معیشت ایک بڑا چیلنج
ہمارے بحرانوں کی وجہ ہی یہی تھی کہ ہم بڑی طاقتوں کے مقاصد کے لیے فرنٹ لائن اسٹیٹ بن کر استعمال ہوئے
میں نے کالم نگاری کی ابتدا سندھی اخبار سے کی، اس زمانے میں بینکر تھا۔اکنامکس میرا مضمون تھا اور لندن سے شایع ہونے والا جریدہ 'The Economist'میرے مطالعے کا محور تھا۔
اس سائنس سے وابستہ بڑے بڑے نام تھے جنھیں مطالعے کا شوق نصیب ہوا اور جنھوں نے اس شعبے میں نوبل انعام حاصل کیے۔میرے کالم کے پڑھنے والے زیادہ لوگ تو نہیں مگر جو لوگ پڑھتے تھے ان کا شمار سنجیدہ لوگوں میں ہوتا ہے۔ایسا کہا جا سکتا ہے کہ معاشیات کے حوالے سے میری کالم نگاری سندھی اخبار میں ایک پہچان رکھتی تھی۔
اس سے پہلے معاشیات کے بارے میں سندھی میں پورا بیانیہ اشتراکی فکر سے لبریز تھا۔ یہ میں تھا جس نے پہلا کنکر مارا کہ مارکیٹ اکانومی آفاقی حقیقت ہے اس سے اجتناب کرکے آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔یہ درست ہے کہ Resourcesکی تقسیم منصفانہ ہونی چاہیے مگر مارکیٹ کے اصولوں کی نفی نہیں کی جاسکتی۔
ہمارے رسول بخش پلییجو مجھ پر خوب تنقید کرتے تھے اور ایسے محترم نقادوں سے سیکھا جاتا ہے۔جب سرد جنگ کا زمانہ تھا تو ہمارے جیسے نو آبادیاتی ملک یا پھر کہیے کہ ترقی پذیر ممالک میںدو نظریے چلتے تھے۔ایک مغربی سوچ کا نظریہ اور دوسرا نظریہ تھا سوویت یونین ، چین یا پھر اشتراکی سوچ کا۔ہندوستان میں نہرو یا کانگریس معیشت کے حوالے سے اشتراکی سوچ کے حامی تھے اور ہم مغربی سوچ کی معیشت سے متاثر تھے۔
معاشی ترقی کے اعتبار سے نظریہ یہ ہے کہ ملکی بجٹ کا معقول حصہ ترقیاتی کاموں اور انسانی وسائل پر صرف ہونا چاہیے مگر خطے کی جغرافیائی حکمت عملی اور مخصوص صورتحال کے باعث بجٹ کا زائد حصہ دفاع پر خرچ ہو جاتا تھا۔ سوویت یونین ہمارے سروں پر سوار تھا۔کشمیر کا مسئلہ ہمیں ورثے میں ملا۔امریکا سے دوستی اس خطے میں جنگی پس منظر میں تھی کیونکہ ہمیں امداد ملتی تھی۔
ہاں مگر ان زمانوں میں ہماری معیشت ہندوستان سے بہتر تھی، Resources کی منصفانہ تقسیم نہ سہی مگر ہم مارکیٹ اکانومی کے عین اصولوں پر گامزن تھے۔ دہائیوں تک ہماری شرح نمو اوسطاّپانچ یا چھ فیصد تک مستحکم رہی۔اربن اور دیہی پاکستان میں بہت تفریق تھی سیاسی اعتبار سے اب بھی یہ جھلک نظر آتی ہے کی دیہی ووٹ سرداروں اور جاگیرداروں کے حصے میں آتا ہے اور شہری ووٹ بیانیہ کو دیا جاتا ہے،جس نے بیانیہ بھرپور بنایا شہری ووٹ اسی کا ہوا،اب یہ تفریق ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔
ہندوستان میں نہرو نے اشتراکی سوچ کی پہل کی۔نیشنلائزیشن کی پالیسی اڈاپٹ کی، پبلک سیکٹر میں سرمایہ کاری کو ترجیح دی۔گاڑیوں میں ان کی مشہور ایجاد تھی ماروتی۔ ان کی فلم انڈسٹری میں چاہے ہیرو یا ہیروئن کروڑ پتی دکھائیں لیکن گاڑی ان کی لوکل ہی دکھائی جاتی تھی،جب کہ پاکستانی فلموں میں اداکار مرسڈیز یا پھر اس سے بھی اونچی کاروں میں بیٹھے دکھائے جاتے تھے۔
ہندوستان میں شدید غربت اپنی جگہ لیکن Resources کی تقسیم ہم سے قدرے بہتر تھی۔ان زمانوں میں ہندوستان ہو یا پاکستان کرپشن کا تناسب کم تھا، انسانیت بہرحال باقی تھی کم از کم میگا کرپشن کا تصور نہ تھا۔1990 تک ہندوستان نہرو کے دیے ہوئے معاشی ماڈل پر چلتا رہا۔ جب یہاں بھٹو صاحب اقتدار میں آئے تو انھوں نے نیشنلائزیشن کی پالیسی اپنائی ، بڑے بڑے معاشی و سیاسی کارنامے سر انجام دیے اپنے فیصلوں میں۔
