سندھ میں قانون کی پہلی سرکاری یونیورسٹی میں مالی بے ضابطگیاں اور اکیڈمک بے قاعدگیاں
یونیورسٹی قریب 6 ماہ سے مستقل سربراہ سے بھی محروم ہے
سندھ میں سرکاری سطح پر قائم کی گئی "قانون"کی پہلی یونیورسٹی میں مالی بے قاعدگیاں اوراکیڈمک وانتظامی معاملات میں بدانتظامیاں سامنے آئی ہیں۔
یونیورسٹی قریب 6 ماہ سے مستقل سربراہ سے بھی محروم ہے یہ بے قاعدگیاں اوربدانتظامی حالیہ برسوں میں رپورٹ ہوئی ہیں اورانکشاف ہواہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے طلبہ اوراکیڈیمیاکے لیے قائم انڈوومنٹ فنڈ تنخواہوں اورقرضوں کے اجرا میں استعمال کیا ہے ڈاکٹریٹ کرنے والے غیرتدریسی ملازمین کوغیرقانونی طورپراساتذہ کی طرز پر پی ایچ ڈی الاؤنسز دیے جارہے ہیں پی ایچ ڈی تفویض کرنے والے ادارے "بورڈآف ایڈوانس اسٹڈیز اینڈ ریسرچ"میں غیرتدریسی ملازمین کوشامل کرلیاگیاہے۔
یونیورسٹی میں مروجہ تناسب سے زیادہ ملازمیں بھرتی کرلیے گئے ہیں جبکہ وائس چانسلرنے وزیراعلیٰ کے اختیارات کواستعمال کرتے ہوئے خود ہی ڈین کی تقررکرڈالی۔ مذکورہ انکشافات سندھ ایچ ای سی کے ماتحت ادارے چارٹرانسپیکشن اینڈایویلیوایشن کمیٹی کے معائنے کے موقع پر ہوئے ہیں جسے اب "معائنہ رپورٹ"کاباقاعدہ حصہ بنالیاہے۔
یاد رہے کہ شہید جمہوریت کے نام پر قائم کی گئی قانون کی پہلی سرکاری یونیورسٹی "ذوالفقار علی بھٹویونیورسٹی آف لا (زابل) کراچی" ZABUL کا قیا م سن 2015میں اسمبلی چارٹرکے ذریعے ہواتھا اوراس کے پہلے وائس چانسلر جسٹس(ر)قاضی خالد تھے تاہم ان کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں ہوپائی اورازاں بعدحکومت سندھ نے جسٹس (ر) رانا شمیم کویونیورسٹی کاوائس چانسلرمقررکردیا۔
ان کی مدت ملازمت بھی گزشتہ برس کے وسط میں پوری ہوچکی ہے۔ حکومت سندھ نے انھیں بھی توسیع نہیں دی اورحال ہی میں ختم ہونے والی نگراں سندھ حکومت نے ایک میڈیکل یونیورسٹی"ڈاؤمیڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلرڈاکٹر سعید قریشی کواس ادارے کااضافی چارج دے دیاگیا۔
یونیورسٹی انتظامی بنیادوں پر بھی ایڈہاک ازم کاشکارہے سندھ کی سرکاری جامعات میں وائس چانسلرکے ناموں کی سفارش کرنے والی تلاش کمیٹی search committee نے اس یونیورسٹی میں وائس چانسلرکے امیدواروں کے انٹرویوزکے سلسلے میں بطورکوآپٹیڈرکن ایکسپرٹس کے نام نگراں وزیراعلیٰ کوبھیج رکھے تھے تاہم نام منظورہوئے نہ ہی تلاش کمیٹی وائس چانسلرکے تقررکے لیے اپنا کام شروع کرسکی اورخیال کیاجارہا ہے کہ پیپلزپارٹی کے ایک دورحکومت میں قائم اس یونیورسٹی نے اسی پارٹی کی دوسرے دورحکومت میں اپنے عروج کے بعد زوال بھی دیکھ لیا۔
واضح رہے کہ موجودہ چیئرمین سندھ ایچ ای سی کے دورمیں پہلی بار صوبے میں قائم نجی کے ساتھ ساتھ سرکاری جامعات کے انسپیکشن کاسلسلہ بھی شروع کیاگیاہے اوریہ پہلا موقع تھا جب کسی سرکاری اتھارٹی نے چیئرمین سندھ ایچ ای سی ڈاکٹرطارق رفیع کی سربراہی میں ذوالفقار علی بھٹویونیورسٹی آف لاء کاانسپیکشن کیا۔ انسپیکشن ٹیم میں سبجیکٹ ایکسپرٹ علاوہ جامعات کے سربراہوں میں جناح سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹرامجد سراج،سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کے وائس چانسلرڈاکٹرفتح مری، جامعہ کراچی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر خالد عراقی، سندھ یونیورسٹی جامشوروکے وائس چانسلرڈاکٹرطحہ حسین جبکہ محکمہ کالج ایجوکیشن کے فقیر لاکھوکوبھی شامل کیاگیاتھا۔
ادھراس صورتحال پر جب "ایکسپریس"نے یونیورسٹی کے رجسٹراربریگیڈیئر (ر) کامران جلیل سے رابطہ کرکے ان کامؤقف جاننے کی کوشش کی توان کاکہنا تھا کہ "وائس چانسلر کی تعیناتی میں تاخیر کے حوالے سے محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز سے سوال کیا جائے ان کا کہنا تھا کہ مستقل وائس چانسلر کی عدم موجودگی میں بھی یونیورسٹی ٹھیک چل رہی ہے یونیورسٹی رجسٹرار سے جب انڈوومنٹ فنڈز کے غلط استعمال اور دیگر معاملات پر چارٹر انسپیکشن کمیٹی کی آبزرویشن سے متعلق پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ آپ کو کون بتارہا ہے اس میں حقیقت نہیں مزید سوالات کے لیے یونیورسٹی پی آر او سے رابطہ کرلیں"
ادھر یونیورسٹی کے قائم مقام پی آر او سے جب رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ "یونیورسٹی میں تمام معاملات قانون و اصول کے مطابق اوف مطلوبہ منظوریوں کے ساتھ چلائے جارہے ہیں"
واضح رہے کہ چارٹرانسپیکشن کمیٹی کے ایک رکن کے مطابق یونیورسٹی کی انسپیکشن رپورٹ میں وہاں تمام پائی جانے والی بے قاعدگیوں اوربے ضابطگیوں کوواضح کیاگیاہے اوررپورٹ اراکین نے اپنی آبزرویشن میں بتایاہے کہ یونیورسٹی میں سنگین مالی بے قاعدگیاں serious financial irregularitiesسامنے آئی ہیں یونیورسٹی نے پبلک فنڈکاغیرقانونی استعمال کیاہے جبکہ اکیڈمک استعمال کے لیے قائم انڈومنٹ فنڈزکاکسی غیرمتعلقہ مد میں استعمال ایک سنجیدہ جرم ہے یہ بھی بتایاگیاہے کہ یونیورسٹی کی فنانس اینڈپلاننگ کمیٹی کااجلاس وزیراعلیٰ کے نامزدرکن کے بغیرہی کیاجاتاہے ایڈوانس تنخواہیں اوراعزازیے مجاز اتھارٹی کی اجازت یا منظوری کے بغیرجاری ہوتے ہیں۔
یونیورسٹی کے قانونی اداروں statutory bodieکے حوالے سے انکشافات سامنے آئے ہیں کہ قیام سے اب تک یونیورسٹی کے کوالٹی انہاسمنٹ سیل (کیو ای سی) کے لیے کوئی مستقل ڈائریکٹرمقررہی نہیں کیاگیاایڈوانس بورڈ آف ریسرچ میں جواراکین شامل ہیں جواس کے قانونی تقاضے پوری ہی نہیں کرتے ایکٹ کے مطابق صرف وائس چانسلر،ڈین،چیئرمین اورپروفیسراس ادارے کے رکن ہوسکتے ہیں جبکہ ادارے میں آفس اسٹاف اورکوچیئرمین بھی شامل کرلیے گئے ہیں یونیورسٹی میں شعبہ جاتی سطح پر بورڈآف اسٹڈیز موجود نہیں ہے اورمعاملات براہ راست بورڈ آف فیکلٹی میں پیش کردیے جاتے ہیں یہ بھی معلوم ہواہے کہ statutesمیں گنجائش نہ ہونے کے باوجود یونیورسٹی میں بزنس اسکول موجود ہے۔
اساتذہ کی تقرریوں کے سلسلے میں بتایاگیاہے کہ ایسوسی ایٹ پروفیسرکی تقرری ایچ ای سی ضوابط کے برعکس کی گئی ہے ایسوسی ایٹ پروفیسر کو اضافی معاوضہ extra remuneration کے طورپر 75ہزار روپے بھی دیے جارہے ہیں جبکہ غیرتدریسی عملے کو پی ایچ ڈی الاؤنس دیاجارہاہے یونیورسٹی ایکٹ میں کوچیئرمین کی پوزیشن موجود نہ ہونے کے باوجود یہاں اس عہدے کااستعمال کیاجارہاہے مزیدبراں یونیورسٹی کے اسلام آباد،سکھر،لاڑکانہ اورحیدرآباد کیمپس پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں اورپوچھاگیاہے کہ ایک صوبائی چارٹرکی حامل یونیورسٹی وفاقی دارالحکومت میں کس طرح اپنا کیمپس قام کرسکتی ہے۔
یونیورسٹی میں ضابطے کے برخلاف اورضرورت سے زائد غیرتدریسی ملازمین کی تقرریوں کابھی انکشاف ہواہے جن میں مستقل اورایڈہاک دونوں طرح کے ملازمین شامل ہیں جبکہ شعبہ جرمیات criminologyمیں فیکلٹی کی کمی ہے قاعدے کے تحت یونیورسٹی میں اساتذہ ملازمین کاتناسب 1:1.5ہونا چاہیے جبکہ اس یونیورسٹی میں مذکورہ تناسب 1:2.4تک جاچکاہے اور191ملازمین میں 52اساتذہ ہیں یہ بھی بتایاگیاہے کہ سینڈیکیٹ کی جانب سے دوسینئرپروفیسرزکواس لیے خارج کردیاگیاہے کہ وہ استحقاق سے زائد تنخواہوں اورمراعات لے رہے تھے تاہم یونیورسٹی کے پاس انھیں دیے گئے زائد فنڈواپس لینے کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔
اسی طرح یونیورسٹی کی متعلقہ صنعتوں سے شراکت industry partnerships اوربین الاقوامی روابطinternational linkages انتہائی محدود ہیں جامعہ کوطلبہ کی انٹرن شپ کے لیے ان روابط کواستوارکرناہوگا۔
"ایکسپریس"نے اس سلسلے میں سندھ ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹرطارق رفیع سے رابطہ کیاتوان کاکہناتھاکہ"لاء یونیورسٹی میں کوئی مستقل وی سی نہیں ہے سابق نگراں حکومت نے ایک میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو یہاں کا چارج دے دیا جب کہ ہم نے سمری بھیجی تھی کہ ایک متعلقہ شخص جامعہ کراچی کے ڈین آف لاء کا یہاں کا چارج دے دیا جائے۔
انھوں نے سوال کیا کہ ایک میڈیکل یونیورسٹی کا وائس چانسلر لاء یونیورسٹی میں کیسے تبدیلیاں لائے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ سابق وائس چانسلر کی مدت ملازمت ختم ہونے سے قبل ہی سمری بجھوائی تھی کہ یہاں اشتہار کے ذریعے بھرتی کا سلسلہ شروع ہوسکے لیکن اشتہار کے بعد سرچ کمیٹی میں دو ماہر اراکین کی تقرری کی سمری پڑی رہ گئی کئی ماہ ہوگئے اس سمری کو منظور ہی نہیں کیا گیا۔ انھوں نے تصدیق کی کہ سابق وائس چانسلر کی تنخواہ غیر معمولی تھی جو شاید سندھ ہی نہیں پورے پاکستان میں پبلک سیکٹر کی سب سے زیادہ تنخواہ ہوگی"۔