تقسیم کرو حکومت کرو پر مبنی پالیسی
لوگ توقع کرتے ہیں کہ کچھ تو بدلنا چاہیے اور ایسا کہ ہم سب کو بہتری کا راستہ مل سکے
پاکستان کا ریاستی نظام '' تقسیم کرو حکومت کرو'' کے اصول پر مبنی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہم فلاحی ریاست کے نظریے سے بہت دور کھڑے ہیں۔
مسئلہ محض کسی سیاسی تقسیم کا نہیں بلکہ مجموعی طور پر معاشرے میں عام آدمی سے لے کر اہل دانش تک یا پالیسی سازوں سے لے کر عملدرآمد کرنے والے اہم افراد یا اداروں تک سب میں یہ رائے غالب ہے کہ ہماری سمت درست نہیں، ہم ایک غلط سمت پر چل رہے ہیں۔
لوگوں میں بداعتمادی اور مایوسی کا غلبہ ہے ۔ سیاسی قیادت ہو یا ریاستی ادارے اور عوام سب یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اجتماعی طور پر ان تمام بگڑے معاملات کے ذمے دارہیں ۔ ممکن ہے کہ کوئی زیادہ اور کوئی کم ہومگر ہماری قومی اجتماعیت اس سوچ کا اظہار کرتی ہے کہ ہم سب بگاڑ کے ذمے دار ہیں۔
ہماری اجتماعی دانش سیاسی او رمحلاتی سازشوں ، سیاسی اور غیر سیاسی مداخلتوں ، جوڑ توڑ ، منفی سوچ، غیر سیاسی حکمت عملیوں ، آمرانہ سوچ اور فکر یا طرز عمل ، آئین و قانون شکنی ، کمزور سیاسی و جمہوری نظام ، طاقت کی حکمرانی ، غیر منصفانہ وسائل کی تقسیم ، کمزور عدالتی نظام، طاقت ور سیاسی اشرافیہ یا بیوروکریسی، آزادی اظہار پر پابندی، عوامی رائے یا مینڈیٹ کو قبول نہ کرنا، ایک خاص منصوبہ بندی کی بنیاد پر حکومت بنانے یا اس کو توڑنے کا کھیل ، کسی کو ہیرو اور کسی کو زیرہ بنانے کے عمل کے گرد ہی گھومتا ہے۔
اپنی تمام تر ریاستی اور معاشرتی صلاحیتوں کو ہم نے ملک کو جوڑنے کے بجائے تقسیم کرنے یا وسائل پر ایک محدود طبقہ کی طاقت یا حکمرانی کو یقینی بنایا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مجموعی طور پر ریاست، حکومت یا معاشرے کے درمیان موجود تقسیم یا خلیج کافی حد تک گہری نظر آتی ہے ۔ لوگ یا ادارے ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کے بجائے ان میں سوچ سمجھ کر شکوک وشبہات یا بدگمانیاں تلاش کرتے ہیں۔
اصل میں ہم ایک ایسی طاقت ور حکمرانی کے نظام میں قید ہیں جہاں عوام کے مقابلے میں خواصکی حکمرانی ہے ۔اس طاقت ور نظام حکمرانی پر قابض طبقہ لوگوں کو تقسیم رکھنا چاہتا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا ریاستی یا سیاسی نظام ایک مضبوط سیاسی و جمہوری نظام سے کافی دور کھڑا ہے ۔ کئی برس سے سیاسی نظام تقسیم شدہ مینڈیٹ کی بنیاد پر چل رہا ہے، کوئی سیاسی جماعت تن تنہا حکومت نہیں بنا پاتی، ایسی حکومتیں بے بس، مفلوج یا لاچار ہوتی اور مضبوط فیصلے نہیں کرپاتی۔
یوں ایسی حکومت کی آزادانہ سیاسی حیثیت یا فیصلہ سازی متاثر ہوتی اور اس کا حکومتی امور پرکنٹرول انتہائی کمزور ہوتا ہے۔طاقت ور طبقہ چاہے وہ ریاستی اداروں کی سطح پر ہو یا سیاسی سطح پر سب ہی سمجھتے ہیں کہ ایسے ہی نظام سے ان کے مفادات کو تقویت یا طاقت مل سکتی ہے ۔
سیاسی جماعتیں باہم تقسیم ہیں، کوئی سیاسی جماعت دوسرے کی سیاسی حیثیت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور وہ داخلی و خارجی دونوں محاذوں پر خود بھی تقسیم ہیں یا ان کو تقسیم کردیا گیا ہے تاکہ ان میں کوئی اجتماعی دانش سامنے نہ آسکے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ قومی مسائل کی بحث کو دیکھیں توہم اسی نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ہمارے حقیقی مسائل کچھ اور ہیں اور ہم اور طرح کے غیر ضروری مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔
ساری سیاست افراد یا شخصیات یا عقل و دانش کے مقابلے میں جذباتیت کی بنیاد پر کھڑی ہے ۔سیاسی اختلافات کو اس حد تک بڑھادیا گیا ہے کہ اس میں سے سیاسی دشمنیوں کی جھلک نمایاں ہے اور ہم ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا ایجنڈا رکھتے ہیں ۔جمہوریت میں انتخابات کی شفافیت اس کی اہم کنجی ہوتی ہے مگر یہاں پورے کا پورا سیاسی او رانتخابی نظام یرغمال بنادیا گیا ہے او رنتیجہ عدم شفافیت پر مبنی نظام اور حکومتوں کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔
جب بھی کوئی نظام اپنی حقیقی بنیادوں پر کھڑا نہیں ہوگا تو اس کی ساکھ قائم نہیں ہوسکتی ۔اس وقت عملی طور پر ہمارا کنڑولڈ نظام ہے جہاں سیاسی او رجمہوری ادارے یا سول سوسائٹی یا میڈیا سب ہی کمزور محاذ پر کھڑے ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ ان کی سیاسی پوزیشن اپنی اہمیت کھورہی ہیں یا یہ واقعی کمزور ہوچکے ہیں ۔ یقینی طور پر اس کمزوری کی کھیل میں خود ہماری اپنی سیاسی قوتیں یا سیاسی جماعتیں یا ان کی قیادت ذمے دار ہے جو ہر وقت سیاست او رجمہوریت کے خلاف ہی سہولت کاری کے کھیل میں پیش پیش ہوتی ہیں۔
ہم یہ بنیادی نوعیت کا فیصلہ ہی نہیں کرپارہے کہ ہمیں کس نظام کے تحت آگے بڑھنا ہے ۔ عالمی ترجیحات کی بنیاد پر جمہوری نظام کو ہم اپنی ترجیح قرار دیتے ہیں اور یہ ہی ہمارا سیاسی ، آئینی اور قانونی جمہوری تقاضہ بھی ہے ۔لیکن عملا ہم اجتماعی طور پر جمہوریت کو بڑے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں اور ہماری عملی سوچ غیر سیاسی اور غیر جمہوری نظام ہے جہاں آئین و قانون سے زیادہ ہمیں اپنی ذاتی خواہشات کو مقدم رکھنا پڑتا ہے۔
18ویں ترمیم کے باوجود ہم گورننس کے اعلیٰ معیارات قائم نہیں کرسکے۔لوگوں کے حالات خراب ہیں اور نظام لوگوں کے بنیادی نوعیت کے مسائل کو سلجھانے یا حل کرنے میںناکام ہے۔حکمران تسلیم کرتے ہیں کہ حکمرانی کا نظام بنیادی مسئلہ ہے او ریہ بھی مانتے ہیں کہ ہم ایک طبقاتی تقسیم یا طبقاتی حکمرانی کے نظام کا شکار ہیں مگر ان ہی حکمرانوں کا عملی حکمرانی کا نظام عام آدمی کے مفادات سے مختلف ہے۔
ایسے لگتا ہے کہ حکمرانی کے نظام کی بڑی ترجیح عام آدمی نہیں بلکہ وہی طاقت ور حکمران یا دیگر طبقات ہیں جن کو کمزور کرکے عام آدمی کو طاقت ور بنانا تھا ۔ اس لیے ہمارا مجموعی حکمرانی کا نظام اپنے اندر ایک بڑی سرجری کا اشارہ کرتا ہے مگر ہم اس کے لیے تیار نہیں ۔ اسی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی نے سخت گیر اصلاحات کے ایجنڈے کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے ۔
بنیادی طور پر پاکستان کی ضرورت مصنوعی سیاسی اور جمہوری نظام سمیت روائتی حکمرانی کے نظام سے نجات اور جدید ریاستی و حکومتی نظا م کی تشکیل کی طرف بڑھنا ہے ۔ہماری ترجیح نئے سیاسی و جمہوری راستوں کی تلاش او رایک مضبوط سیاسی، معاشی، انتظامی اور قانونی نظام کی ہی تلاش ہونا چاہیے۔لیکن ان نئے انتخابات کی بنیاد پر جو نیا سیاسی نظام تشکیل دیا گیا ہے جس کی شفافیت پر بھی کئی طرح کے سوالیہ نشان ہیں وہ بھی مختلف نوعیت کے کمزور ڈھانچوں اور کمزور سیاسی بنیادوں پر کھڑا ہوا ہے۔
لوگ توقع کرتے ہیں کہ کچھ تو بدلنا چاہیے اور ایسا کہ ہم سب کو بہتری کا راستہ مل سکے ۔مگر سیاسی و معاشی نظام کی ایک بڑی ناکامی ریاست کی سطح پر موجود وہ مختلف تضادات یا فکری مغالطے ہیں جن کی بنیاد پر ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں ۔بدقسمتی سے ہم دنیا کے سیاسی و جمہوری ماڈلوں سے سیکھنے کے لیے بالکل تیار نہیں کہ کیسے اجتماعی طور پر ہم جدید ریاست کی طرف پیش قدمی کرسکتے ہیں۔
لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا او رہم ماضی کے ساتھ ہی چلنا چاہتے ہیں او ربضد ہیں کہ اپنی طاقت کو ہی ہم نے برقراررکھنا ہے تو پھر ریاستی نظام میں مختلف فریقوں کے درمیان موجود خلیج بھی برقرار رہے گی اور ٹکراو کا ماحول بھی ۔ ایسے میں مفاہمت یا اتفاق رائے کی بنیاد بنا کر آگے بڑھنے اور قومی مسائل کے حل کے خواب کی تکمیل ممکن نہیں ہوسکے گی۔