ذوالفقارعلی بھٹو نے ڈالر کو دس روپے پر کیپ کیا اور ڈالر مارکیٹ میں نایا ب ہو گیا۔ 1990 میں ہندوستان میں ایک بہت بڑا بحران پیدا ہوا۔ان کے پاس ڈالر نہ تھے، دنیا سے چیزیں درآمد کرنے کے لیے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر قرضہ لیا۔ہندوستان کے اسٹیٹ بینک کے پاس سونے کی بہتات تھی اور مجھے یہ یا د پڑتا ہے کہ جہازوں میں سونا بھر کر ہندوستان نے وہ سونا گروی رکھوایا۔
ہندوستان میں نہرو کی معاشی ڈاکٹرائن کے بعد، من موہن سنگھ کی ڈاکٹرائن آئی ، کنٹرولڈ معیشت کے دروازے بند کردیے گئے اور معیشت کو مارکیٹ پر چھوڑ دیا گیا۔ہندوستان سے غربت نہ گئی لیکن ان کی تقریبا ڈیڑھ ارب آباد ی میں سے تیس کروڑ کی آبادی مڈل کلاس پر مبنی ہے اور وہ دنیا کی تیسری بڑی طاقت بن کر ابھر نے والا ہے۔
یہ بات اس حقیقت سے بھی وابستہ ہے کہ ہندوستان سرد جنگ کے زمانے میں نہ ہی سوویت یونین اور نہ ہی کسی مغربی طاقت کا فرنٹ لائن اسٹیٹ بنا، اس کے برعکس پاکستان ایک فرنٹ لائن اسٹیٹ رہا، ہندوستان کے بارڈر افغانستان جیسے ملک سے نہیں ملتے باوجود اس کے مودی صاحب نے اپنے بہت سے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے مذہب کا استعمال کیا ہے۔مگر اب بھی ان کی بنیادوں میں اور ان کا آئین سیکولر اقدار کی قدروں کو مانتا ہے۔
پاکستان میں یہ معاملات سلجھ نہیں پائے، مذہبی انتہا پرستی عروج پر ہے۔ریاست میں اب بھی اپنے انداز کا پاپولزم ہے ،جو کل روٹی کپڑا اور مکان تھا وہ آج جنرل ضیاء الحق کے دیے ہوئے افکار ہیں۔ سوشل میڈیا اور خاص کر فیک نیوز کا زہراس ملک کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔
یہ تمام محرکات، ہماری معاشی ترقی، مستقل مزاجی سے آگے بڑھنے اور دنیا کے مروج اصولوں پر چلتی ہوئی ایک ریاست کے لیے دشواریاں پیدا کرتے ہیں۔سب سے بڑا چیلنج ہمارے لیے غیر ملکی قرضوں کے حجم کو کم کرنا ہے اور ساتھ ہی داخلی قرضوں کو بھی۔برآمدات کو بڑھانا ہوگا، ایک جامع پالیسی دینی ہوگی ، لوگوں میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی تاکہ معیار زندگی بہتر ہو،معیاری ہنرمند پیدا ہوجو ہماری معیشت اور ہماری زراعت کے لیے ر یڑھ کی ہڈی ثابت ہو۔سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا پیداواری اور سروس انڈسٹری کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے اور غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرنا ہوگا۔منشیات، اسمگلنگ اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے واضح پالیسی مرتب کرنی ہوگی۔ سختی سے نمٹنا ہوگاانتہا پسندی اور فسادات کی سیاست سے۔
کامیاب ریاستیں مارکیٹ اکانومی کے جامع اصولوں پر آگے بڑھ رہی ہیں اور اب ضرورت ہے کہ اس ملک کے ٹیکس نظام کو انھیں اصولوں پر مرتب کیا جائے۔لوگوں کی آمدنی کے مطابق ٹیکس لیا جائے اور جو ٹیکس ادا نہیں کررہا ہے انکو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانا ہوگا۔
یہ المیہ ہے کہ ہم اپنی معیشت کو شروع سے مستحکم نہ کر سکے اگر ایسا ہو تا تو کوئی بھی غیر ملکی طاقت اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ہمیں استعمال نہ کرتی۔ہم جب چین کے قریب گئے تو وہاں سے بھی ہمیں قرضوں کا جال ملا اسی طرح امریکا و یورپی ممالک نے بھی یہی قدغن لگائے،ہمارے بحرانوں کی وجہ ہی یہی تھی کہ ہم بڑی طاقتوں کے مقاصد کے لیے فرنٹ لائن اسٹیٹ بن کر استعمال ہوئے۔
ہمارے معاشی استحکام اور ملکی سا لمیت کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ان طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کریں۔آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں ملک بننے جارہا ہے،انسانی وسائل اگر بہتر ہو جائیں تو ہماری شرح نمو سات فیصد تک آ سکتی ہے اور وہ ہی دن ہوگا ہماری حقیقی آزادی کا۔