نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھیے

2024 کے انتخابات میں ان قوم پرست جماعتوں کو کامیابی سے دور کر دیا گیا


Dr Tauseef Ahmed Khan March 14, 2024
[email protected]

حالیہ انتخابات کے نتائج کے بعد مسلم لیگ ن اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کا تقریباً 33سال سے جاری اتحاد ختم ہوگیا۔ بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں پختون خواہ ملی پارٹی، نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی حزب اختلاف کی صفوں میں شامل ہوئیں۔

80ء کی دہائی میں پیپلزپارٹی کی چیئر پرسن بیگم نصرت بھٹوکی کوششوں سے جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے خلاف تحریک استقلال، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، بائیں بازو کی جماعت قومی محاذ، آزاد مزدورکسان پارٹی، عوامی تحریک اور پختون خوا ملی پارٹی، تحریک بحالی جمہوریت کے پلیٹ فارم پر متحد ہوئیں۔ میر غوث بخش بزنجو کی نیشنل پارٹی اس اتحاد کا حصہ بن گئی تھی۔

کالعدم نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما سردار عطاء اﷲ مینگل نے اور سردارخیر بخش مری نے یورپ میں جلاوطنی اختیارکی۔ جب ایم آر ڈی نے 1983میں تحریک بحالی جمہوریت شروع کی تو محمود اچکزئی نے اس تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت میں محمود اچکزئی کے وارنٹ جاری کیے گئے۔ ان کے گاؤں کا گھیراؤکیا گیا۔

محمود اچکزئی روپوش ہوئے اور جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے خاتمے کے بعد تک تقریباً 6 سال تک روپوش رہے اور زیرِ زمین مزاحمتی تحریک کو فعال کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ جنرل ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے میں ہلاکت کے بعد بے نظیر بھٹو نے ایم آر ڈی کو خدا حافظ کیا اور پیپلز پارٹی نے تنہا عام انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔

اخباری صفحات پر درج تاریخ گواہ ہے کہ پیپلز پارٹی قومی اسمبلی کے انتخابات میں اکثریتی ووٹوں سے کامیاب ہوئی۔ بے نظیر بھٹو کو مختصر عرصے کے لیے اقتدار مل گیا۔ اسی عرصے میں میرغوث بخش بزنجو جگر کے کینسر میں مبتلا ہوئے اور انتقال کرگئے۔

90ء کے انتخابات میں بلوچستان سے میر غوث بخش بزنجو کے صاحبزادے حاصل بزنجو اور بزن بزنجو کے علاوہ محمود خان اچکزئی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، یوں قوم پرست جماعتوں کا مسلم لیگ ن سے رومانس شروع ہوا۔ جب صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف حکومت کو برطرف کیا تو حاصل بزنجو اور محمود اچکزئی میاں نواز شریف کے ہم رکاب تھے۔ 1997میں میاں نواز شریف برسر اقتدار آئے تو حاصل بزنجو، اختر مینگل اور محمود اچکزئی نے مسلم لیگ ن کی حمایت کی۔ اس دوران مسلم لیگ ن کی حمایت سے سردار اختر مینگل بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہے۔

معروف تاریخ دان احمد سلیم اپنی کتاب '' ٹوٹتی بنتی اسمبلیاں اور سول ملٹری بیوروکریسی'' میں لکھتے ہیں کہ میر حاصل بزنجو اور محمود اچکزئی کی کوشش تھی کہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف جنرل ضیاء الحق دور میں آئین میں کی گئی آٹھویں ترمیم کے خاتمے پر تیار ہوجائیں تاکہ صدرکا اسمبلیاں توڑنے کا اختیار ختم ہوجائے اور پارلیمنٹ مکمل طور پر بااختیار ہو جائے، یوں ان رہنماؤں کی کوششوں سے میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو میں بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا۔

احمد سلیم لکھتے ہیں کہ میاں نواز شریف نے پی ڈی اے کے سید افتخار گیلانی اور پختون ملی عوامی پارٹی کے محمود اچکزئی کو لندن بھیجا، تاکہ پیپلز پارٹی کی قیادت سے اس معاملے پر اتفاق رائے ہوجائے اور آئینی ترمیم کے لیے تمام جماعتیں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ احمد سلیم نے مزید لکھا کہ اس ٹیم نے بے نظیر بھٹو کو پیشکش کی تھی کہ مسلم لیگ ن بدین سے آصف زرداری کو ضمنی انتخاب میں صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب کرانے کے لیے تیار ہے تاکہ آصف زرداری سندھ کے وزیر اعلیٰ بن سکیں اور پیپلز پارٹی کے منحرف رہنما جام صادق کی حکومت کا خاتمہ ہوسکے۔

