پچھلے دنوں ''عورت حقوق'' کے حوالے سے حیدرآباد سے ایک پوسٹر'مزاحمت اور امید' کے نام سے چھاپا گیا، جب میری توجہ طلبہ حقوق اور عورت حقوق میں سرگرم نوجوان رہنما کامریڈ لیلیٰ رضا نے اس جانب دلوائی تو میں اس پوسٹر کو دیکھ کر ششدر رہ گیا،اس پوسٹر میں مجھے یوں لگا جیسے کہ سندھ عورت کے حقوق کی مزاحمتی تحریک کے مثبت کردار میں نسل پرستی کا منفی عنصر بھی شامل کیا جا رہا ہے۔
اس پر کوئی اختلاف نہیں کہ مذکورہ پوسٹر میں جدوجہد کرنے والی خواتین نہ صرف لائق احترام بلکہ عورت حقوق کی حقیقی ترجمان ہیں، مگر ان خواتین کو ملکی دیگر خواتین جدوجہد میں متحرک خواتین سے الگ کرکے پیش کرنا کسی طور مناسب نہیں، ایسی سوچ اور عمل متحرک خواتین کی طاقت کو مضبوط کرنے کے بجائے ملکی خواتین سے دور کر کے انہیں نہ صرف تقسیم کر رہا ہے بلکہ سندھ کی رسم و روایت میں جکڑی عورت کی مزاحمتی تحریک کو کمزور کر رہا ہے۔
ہمارے ملک کی یہ سیاسی بدقسمتی رہی ہے کہ یہاںعوامی حقوق کے غاصبوں نے باشعور سیاسی نسل پنپنے ہی نہ دی اور ان جمہوریت دشمنوں نے اپنے گروہی مفادات کے خاطر ایک ایسا لولا لنگڑا اور تنگ نظر سماج بنایا جس کو وڈیرے اور جاگیردار کے مفادات کے لیے رسم و روایت میں قید کر دیا اور عورت سمیت عام انسان کو ''دولت کی طاقت'' کا غلام بنا دیا،جس سے پورا سماج دہرے عمل کا شکار ہو کر آج صرف منتشر اور بے ترتیب نظر آتا ہے۔
دوسری جانب اس وقت تحریک انصاف عوام کو منتشر کرکے مزاحمت کے نام پر تحریک چلانے کا عندیہ دے رہی ہے،تحریک انصاف کی مزاحمتی تحریک کے ضمن میں یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیا واقعی تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت بننے کی کوشش کررہی ہے یا محض '' اشرافیہ'' سے دوبارہ اقتدار میں لانے کی جستجو کر رہی ہے، اس سلسلے میں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں بلکہ 2013 کے دھرنے سے لے کر مینار پاکستان کے جلسے اشرافیہ کی مدد و تعاون کے ٹھوس ثبوت سے حالیہ سیاسی تاریخ بھری پڑی ہے،جس میں عمران خان کو عدالتی ریلیف ملا یا عمران خان کے دور اقتدار میں مسلسل ''ایک پیج'' کا ڈنکا پیٹنا ،جس کے اثرات آج کے سیاسی ماحول میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
اس تمام تر صورتحال میں تحریک انصاف کی جانب سے حکومت کے خلاف ''مزاحمتی تحریک'' چلانے کا عندیہ سوائے ملک میں سیاسی انتشار پھیلانے اور اشرافیہ کو زیادہ فرمانبردار ہونے کا یقین دلانے کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا، کیونکہ تحریک انصاف حکومت کے ساڑھے تین برس اقتدار میں متفقہ آئینی اٹھارھویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی کوششیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں جبکہ موجودہ ''کمزور معاشی'' صورتحال میں منتخب حکومت سے آئین کی اٹھارھویں ترمیم ختم کروانے یا اس میں ردو بدل کے لیے آئی ایم ایف کے ذریعے صوبوں کے اختیارات کم کروانے کی کوششیں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔
اس پورے گنجلک سیاسی ماحول میں تحریک انصاف کی جانب سے ''مزاحمت کی تحریک''کا عندیہ دراصل اشرافیہ کی طاقت کو مضبوط کرنے اور خود کو پیش کرنے کے علاوہ اور کچھ دکھائی نہیں دیتا جبکہ ملک میں کمزور سیاسی اور معاشی نظام میں تحریک انصاف کی مذکورہ دھمکی انتشار اور افراتفری کے ذریعے آمرانہ نظام کی مضبوطی کے علاوہ شاید کچھ نہیں چاہتی کیونکہ مزاحمت کی آڑ میں انتشار ہی تحریک انصاف کی فاشسٹ سوچ کو تسکین فراہم کرنے کا ذریعہ ہوسکتی ہے۔
