قومی سیاست کی نئی تشریح کی ضرورت دوسرا اور آخری حصہ
تعلیم یافتہ نسل کی نظروں میں آج بھی ہماری قومی تاریخ کے ہیرو غدار اور ہندوستان کے ایجنٹ کہلاتے ہیں
اس بات پر تو ہم متفق ہیں کہ ماضی کی قومی تحریکیں تو 'دور اور سماجی حالات بدلنے' کے ساتھ اپنا طریقہ کار اور اہداف بدلتی رہی ہیں۔
پیر روخان کی تحریک دہلی کی مغل سلطنت کے خلاف مذہبی جدوجہد تھی جو صوفی ازم کا رنگ لیے ہوئی تھی' خوشحال خان خٹک بھی مغل حکومت کے تیار کردہ طبقے کی بالادستی کے خلاف باقاعدہ ایک قبائلی جنگ تھی' خدائی خدمتگار تحریک انگریزی سیاسی نظام کے تحت ایک جمہوری سیاسی جدوجہد کی تحریک بن گئی' جس کا ہدف انگریز سامراج سے ہندوستان کوآزادی دلانا' بعدازاںیہ تحریک پاکستان میں چھوٹی قومیتوں خصوصاً پختونوں کے حقوق کی علمبردار رہی۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک لازوال تحریک چلانے کے باوجود بھی پختون اپنی قومیتی شناخت ، ثقافتی اور معاشی حقوق کے حوالے سے مسائل سے دو چار ہے' چند مسائل کا ذکر نا منا سب نہ ہوگا۔ معلوم تاریخ میں پختون قبائل کا مسکن کوہ ہندوکش کی جنوبی اور مغربی علاقوں تک رہا ' احمد شاہ ابدالی نے منقسم قبیلوں کو متحد کرکے غالباً پہلی پختون ریاست کی بنیاد ڈالی' اس وقت تک بھی یہ دہلی کی مغل سلطنت کا حصہ رہا۔
انگریزوں نے امیر عبدالرحمن والی افغانستان کی خواہش پر'ڈیورنڈ لائن کے اس پار خطے کو ہندوستان کے ساتھ شامل کرلیا' حقیقت میں امیر عبدالرحمان کے دور میں ڈیورنڈ لائن کے قیام کے بعد افغانستان ایک مستحکم اور مکمل ریاست کے طور پر ابھرا' انگریزی سامراج نے روس کو جنوبی ایشیا اور ایران سے دور رکھنے کے لیے افغانستان کی ریاست قائم کی۔
اس کی سرحدوں کا تعین کیا اور اس کے تحفظ کا ذمے اٹھایا' اب پختون قبیلے ہندوستان اور افغانستان کے دو حصوں میں تقسیم ہوگئے' انگریز سرکار نے ہندوستانی پختون اکثریتی علاقوں کی انتظامی تقسیم کی، یوں پختون آبادی شمال مغربی سرحدی علاقے ' فاٹا اور بلوچستان میں تقسیم ہوگئی۔ پاٹا کا بھی الگ اسٹیٹس تھا' اب تو شکر ہے کہ فاٹا اور پاٹا ختم ہو گئے ہیں اور خیبرپختونخوا کا حصہ بن گئے ہیں۔ قوم پرست سیاست کا سب سے اہم ہدف تو پختونوں کو متحد کرکے ایک ہی انتظامی یونٹ میں لانا تھا 'روایتی قوم پرست لیڈر شپ اس مقصد میں ناکام رہی ۔
قوم پرست تحریک چونکہ ابتداء ہی سے سامراج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد متحدہ ہندوستان کی حامی تھی'ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں خدائی خدمت گار تحریک آل انڈیا نیشنل کانگریس کے شانہ بشانہ رہی، اس لیے پاکستان کے قیام کے بعد یہ تحریک مسلسل پاکستانی حکمرانوں کی زیر عتاب رہی۔ قیام پاکستان کی مخالفت تو جماعت اسلامی، جمیعت العلماء اسلام سمیت بہت سی سیاسی پارٹیوں نے کی تھی لیکن ان سب جماعتوں کی قیادت نے اپنے آپ کو پاکستان کے حالات کے مطابق ڈھالنے میں دیر نہیں لگائی اور پاکستان کے مالک اور نظریہ پاکستان کے محافظ بن گئے۔
جب کہ قوم پرست غدار وطن رہے اور ان کو پاکستان کا اصلی شہری بھی ماننے سے انکار کیا گیا'اس لیے جنگ آزادی اور پاکستان میں جمہوری نظام کی مضبوطی کے لیے دی گئی قربانیاں تاریخ کے صفحات سے غائب رہیں 'روایتی قوم پرستوں کوبعد میں مواقع ملتے رہے' وہ حکومتوں کا حصہ بھی رہے لیکن آج تک پختونوں کی قربانیاں تاریخ کے صفحات سے خارج ہیں اور اس طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
تعلیم یافتہ نسل کی نظروں میں آج بھی ہماری قومی تاریخ کے ہیرو غدار اور ہندوستان کے ایجنٹ کہلاتے ہیں' لہٰذا جب تک ہم پاکستانی نہیں بنتے اور افغانستان کے مفادات سے خود کو الگ نہیں کرتے تو ہم کبھی اپنے قومی مسائل حل نہیں کر سکتے۔حالانکہ ہم یہ حقیقت جانتے ہیں کہ پختون پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ اس حوالے سے مزید باتیں اگلے کالم میں تحریر کروں گا۔