قومی سیاست کی نئی تشریح کی ضرورت پہلا حصہ
آج کی حقیقت یہ ہے کہ بیسویں صدی کی روایتی‘ نوآبادیاتی اور دو قطبی دنیا کی قوم پرست سیاست کا دور گزر چکا ہے
پختون قوم پرست تحریک کی بے انتہا قربانیاں ہیں لیکن یہ کبھی اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی 'اس کی چند مثالیں' پاکستان کے اندر پختون آبادی کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ پاکستان کے اندر اس تقسیم کو ختم کرکے پختونوں کے لیے ایک متحدہ صوبے کا قیام رہا ہے'روایتی قوم پرست تحریک کے رہنما تین مواقع پر اس اہم مقصد یا ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے ' پہلا موقع اس وقت آیا جب جنرل یحییٰ ون یونٹ کے خاتمے کا اعلان کر رہا تھا۔
اس وقت 'پختون آبادی شمال مغربی سرحدی صوبے اور بلوچستان میں تقسیم تھی۔ شمال مغربی صوبے میں آگے فاٹا، پاٹا اور بندوبستی علاقے کی انتظامی تقسیم تھی' اس وقت این ڈبلیو ایف اور بلوچستان کے تختونوںپر مشتمل متحدہ صوبہ بنایا جاسکتا تھا لیکن پختون قوم پرست قیادت خاموش رہی ' دوسرا موقع اس وقت آیا جب قومی اسمبلی 1973کا آئین منظور کر رہی تھی۔
اس وقت بھی پوری قوم پرست قیادت ' متحدہ پختون صوبے کے حصول پر خاموش رہی'جب 18ویں آئینی ترمیم منظور ہو رہی تھی تو اس وقت بھی پوری پختون قیادت خاموش رہی ۔فاٹا کو بھی قوم پرستوں نے نہیں بلکہ فوجی قیادت نے خیبر پختونخوا میں ضم کرایا لیکن بلوچستان کے پختون اب تک بلوچ قوم کے ساتھ ایک صوبے میں رہ رہے ہیں'اس کے علاوہ 1972میں صوبہ سرحد میں سرکاری اردو قرار دی گئی حالانکہ اس صوبے کی اکثریتی آباد پشتو بولتی ہے ۔18ویں آئینی ترمیم پر خوشیاں منانے والے یہ حقیقت بھی جانتے ہیں کہ سابقہ صوبہ سرحد اور موجودہ خیبر پختونخوا صوبہ بجلی اور گیس کے محاصل پر اب تک غیر مطمئن ہے ۔
آج کی حقیقت یہ ہے کہ بیسویں صدی کی روایتی' نوآبادیاتی اور دو قطبی دنیا کی قوم پرست سیاست کا دور گزر چکا ہے' یہ از کار رفتہ نظریات' اب قوموں کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان پر بوجھ بن چکے ہیں'اب اکیسویں صدی'کثیر القطبی (Multi Polar)دنیا اور گلوبلائزیشن کے دور کی صورت حال سے نمٹنے اور اپنے قومی مسائل حل کرنے کے لیے '' نیشنل ازم کے جدید نقطہ نظر ''یا ''نیو نیشلزم'' کے مطابق سیاسی جدوجہد شروع کرنا وقت کی ضرورت ہے۔''نیونیشل ازم'' کی شکل کا تعین 'پختون دانشوروں کے باہمی صلاح مشورے سے کیا جا سکتا ہے 'بہر حال یہ ضرورت ہے کہ قومی سوال کی نئی تعریف کی جائے۔میرے ذہن میں ایک خاکہ بن رہا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ معاشروں کی ساخت اورقوم پرستی کی شکلیں بھی تبدیل ہوتی رہتی ہیں' پختون نیشنل ازم کی تحریک ہر دور میں موجود رہی ہے لیکن ان تحریکوں کی شکلیں بھی وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہی ہیں۔ پیر روخان کا نیشل ازم 'خوشحال خان کا نیشنل ازم اور پھر خدائی خدمتگار تحریک کا نیشلزم' تینوں کے زمانے الگ الگ تھے 'اس لیے ان کی شکلیں بھی جدا تھیںلیکن جذبہ ''اپنے قوم کی فلاح و بہبود اور اس کے مفادات کا تحفظ''ہی تھا ۔
میروس ہوتک کی ایرانی حکمرانی کے خلاف ہرات میں جدوجہد' پیر روخان اور اس سے قبل کے نیشل ازم کی شکلیں یقیناً مذہبی رنگ لیے ہوئی تھیں لیکن وہ قبائلی نظام کے نیشلزم کا اظہار تھا' خوشحال خان خٹک کے نیشلزم کا دور جاگیرداری اور قبائلی نظام کی مضبوطی اور بادشاہتوں کا دور تھا' خدائی خدمتگار تحریک کا نیشلزم سرمایہ داری نظام کی سامراجی شکل اختیار کرنے کا ''نو آبادیاتی دور'' کا تھا اور دنیا اس وقت دو قطبی(Bi Polar) تھی ۔خدائی خدمت گار تحریک اگر ایک مسلح پختون لشکر کے بجائے 'سیاسی پارٹی بنی اور امن پر مبنی' جمہوری جدوجہد کی راہ اپنائی 'تو یہ نوآبادیاتی دور اور برطانوی کلچر کی دین تھی۔
ایک قومیت ہونے کا تصور، سیاسی پارٹی کا قیام اور جمہوری جدوجہد' کیپیٹل ازم اور نوآبادیاتی طاقتوں کے کلچر اور قوانین کی بدولت ممکن ہوا'اگر برصغیر میں کانگریس اور مسلم لیگ جیسی جمہوری سیاسی جماعت قائم نہ ہوتیں تو'' خدائی خدمت گار تحریک'' بھی وجود میں نہ آتی۔ اگر دیکھا جائے تو خدائی خدمت گار انگریزی عملداری کے علاقوں میں جمہوری اور پرامن سیاسی تحریک چلارہے تھے لیکن وزیرستان میں فقیر ایپی 'ملاکنڈاور دیر میں، جندول کے عمراخان'ہڈے ملا صاحب اور علاقہ مہمند میں حاجی صاحب ترنگزئی انگریزی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد میں مصروف تھے کیونکہ یہ علاقے براہ راست انگریز سرکار کے سیاسی، قانونی اور معاشی نظام کے تحت نہیں تھے اور یہاں قدیم قبائلی نظام برقرار رکھا گیا تھا۔
اس تفصیل کا مقصدیہ ہے 'کہ قومی تحریک کو کسی فرد 'خاندان یا زمانے کے ساتھ مخصوص نہیںکیا جاسکتا 'پختون نیشلزم یا عدم تحفظ کے احساس کی بڑی وجہ یہاں کا جغرافیہ اور بیرونی حملہ آوروں کی مسلسل آمد بھی تھی'مختلف قبائل کو اپنی شناخت اور زمین بچانے کا مسئلہ صدیوں سے درپیش چلا آرہا ہے۔
اس لیے تحفظ اور بقاء کی جدوجہد ہر دور میں موجود رہی ہے اور ہر دور کے اپنے اپنے لیڈر یا رہنماء ہوتے ہیں' ماضی کے حالات اور تجربات سے سیکھ کر' موجودہ مرحلے اور معروضی صورت حال میں قوم پرست تحریک کا جائزہ اور اس کی صحیح سمت معلوم کرنا ہمارا مقصودہے 'اب تو صورت حال یہ ہے کہ'' روایتی قوم پرست اندھیرے کمرے میں کالی بلی تلاش کررہے ہیں'جو وہاں موجود ہی نہیں ہے۔فضول میںوقت اور توانائی ضایع کررہے ہیں۔''۔ (جاری ہے)