ہمارا اپنا لیاری
محمد رفیق بلوچ کی کتاب ہمارا اپنا لیاری کی اشاعت بھی اسی سلسلے کی کڑیوں میں سے ایک کڑی ہے
ماضی قریب میں جب لیاری کو سیاسی اور جرائم کی مشترکہ مفادات کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے آگ میں جھونک دیا گیا تھا تو اسے لیاری گینگ وار کا نام دے دیا گیا، اور پورے ملک میں لیاری کو جرائم اور قتل وغارت کے حوالے سے جانا جانے لگا ' یوں معلوم ہونے لگا کہ جیسے لیاری میں ہر طرف جرائم ہی جرائم ہیں۔
اور یہاں شریف شہری نہیں بستے۔اگرچہ لیاری میں اب گینگ وار نہیں ہے لیکن پولیس کے ہتھے جو اکا دکا ملزم چڑھتے ہیں ان کا تعلق لیاری گینگ وار سے جوڑ دیا جاتا ہے ۔اس طرح میڈیا میں لفظ لیاری گینگ وار آج بھی زندہ ہے ۔ اس اعتبار سے آج بھی لیاری خوف کی علامت ہے جبکہ اب ایسا کچھ نہیں ہے۔
جب سماج دشمنوں کے مخصوص مقاصد پورے ہوئے تو لیاری کا امن چند ساعتوں میں بحال کیا گیا ،لیکن تب تک لیاری کے ماتھے پر گینگ وار کا لیبل مضبوطی سے چسپاں ہوچکا تھا جو لیاری کے اہل فکر طبقے کے لیے لمحہ فکریہ تھا ۔اسی طبقے نے دنیا کے سامنے لیاری کی اصل صورت کو جو کہ امن و آشتی اور بھائی چارگی کا مثال رہا ہے پھر سے اجاگر کرنے کی کوششیں کیں۔
محمد رفیق بلوچ کی کتاب ہمارا اپنا لیاری کی اشاعت بھی اسی سلسلے کی کڑیوں میں سے ایک کڑی ہے ۔ محمد رفیق بلوچ 21جون 1958ء کو ایک محنت کش داد محمد بلوچ کے گھر لیاری میں پیدا ہوئے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ، سادہ طبیعت رکھتے ہیں ۔12سال کی عمر میں سرکاری محکمہ ٹیلی گراف اینڈ ٹیلی فون میں بطور قاصد بھرتی ہوئے۔ رات کو ڈیوٹی کرتے اور دن کو اسکول جاکر تعلیم حاصل کرتے، 1983ء میں ایک بینک میں بہ حیثیت ٹائپسٹ ملازمت اختیار کی جو 2017ء میں مینیجر آڈٹ کے عہدے پر پہنچ کر اختتام پذیر ہوئی۔
رفیق بلوچ نے علاقے میں فروغ تعلیم کے لیے نمایاں خدمات انجام دی ہیں، علاقے کے گرلز اور بوائے پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کے اسکول مینجمنٹ کمیٹیوں کے چیئر مین بھی رہے ہیں۔ رفیق بلوچ ایک درد دل رکھنے والے سماجی کارکن بھی ہیں جو سماجی کاموں میں پیش پیش رہتے ہیں ،ان دنوں وہ انجمن اصلاح نوجوانان شیروک لین کلاکوٹ لیاری کے صدر ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد رفیق بلوچ قلم کاری کی طرف راغب ہوئے۔
آپ کی پہلی کتاب ، لکھنا منع ہے ، گزشتہ سال منظر عام پر لائی گئی تھی ۔ آپ شاعری کا شوق بھی فرماتے ہیں اور غزلوں کی غیر مطبوعہ چار جلدیں آپ کے پاس محفوظ ہیں۔آپ کی دوسری کتاب کا نام ، ہمارا اپنا لیاری ،ہے جس کی حال ہی میں رونمائی ہوئی ہے ۔
کتاب ہمارا اپنا لیاری 160صفحات پر مشتمل ہے ، رنگ ادب پبلی کشنز کراچی کی جانب سے شائع کردہ یہ کتاب بارہ ابواب پرمشتمل ہے، کتاب کا سرورق دیدہ زیب ہے جس میں لیاری کی محل و وقوع اور لیاری کی ممتاز شخصیات کو دکھایا گیا ہے۔
محمد رفیق بلوچ نے اپنی اس کتاب کو لیاری کے ان مرحومین فٹبالروں کے نام کیا ہے جو مختلف ادوار میں مختلف بیماریوں کا شکار ہوکر کسمپرسی کی حالت میں دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے ۔اس کتاب میں لیاری کی سیاسی ، سماجی، ادبی تاریخ ،لیاری کے لوگوں کے عادات و اطوار، تہذیب و ثقافت ،رسم و رواج اور مسائل کو بڑے اچھے اسلوب میں بیان کیا گیا ہے ۔
محمد رفیق بلوچ نے اپنی اس کتاب کے اظہار تشکر میں برملا اس امر کا اظہار کیا ہے کہ یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہورہی کہ لیاری سے متعلق کچھ مضامین اتنے خوب صورت اسلوب میں تحریر تھے کہ انھیں دوبارہ لکھنا وقت ضائع کرنے کے برابر تھا لہذٰا ان تحریروں کو یا تو من عن چھاپ دیا گیا ہے یا پھر ان سے استعفادہ کیا گیا ہے۔
رفیق بلوچ مزید لکھتے ہیں کہ ان تحریروں میں شبیر احمد ارمان کے کچھ مضامین جو کہ روزنامہ ایکسپریس میں وقتافوقتا شائع ہوتے رہے ہیں ۔ میرے لیے یہ اعزاز ہے کہ ہمارا اپنا لیاری نامی اس کتاب میں میرے مضامین شامل کیے گئے ہیں، جن کے عنوانات درج ذیل ہیں ۔
٭لیاری کی آبادی ، محل وقوع٭ہشت چوک ٭ریکسر لین ٭چاکیواڑہ ٭چیل چوک ٭لیاری کے مزارات ٭لیاری میں واقع قبرستان ٭لیاری کی اہم سڑکیں ٭لیاری کے مشہور فٹبال گراؤنڈ ٭سیاسی تاریخ ٭شیدی میلہ ٭میوزیکل بینڈ ٭فٹبال ٭لیاری میں فٹبال کلب ٭نادر شاہ عادل ٭صباء دشتیاری ٭ملنگ چارلی ۔
اس کتاب میں عبدالغفور کھتری کی کتاب کراچی کی کہانی ،تاریخ کی زبانی ۔گل حسن کلمتی کی کتاب کراچی سندھ جی مارائی اور کراچی انگریز دور جوں عمارتوں ۔رمضان بلوچ کی کتاب لیاری کی ان کہی کہانی ۔احمد حسین صدیقی کی کتاب گوہر بحیرہ عرب ۔ نادر شاہ عادل کی کتاب لیاری کی کہانی ۔ بلوچی ادبی ویب سائٹ اور شبیر حسین بلوچ کے مضامین کے علاوہ رفیق بلوچ کے اپنی تحریر کردہ مضامین شامل ہیں جو بلوچی رسم و رواج کو اجاگر کرتے ہیں ۔ اس طرح یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ کتاب بنام ہمارا اپنا لیاری اسلوب کے اعتبار سے مرتب کردہ کتاب ہے نہ کہ تخلیق کردہ ہے۔
جن منتخب مضامین کو جس روانی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اس سے قارئین کو یہی تاثر ملتا ہے کہ گویا یہ سب تخلیقات مراتب کے ہیں ، قلمی اخلاقیات کا تقاضا یہ تھا کہ رفیق بلوچ ان منتخب کردہ مضامین کو تفصیل سے دہرانے سے قبل ان کے شروعات میں ان قلم کاروں کا حوالہ دیتے اگر ایسا نہیں کیا گیا تو کم از کم ہر صفحے کے نیچے حصے پر حاشیہ لگاتے تاکہ پڑھنے والوں کو اندازہ ہوجاتا کہ مذکورہ تحریر کس قلم کار کی ہے اس طرح کتاب کو مزید چار چاند لگ جاتے اور قلمی اخلاقیات کے تقاضے بھی پورے ہوجاتے ۔
میری اس نشاندہی کو تنقید برائے تنقید کے زمرے میں نہ لیا جائے بلکہ تنقید برائے اصلاح جان لیں ۔میں یہ اصلاح تنہائی میں بھی کرسکتا تھا لیکن چونکہ یہ کتاب چھپ کر منظر عام پر آچکی ہے اس لیے تحریر ی طور پر اصلاح کرنا لازمی ہوگیا ہے تاکہ ریکارڈ کی درستگی ہو ۔
'' ہمارا اپنا لیاری'' رفیق بلوچ کی سنجیدہ اور معیاری کاوش ہے، لیاری کو سمجھنے والے لوگ اسے ضرور پڑھیں کہ لیاری اصل میں ہے کیا ؟ جہاں تک لیاری کو درپیش مسائل کا تعلق ہے ان کے حل کے لئے لیاری کے عوامی نمائندوں کو سنجیدہ کوششیں کرنی ہوگی جو کہ حکومت سندھ کی دسترس میں ہیں ۔