مزاحمتی تحاریک کے سلسلے میں تاریخ کے محقق اور استاد ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ جہاں آمرانہ حکومتیں قائم ہوئیں، وہاں ایک مرتبہ پھر مزاحمتی تحریکوں کا آغاز ہوا جنہیں آزاد ملکوں کے اہل اقتدار نے سختی سے کچلا۔ مگر اس کے باوجود یہ تحریکیں بار بار ابھرتی ہیں، اور عوام کی آزادی اور حقوق کی آواز بلند کرتی ہیں۔
ہمارے سامنے برما کی مثال ہے کہ یہاں فوجی حکومت جمہوری اور آزادی کے جذبہ کو ختم نہیں کرسکی۔ ایک ملک کی مزاحمتی تحریک، دوسرے ملکوں کے لوگوں میں نہ صرف دستور کی آگہی پیدا کرتی ہے بلکہ ان میں جذبہ و جوش پیدا کرتی ہیں کہ وہ اپنے ملکوں میں آزادی کی جدوجہد کو شروع کریں۔ آج کے دور میں یہ تحریکیں چاہے لاطینی امریکا میں ہوں یا ایشیا و افریقہ میں، یہ کچلے ہوئے اور پسے ہوئے عوام میں ایک نئی توانائی اور طاقت دیتی ہیں۔
ماضی کی مزاحمتی تحریکیں تاریخ میں زندہ رہتی ہیں۔ اور آنے والی نسلوں کے لیے ماڈل بن جاتی ہیں، وہ انہیں تاریخ کے صفحات سے نکال کر حال میں لے آتی ہیں، اور ان کی روشنی میں جدوجہد کو آگے بڑھاتی ہیں۔ وہ رہنما کہ جنہوں نے تحریکوں کے لیے جانیں دی ایک بار پھر بطور ہیرو سامنے آتے ہیں۔ اسپارٹیکس کہ جس نے سلطنت روم کے خلاف غلاموں اور باغیوں کی رہنمائی کی وہ انیس سو ساٹھ اور انیس سو ستر کی دہائیوں میں یورپ کی مزاحمتی تحریکوں کا ہیرو بن گیا اور ان کے نام سے قائم تنظیم نے سماج میں انقلابی خیالات کا پرچار کیا۔
چے گویرا، پوری دنیا میں انقلاب کی علامت کے طور پر ابھرا، آج بھی چے گویرا کا نام لوگوں میں جذبہ و جوش اور انقلاب کی لگن پیدا کرتا ہے۔ بھگت سنگھ ایک دہشت گرد کی بجائے کولونیل تاریخ سے باہر آیا اور برصغیر کے لوگوں کے لیے باعث فخر ہوگیا۔ یہ راہنما اپنی تحریکوں کو، اپنے دور اور وقت میں تو کامیاب نہیں کرسکے، مگر آج وہ دنیا بھر میں ہزار ہا لوگوں کے لیے انقلاب اور تبدیلی کی علامت ہیں۔
مزاحمتی تحریکوں کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ وہ لوگوں کو مایوس نہیں ہونے دیتی بلکہ ان میں امید اور تبدیلی کی خواہش کو زندہ رکھتی ہے اور انہیں تبدیلی لانے کے لیے اتحاد و یکجہتی کا درس دیتی ہے۔
ڈاکٹر مبارک علی کے مزاحمتی نکتہ نظر کی روشنی میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عوام کی یکسوئی یا اتحاد کے بغیر کوئی بھی مزاحمتی تحریک کامیاب ہوکر اپنے مطلوبہ مقاصد یا عوام کی امیدکا ہدف حاصل کر سکتی ہے؟ یا کہ کہیں اس کی مزاحمت سے انتشار اور عوام کی تقسیم در تقسیم کے امکانات بڑھنے کی جانب تو نہیں جا رہے ہیں؟
اگر کسی بھی آمرانہ نظام کے خلاف مزاحمت کی طرف لے جانے کی کوئی سبیل دنیا کے نقشے میں نظر آئی ہے تو وہ سب سے پہلے اپنی جماعت یا گروہ کی یک سوئی کا ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے،جس کے لیے''نظریات کی پختگی''اہم عنصر گردانا گیا ہے،اب یہ ہمارے سیاسی تجزیہ کار طے کریں کہ کیا واقعی تحریک انصاف ملک میں مزاحمت کے نتیجے میں ایک مکمل آئینی و جمہوری نظام لانا چاہتی ہے یا تحریک انصاف کی مذکورہ ''مزاحمت''عوام میں انتشار پیدا کرکے اسے ایک بار پھر یو ٹرن اور دھوکہ دہی کی سیاست میں دھکیلنے کی جانب جارہی ہے؟