اس ٹیم نے لندن میں بے نظیر بھٹو سے ملاقات کی تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے آٹھویں ترمیم کی منسوخی کے بل کا حکومتی مسودہ لانے کوکہا اور محترمہ نے واضح کیا کہ وہ فقط صدر کے اسمبلی توڑنے کے اختیار کے خاتمے کے لیے نہیں بلکہ پوری ترمیم کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔ اس وقت فاروق لغاری بے نظیر بھٹو کے قریب تھے۔ فاروق لغاری اور چند دیگر رہنماؤں نے صدر غلام اسحاق خان کو اس صورتحال سے آگاہ کیا، یوں افتخار گیلانی اور محمود خان اچکزئی کا مشن ناکام ہوا۔

1997کے انتخابات میں میاں نواز شریف بھاری اکثریت سے وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔ حاصل بزنجو اور محمود خان اچکزئی وغیرہ نے نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان آٹھویں ترمیم کے آئین سے خارج کرنے کے لیے کوشش کی اور دونوں جماعتوں کے اتفاق رائے سے صدرکا منتخب اسمبلیاں توڑنے کا اختیار ختم ہوا۔ اس وقت کے صدر فاروق لغاری کو صدارت سے مستعفیٰ ہونا پڑا۔

جب جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف حکومت کو برطرف کیا تو ان ہی قوم پرست جماعتوں نے غاصبانہ اقدام کے خلاف احتجاج کیا۔ نیشنل پارٹی کے رہنماؤں حاصل بزنجو وغیرہ نے سب سے پہلے کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس منعقد کی تھی اور جنرل پرویز مشرف کے اقدام کو غاصب قرار دیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اختر مینگل کو مہینوں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں کراچی پریس کلب سے میر حاصل بزنجو، یوسف مستی خان سمیت متعدد افراد کوگرفتارکیا گیا۔

2013 میں میاں نواز شریف وزیر اعظم بن گئے تو بلوچستان میں گورنر شپ پختون ملی عوامی پارٹی کو اور وزیر اعلیٰ نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک کو بنایا گیا۔ 2018 کے انتخابات میں ایک منصوبے کے تحت تین قوم پرست جماعتوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے میر حاصل بزنجو کو سینیٹ چیئرمین کے انتخاب کے لیے نامزد کیا، جب سینیٹ کا اجلاس شروع ہوا تو سینیٹروں کی اکثریت نے کھڑے ہوکر میر حاصل بزنجو کے ساتھ یکجہتی کا اظہارکیا، مگر خفیہ رائے شماری میں حاصل بزنجوکو شکست ہوئی۔ حاصل بزنجو نے اس بارے میں ویسی ہی تقریرکی جیسی تقریرگزشتہ دنوں محمود اچکزئی نے کی تھی۔

تحریک انصاف کے دور میں مخالف سیاسی اتحاد پاکستان جمہوری اتحاد PDM قائم ہوا تو یہ قوم پرست جماعتیں اس اتحاد میں سب سے زیادہ فعال ہیں۔ میاں نواز شریف کے '' ووٹ کو عزت دو '' کے نعرے کو سب سے زیادہ ان جماعتوں کے کارکنوں کو عوام تک پہنچایا، پھر دور تبدیل ہوا۔ میاں نواز شریف سرکاری پروٹوکول میں لندن سے واپس آئے۔ انھوں نے '' ووٹ کو عزت دو '' اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے بارے میں اظہار خیال سے گریز کرنا شروع کیا۔

2024 کے انتخابات میں ان قوم پرست جماعتوں کو کامیابی سے دورکردیا گیا۔ اب مسلم لیگ ن کا اتحاد پیپلز پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی سے ہوا۔ تاریخ بھی عجب ہے کہ 2018ء میں سب سے پہلے بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے خاتمے کے لیے باپ پارٹی وجود میں آئی تھی۔

اب شہباز شریف وزیر اعظم ہیں اور ان کے اتحادی تبدیل ہوچکے ہیں۔ پہلے محمود خان اچکزئی کی تقاریر پر تحریک انصاف والے احتجاج کرتے تھے اور محمود خان پر الزامات لگاتے تھے۔ اب یہ کام مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے رہنما کر رہے ہیں مگر اس تبدیل شدہ صورتحال میں کیا پارلیمنٹ کی حاکمیت قائم ہوجائے گی؟ محسن بھوپالی کا یہ شعر اس صورتحال کی حقیقی عکاسی کرتا ہے۔

نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھیے

منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں