جادوئی تھپڑ
جس کا نام سیاست ہے اور اس تھپڑ کا نام الیکشن 2024 ہے
پڑوسی ملک کی فلموں اور ڈراموں میں اکثر دیکھا جاتا ہے کہ کوئی خاتون کسی بات پر غصے میں آتی ہے تو بے طرح چیخنے چلانے لگتی ہے، لوگ اسے چپ ہونے کے لیے کہتے ہیں اور وہ مزید چڑتی جاتی ہے ،آواز اونچی ہوتی چلی جاتی ہے اور ہسٹریائی کیفیت میں آپے سے باہر ہوتی چلی جاتی ہے، پھر اچانک کسی صاحب کو وہ مشہور و معروف اور تیربہدف نسخہ یاد آجاتا ہے اور وہ ایک تھپڑ اس اداکارہ کو رسید کرتا ہے اس تھپڑ میں نہ جانے کیا جادو ہوتا ہے کہ وہ آتش فشاں اداکارہ ایک دم پتھر کا بت ہوجاتی ہے۔
خاموش، بے حس وحرکت، بے جان۔ اس کے ساتھ ہی وہ قیامت کا شور بھی تھم جاتا ہے اور بیک گراؤنڈ میوزک بھی۔ کچھ دیر سناٹا طاری رہتا ہے اور پھر وہ خاتون بلکہ خاتون کے بت میں جان پڑتی ہے اور ایک طرف کو تیزی سے چلتی ہوئی غائب ہوجاتی ہے۔ ایسا اکثر اس وقت ہوتا ہے،جب وہ شوہر پر کچھ شک یا الزام لگاکر اس پوزیشن میں آتی ہے، پھر وہ نہ دیکھتی ہے نہ سنتی ہے نہ کسی کا لحاظ کرتی ہے، بس چلاتی چلی جاتی ہے۔ معلوم نہیں پڑوسی ملک کے ماہرین نے یہ کمال کا تجربہ کہاں سے حاصل کیا ہے یا ایجاد کیا۔بس ایک تھپڑ۔اور سب کچھ خاموش۔لیکن ہم آج اس تھپڑ کی بات کررہے ہیں جو کسی بھارتی فلم یا ڈرامے میں نہیں گونجا بلکہ اپنے ہاں کے اس ڈرامے میں جلوہ گر ہوا ہے جو پچھلے 77 سال سے اپنے یہاں اسٹیج ہو رہا ہے۔
جس کا نام سیاست ہے اور اس تھپڑ کا نام الیکشن 2024 ہے۔ کتنا شور تھا، کتنا ہنگامہ تھا، کتنا حشر نشر تھا،کونسا منہ تھا جو آگ نہیں اگل رہا تھا، کونسی زبان تھی جو لپلپا نہیں رہی تھی، کون سے ہاتھ تھے جو''مکا'' بن کر لہرا نہیں رہے تھے،کونسا شہر تھا،کون سا گاؤں تھا ،کونسا کوچہ تھا ،گلی تھی، بازار تھا ،گھر، محلہ تھا جو اس قیامت کی لپیٹ میں نہیں تھا۔ایسا لگتا تھا جیسے لوگ سنتے سنتے بہرے ہوجائیں گے لیکن بولنے والے چپ نہیں ہوں گے کہ 8فروری2024ء کو وہ تھپڑ پڑا اور''پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی''۔
ماننا پڑا کہ پڑوسی ملک کا ایجاد کردہ اور بکثرت استعمال ہونے والا یہ فلمی نسخہ تیربہدف اور رام بان نسخہ ہے،صرف ڈرامائی یا فلمی نسخہ نہیں ہے کیونکہ تھپڑ کے پڑنے پر ایک دوسرا نتیجہ بھی دیکھنے میں آیا اور وہ دوسرا فلمی نتیجہ یا نسخہ ''یاداشت''جانے کا ہے۔یا یاداشت چلے جانے کے اس فلمی نسخے کا کمال یہ ہے کہ مریض کے دماغ کا صرف وہ حصہ غائب ہوجاتا ہے جو پروڈیوسر غائب کرنا چاہتا ہے، وہ لوگوں کو، قریبی عزیزوں کو اور اہم ترین واقعات کو یکسر بھول جاتا ہے اور آنکھیں کھولتے ہی ''میں کہاں ہوں ؟یہ کونسی جگہ ہے؟ میں کون ہوں؟'' کی گردان کرنے لگتا ہے۔لیکن یہاں پر ہدایتکار یہ حقیقت نظرانداز کردیتا ہے کہ جب ایک اداکار سب کچھ بھول چکا ہے تو اپنی زبان اور باتیں کرنا کیوں نہیں بھول گیا ہے۔
وہ بڑے آرام سے اسی زبان میں بولتا ہے جو اس فلم یا ڈرامے کی ہوتی ہے اور وہ جو اس سے پہلے بول رہا ہوتا ہے،میں کون ہوں؟ میں کہاں ہوں کہ الفاظ اسے کیوں اور کیسے یاد رہ گئے۔ مطلب یہ کہ ایک وہ معجزاتی تھپڑ اور دوسرا یہ معجزاتی یادداشت کھونا۔جنھیں ہم فلمی سمجھتے تھے، حقیقی نکلے۔ وہ جو بڑھ بڑھ کر بول رہے تھے اور ایسے بول رہے تھے جسے بولنے کی مشین ہوں، ایسے اچانک چپ ہوجائیں گے،کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ ایک شکاری نے ایک پیڑ پر ایک گھوگی کو گوگو کرتے دیکھا تو اس پرنشانہ باندھا، نشانہ تو خطا ہوگیا اور گھوگی اڑ گئی۔دیکھنے والوں نے کہا،'' وہ تو بچ گئی، وہ اڑگئی''۔ شکاری نے کہا، ''ہاں بچ گئی اوراڑ گئی لیکن اب زندگی بھر ''گوگو'' نہیں کرے گی''۔ معلوم نہیں کہ وہ گھوگی پھر بولی ہوگی یا نہیں لیکن یہ اپنے ہاں کی گھوگیاں ہمیشہ کے لیے گونگی ہوگئی ہیں خاص طور پر ان میں ''چند'' جو سب سے زیادہ''گھوگھو'' کرتی تھیں۔
بلکہ سنا ہے کہ کچھ تو۔ ''میرے بچے مجھے کیا پتہ تھا'' کہ نغمے بھی الاپ رہی ہیں۔ کسی جھنڈ میں چھپ کر یا کسی اونچے پیڑ کی اونچی شاخ پر بیٹھ کر۔''میرے بچے مجھے کیا خبر تھی''۔اس کے پیچھے کہانی یہ ہے کہ گھوگیوں کی ایک بہت چھوٹی سی قسم جنھیں پشتو میں''گوگڑہ'' کہتے ہیں، یہ جسامت میں دوسری گھوگیوں سے چھوٹی ہوتی ہے اور اس کا رنگ بھی سبز خاکستری کے بجائے لال خاکستری ہوتا ہے، یہ جب بولتی ہے تو آواز میں بے پناہ دکھ، پشیمانی اور غم گیتی ہوتی چنانچہ لوگوں نے اس کے بولنے کو یہ معنی دیے ہیں کہ''میرے بچے، مجھے کیا خبر تھی۔''کہانی یہ ہے کہ یہ گڑگڑہ کسی باغ سے انگور لاکر جمع کرتی تھی کہ آف سیزن میں کام آئیں اور ان انگوروں کی چوکیداری اس نے اپنے بیٹے کو دے رکھی تھی بچہ نہایت ایمانداری سے چوکیداری کرتا تھا لیکن شکی مزاج ماں کو شبہہ ہوگیا کہ بچہ انگور چوری کرکے کھا لیتا ہے۔
چانچہ اس نے اب انگور تول تول کر بیٹے کی تحویل میں دینا شروع کیے، ظاہر ہے سوکھ جانے پر کشمش بننے کی وجہ سے وزن کم ہوجاتا تھا لیکن احمق گھوگڑہ یہ نہیں جانتی تھی اور اس نے بچے پر چوری کا الزام لگا کر عین سر پر وہ وہ ٹھونگے مارے کہ بیچارا ''گھوگوشہزادہ'' مرگیا۔پھر گھوگڑہ نے خود نگرانی کرکے انگور سکھائے تو وہ بھی کم نکلے۔ دوسرے دانا پرندوں سے مشورہ کرنے کے بعد جب اسے پتہ چلاکہ جتنے انگور ہوتے ہیں، سوکھنے پر کشمش اتنا نہیں نکلتا اور میں نے ناحق اپنے بچے کو مار ڈالا۔اس لیے اب وہ یہی نوحہ گاتی پھرتی ہے کہ میرے بچے مجھے کیا خبر تھی۔
ان سیاسی گھوگیوں سے بھی اگر کوئی کہتا کہ یہ جو سامنے تم انگوروں کے بڑے بڑے ڈھیر دیکھ رہے ہو۔یہ ''سوکھنے'' پر مٹھی بھر رہ جائیں گے تو ہر گز نہ مانتے، ان میں تو کچھ بالکل وہی بے خبر گھوگی ہوتے ہیں جو جلسوں سے غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں حالانکہ اب ان ہی گھوگیوں ہی سے سیکھ کر لوگ اتنے سیانے ہوگئے ہیں کہ جسے ووٹ دیتے ہیں، اس کے جلسے میں نہیں جاتے اور جن کو نہیں دینا ہوتا ہے ان کے جلسوں میں منہ سے جھاگ اڑا اڑا کر زندہ باد مردہ باد کرتے ہیں۔ امید ہے اب کے جو فلمی تھیڑ ان کے منہ پر پڑا ہے، اس سے ان کو مستقل چپ لگ جائے گی۔