ یہ غفلت ہی تو تھی جس کی وجہ سے کراچی ایرپورٹ کے کولڈ اسٹوریج میں سات زندہ اور ہنستے کھیلتے افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ وہ اپنے پیاروں کو آوازیں دیتے رہ گئے اور ان کے پیارے ان کو وہاں سے نکالنے کے لیے کوششیں کرتے رہے، منتیں اور فریادیں کرتے رہے، مگر ان کی مدد کو کوئی نہ پہنچا اور جب پہنچے تو وہ زندہ نہیں تھے۔ ان کی لاشیں جھلس کر ناقابل شناخت ہوگئی تھیں۔ اتوار اور پیر کی درمیانی رات کو ایرپورٹ پر پیش آنے والے ناخوش گوار واقعے کے بعد پیر کی شام کو چار بجے تک ''سب ٹھیک ہے'' کا سگنل دیا گیا اور ایرپورٹ کو بھی مسافروں اور طیاروں کی آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا مگر بعد میں معلوم ہوا کہ ایرپورٹ کے کولڈ اسٹوریج میں سات افراد محصور ہیں۔

وہ بار بار اپنے عزیزوں کو اور ان کے عزیز بار بار انہیں فون کررہے تھے اور ان کی خیروعافیت معلوم کررہے تھے۔ مگر باہر موجود سیکیوریٹی اہل کاروں میں سے کسی نے بھی اس طرف توجہ نہ دی، جس کے بعد وہاں موجود لواحقین کا غصہ بڑھنے لگا۔ انہوں نے پہلے تو شاہ راہ فیصل کو بلاک کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا، اس کے ساتھ ہی متعدد چینلز اور اخبارات کو فون کرکے اصل حقیقت سے آگاہ کیا جس کے بعد پورے شہر کو یہ معلوم ہوگیا کہ کراچی ایرپورٹ کو کلیر تو کردیا گیا ہے، مگر وہاں ریسیکیو کا کام ابھی جاری ہے اور سات زندہ افراد کولڈ اسٹوریج میں پھنسے ہوئے ہیں۔

اصل میں انہوں نے دہشت گردوں کی فائرنگ سے بچنے کے لیے وہاں پناہ لی تھی۔ ایکسپریس نیوز کی کوششوں سے یہ خبر تیزی سے پھیل گئی۔ یہ چینل مسلسل کوشش کررہا تھا کہ کسی طرح اندر پھنسے ہوئے لوگوں کو باہر نکال لے۔ باہر موجود ان کے عزیزوں کی حالت بھی دیدنی تھی۔ کسی ماں کا بیٹا اندر پھنسا ہوا تھا تو کسی بہن کا بھائی اس جگہ قید تھا اور کسی بچے کا باپ! بڑے اعصاب شکن لمحات تھے۔ بار بار کی اپیل کے باوجود وہاں نہ کوئی سرکاری عہدے دار پہنچا اور نہ کوئی ذمے دار۔ بعد میں سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ اور صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن ایرپورٹ پہنچے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کام ہمارے دائرۂ اختیار میں نہیں آتا، بلکہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کا ہے۔

اس کے بعد لوگوں کا اشتعال مزید بڑھ گیا، وہ ہر صورت پر اس کولڈ اسٹوریج سے اپنے عزیزوں کو باہر نکالنا چاہتے تھے۔ مگر وہاں ایسی کوئی سہولت موجود نہیں تھی جس کی وجہ سے یہ مشکل کام انجام دیا جاسکتا۔ نہ فائر بریگیڈ والوں کے پاس آگ بجھانے والا فوم تھا، نہ وافر مقدار میں پانی تھا، نہ آگ سے بچنے کے لیے دستانے تھے اور نہ لانگ بوٹ۔ ٹی وی پر بار بار یہ اپیل نشر ہوتی رہی کہ اگر کسی کے پاس دستانے اور بوٹ ہوں تو وہ انہیں لے کر ایرپورٹ پہنچیں۔

اس ساری صورت حال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب وہاں کوئی سہولت ہی موجود نہیں تھی اور نہ ریسیکو ادارے تھے تو ریسکیو کا کام کیسے ہوتا۔ اس موقع پر سندھ کے گورنر عشرت العباد اور صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد ایر پورٹ پہنچ چکے تھے۔ کولڈ اسٹوریج میں پھنسے افراد کے لواحقین ان دونوں سے بار بار پوچھ رہے تھے کہ ان کے عزیز زندہ تو ہیں ناں! ان کے پاس ان کے لیے تسلی بخش الفاظ کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔

آخر ریسکیو ورکرز نے کولڈ اسٹوریج کی تین دیواریں توڑ دیں۔ اندر کا منظر بڑا درد ناک تھا۔ اندر موجود ساتوں افراد اپنی جانیں ہار چکے تھے۔ ان کی لاشیں جل کر ناقابل شناخت ہوچکی تھیں جنہیں ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے فوری طور پر جناح اسپتال منتقل کردیا گیا تاکہ شناخت ہونے کے بعد ان کے وارثوں کے حوالے کردیا جائے۔

