سیاسی حلیف اور سیاسی مفادات

مسلم لیگ ن اور پی پی کی وفاقی حکومتوں میں بھی صوبہ سرحد اور بلوچستان میں مخالف حکومتیں تبدیل کرائی گئیں


Muhammad Saeed Arain March 11, 2024
[email protected]

پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی کا مسلم لیگ ن سے جن عہدوں کے لیے معاہدہ نہیں ہوا، وہاں ایم کیو ایم اکاموڈیٹ ہوگی اور پیپلزپارٹی تمام سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر چلنے پر یقین رکھتی ہے جب کہ ایم کیو ایم نے حکومتی نشستوں پر بیٹھنے کا اعلان کردیا ہے کہ اس کا ن لیگ کے ساتھ تین نکاتی معاہدہ طے پاگیا ہے جس میں ان کا سب سے اہم مطالبہ اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرنے، اضلاع و ٹاؤنز کو مالی وسائل کی فراہمی کا بھی ہے ،گورنر اور وفاقی کابینہ میں شمولیت جیسے معاملات بعد میں دیکھے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ایم کیو ایم کو پہلی بار وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے 1988میں سندھ اور وفاقی حکومت میں شامل کیا تھا اور صدر آصف علی زرداری نے پی پی حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے ایم کیو ایم کو اپنے اقتدار میں حصہ دیا تھا۔ انھوں نے 2008 میں ن لیگ کے مخلوط پی پی حکومت چھوڑ کر جانے کے بعد مسلم لیگ ق سے بھی معاہدہ کیا تھا اور انھوں نے آئین میں درج نہ ہونے کے باوجود گیلانی حکومت کی اکثریت برقرار رکھنے کے لیے چوہدری پرویز الٰہی کو ڈپٹی وزیراعظم کا غیر آئینی عہدہ بھی دیا تھا۔

سیاست میں سیاسی مفادات اور حصول اقتدار کے لیے سیاسی پارٹیوں کو حلیف بنانا کوئی نئی بات نہیں۔ پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن ، ایم کیو ایم ، پی ٹی آئی اور جے یو آئی سیمت دیگر چھوٹی پارٹیاں بھی سیاسی حلیف بناتی رہی ہیں۔ 1971میں وزیراعظم بھٹو نے جے یو آئی اور اے این پی کو بلوچستان اور صوبہ سرحد میں حکومتیں بنانے دی تھیں اور وفاق، پنجاب و سندھ میں پی پی کی حکومتیں بنی تھیں مگر بعد میں ذوالفقارعلی بھٹو نے بلوچستان میں عطا اﷲ مینگل کی حکومت برطرف کرکے وہاں گورنر راج لگایا تھا ۔ دونوں صوبوں میں نیشنل عوامی پارٹی اور جے یو آئی نے مل کر حکومت بنائی تھی۔

ذوالفقارعلی بھٹو کے اس اقدام پر صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ مولانا مفتی محمود نے بھی بطور احتجاج استعفیٰ دے دیا تھا کیونکہ بلوچستان کا وزیراعلیٰ نیشنل عوامی پارٹی کا تھا جس کے بعد بھٹو نے دونوں چھوٹے صوبوں میں پی پی کی حکومت بنالی تھی۔ 1977 کے انتخابات کے موقع پر ذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف بننے والے آئی جے آئی اتحاد میں نیب اور جے یو آئی پیش پیش تھیں جس کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا تھا۔

مسلم لیگ ن اور پی پی کی وفاقی حکومتوں میں بھی صوبہ سرحد اور بلوچستان میں مخالف حکومتیں تبدیل کرائی گئیں۔ سیاسی حلیف اور سیاسی مفادات تبدیل ہوتے رہے۔ ملک میں پہلی بار 2008 میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے مل کر حکومت بنائی تھی۔ دونوں پارٹیوں میں ججز بحالی کا معاہدہ ہوا تھا جس پر عمل نہیں ہوا تھا جس پر ن لیگ، پی پی حکومت چھوڑ گئی تھی اور بعد میں وزیراعظم گیلانی نے مجبوری میں ججز بحال کیے تھے۔

صدر آصف علی زرداری حلیف بنانے کے لیے مشہور تھے ، انھوں نے پنجاب میں اپنی حکومت بنانے کے لیے گورنر راج لگایا تھا۔ وزیراعظم نواز شریف نے 1999میں سندھ میں اپنے ہی وزیراعلیٰ لیاقت جتوئی کو ہٹانے کے لیے گورنر راج لگایا تھا مگر انھوں نے اپنی تیسری حکومت میں سندھ اور کے پی کے میں گورنر راج لگایا اور نہ 2013میں کے پی میں پی ٹی آئی کو اپنی حکومت بنانے میں مداخلت کی جب کہ ن لیگ اور جے یو آئی مل کر وہاں اپنی مخلوط حکومت بنا سکتے تھے۔

ایم کیو ایم ، پی پی اور ن لیگ کی حکومتوں کے علاوہ مسلم لیگ ق اور پی ٹی آئی حکومتوں میں شامل رہی اور الگ بھی ہوتی رہی اور اپنا حلیف اور حریف بننے کا سلسلہ اس نے اپنی مرضی کے مطابق جاری رکھا اور حکومتوں سے علیحدگی پر کہا کہ ہمارے ساتھ کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے جاتے اور معاہدوں پر عمل نہیں ہوتا۔ آصف علی زرداری نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے ایم کیو ایم اور پی ڈی ایم میں معاہدہ کرایا تھا۔ پی پی کے ساتھ ایم کیو ایم معاہدے کے ضامن مولانا فضل الرحمٰن اور شہباز شریف تھے مگر معاہدے پر عمل نہیں ہوا۔

2013 کے بعد پی پی نے سندھ میں اپنی حکومت میں ایم کیو ایم کو اس لیے شامل نہیں کیا کہ سندھ میں پی پی کو اکثریت حاصل تھی اور ایم کیو ایم کو اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ پی ڈی ایم حکومت کے لیے پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم سے کچھ وعدے کیے تھے جو پورے نہ ہوئے اور اب بھی سندھ میں پی پی کو ایم کیو ایم کی ضرورت نہیں ہے۔

پی ڈی ایم حکومت میں شامل دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی نے فروری 2024میں جب معاہدہ کیا تو مولانا فضل الرحمٰن کو مکمل نظر انداز کیا بعدازاں نواز شریف مولانا سے ملنے گئے مگر تاخیر ہوچکی تھی اور مولانا ناراض ہیں۔

آصف علی زرداری نے صدر بننے کے لیے ن لیگ سے معاملات طے کرلیے اور ایم کیو ایم اور جے یو آئی کو نظر انداز کیا، حالانکہ سندھ میں پی پی کو اپنی حکومت میں ان کی ضرورت نہیں مگر سندھ کی بہتری کے لیے پی پی اور ایم کیو ایم کا مل کر چلنا ضروری ہے۔ پنجاب میں پی پی کا اور سندھ میں ن لیگ کا گورنر ہونے کا معاملہ طے ہوگیا ہے۔ ن لیگ اگر ایم کیو ایم کو اپنا یہ عہدہ دینا چاہے تو پی پی کا اعتراض نہیں بنتا۔

جے یو آئی بلوچستان میں پی پی اور ن لیگ کی مدد سے اپنا وزیر اعلیٰ لاسکتی تھی مگر پی پی نے وہاں نون لیگ کی مدد سے اپنا وزیراعلیٰ لانے کا فیصلہ کرکے مولانا کو اور سندھ میں ایم کیو ایم کے گورنر کی مخالفت کرکے دونوں کو ناراض کیا جو اس کے اہم حلیف تھے ، یہی آج کی سیاست ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