اس درد ناک کہانی کا انجام بڑا خوف ناک تھا۔ کسی کو پتا نہیں تھا کہ کولڈ اسٹوریج کے اندر آگ لگی ہوئی تھی جس کے بعد اس کی چھت گرگئی اور یہ ساتوں بدنصیب اس کے ملبے تلے دب گئے۔ ابتدا میں انہوں نے ہمت کی اور اپنے گھر والوں سے موبائل فون پر رابطے کیے، مگر جب باہر والوں نے ان کی جانیں بچانے کے لیے کوئی کوشش ہی نہیں کی تو وہ مایوس ہوگئے۔ وہ آخری سانس تک مدد کا انتظار کرتے رہے، مگر مدد اس وقت پہنچی جب وہ موت کو گلے لگاچکے تھے۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ ان کی لاشیں بھی ناقابل شناخت ہونے کے باعث ان کے لواحقین کو نہ مل سکیں، اس کے لیے انہیں کم از کم تین ہفتے تک انتظار کرنا ہوگا، ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد ہی یہ لاشیں ورثاء کے حوالے کی جاسکیں گی۔ یہ ساتوں بدنصیب ایک نجی کارگو کمپنی کے ملازم تھے۔

اس موقع پر سبھی لوگوں کا کہنا تھا کہ ایرپورٹ کی حفاظت اور اس کی دیکھ بھال کی ذمے دار سول ایوی ایشن اتھارٹی ہے، مگر اس ادارے کا کوئی بھی ذمے دار وہاں نہ پہنچا اور نہ کسی نے رابطہ کیا۔ دوسرے یہ کہ چوں کہ وہاں ہیوی مشینری، مثلاً کرینیں وغیرہ نہیں تھیں، اس لیے متعدد سرکردہ سماجی راہ نماؤں اور اداروں نے رضاکارانہ طور پر کرینیں بھجوائیں جس کے بعد ہی کولڈ اسٹوریج میں محصور ساتوں افراد کی لاشیں نکالی جاسکیں۔ اگر یہی کام پہلے کرلیا جاتا یا اس میں اتنی زیادہ تاخیر نہ کی جاتی تو ہوسکتا ہے کہ کچھ افراد یا سب افراد اس جہنم سے زندہ نکال لیے جاتے۔



واضح رہے کہ پاک فوج نے بھی ریسیکیو آپریشن میں مدد کی اور کولڈ اسٹوریج سے لاشیں نکلوانے میں ہر طرح کی معاونت فراہم کی۔ یہاں عام لوگ مسلسل ایک سوال کررہے ہیں کہ جب کولڈ اسٹوریج میں پھنسے ہوئے افراد زندہ تھے اور مسلسل اپنے عزیز و اقربا سے موبائل فون کے ذریعے رابطے میں بھی تھے تو انہیں بچانے کے لیے بروقت ریسکیو آپریشن کیوں نہیں کیا گیا؟ اس ساری غفلت کے ذمے دار کون ہیں؟ ان کی شناخت کی جائے اور ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، کیوں کہ انہوں نے صرف غفلت کا مظاہرہ نہیں کیا، بلکہ ان کی وجہ سے سات زندہ افراد لقمۂ اجل بن گئے۔

گذشتہ رات وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:''دہشت گردوں کا اصل ہدف طیاروں کو تباہ کرنا تھا، مگر اس میں انہیں ناکامی ہوئی اور دو یا تین طیاروں کو معمولی نقصان پہنچا جس کی آسانی سے مرمت کی جاسکتی ہے۔'' مرنے والوں کے بارے میں دوسروں کی طرح وہ بھی باربار رسمی الفاظ ادا کرتے رہے۔

٭سول ایوی ایشن اتھارٹی:
پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی عوامی شعبے کا ایک خود مختار ادارہ ہے جو وفاقی وزات دفاع کے تحت کام کرتا ہے۔ اس ادارے کا قیام 7 دسمبر 1982 کو عمل میں آیا تھا۔ یہ ادارہ سول ایوی ایشن سے متعلق تمام سرگرمیاں انجام دیتا ہے جس میں درج ذیل فرائض شامل ہیں: ایرٹریفک سروسز کی باقاعدہ نگرانی، ایرپورٹ کا مکمل منیجمنٹ، انفرا اسٹرکچر اور تمام ایئر پورٹس پر کمرشل ڈیولپمنٹ وغیرہ۔

اگر اس ادارے کے اغراض و مقاصد پر نظر ڈالی جائے تو ایرپورٹ کا پورا انتظام اور یہاں ہونے والی بیش تر سرگرمیوں کی ذمے داری براہ راست سول ایوی ایشن اتھارٹی پر ہی عائد ہوتی ہے، مگر کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایرپورٹ پر ہونے والی 8 جون 2014 کی دہشت گردی کے وقت اس ادارے کی کوئی کارکردگی نظر نہیں آئی، بالخصوص جب ایر پورٹ کو کلیئر قرار دیا گیا تو اس کے بعد یہ سول ایوی ایشن کا فرض بنتا تھا کہ اس کے ذمے دار پورے ایرپورٹ کو چیک کرتے، اس کے ایک ایک گوشے میں جاتے اور یہ دیکھتے کہ کہاں کہاں نقصان ہوا ہے، کہاں کہاں مرمت کا کام کیا جانا ہے، اگر اس ادارے کے ذمے دار پھرتی دکھاتے تو یقینی طور پر وہ کولڈ اسٹوریج بھی ان کی نظر میں آجاتا جہاں اس وقت تک آگ لگی ہوئی تھی۔ اگر یہ لوگ اپنی ذمے داری پوری کرتے تو شاید یہ اندوہ ناک واقعہ پیش نہ آتا اور وہ ساتوں افراد ہمارے درمیان زندہ اور سلامت ہوتے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دیانت داری کے ساتھ بحیثیت شہری اور ادارے اپنے فرائض اور ذمے داریوں کا تعین کریں اور یہ عزم کریں کہ چاہے حالات کتنے ہی سنگین کیوں نہ ہوں، ہم ہر صورت میں اپنے فرائض نظر انداز نہیں کریں گے۔ کاش! ایسا خوف ناک واقعہ اب کبھی پیش نہ آئے۔۔۔۔۔۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں