شکر ہے ہنسی آئی تو
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر طرف اداسی و انتظار کا موسم ٹھہر گیا ہو جیسے۔ چہروں پر یکسانیت اور سوچ پر جمود طاری ہونے۔۔۔
RAWALPINDI:
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر طرف اداسی و انتظار کا موسم ٹھہر گیا ہو جیسے۔ چہروں پر یکسانیت اور سوچ پر جمود طاری ہونے لگتا ہے۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو نعمتیں بے شمار ہیں۔ دکھ ہیں اگر تو سکھ بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کوئی ایک سا موسم مستقل محو سفر نہیں ملتا۔ مگر آج کل یہ دیکھا گیا ہے کہ دکھ و پریشانی زیادہ محسوس ہوتے ہیں بہ نسبت خوشیوں کے۔ آفس میں بھی طرح طرح کی پریشان کن خبریں ملتی ہیں۔ کوئی بیمار ہے تو کہیں ڈکیتی کا واقعہ سنائی دیتا ہے۔ کہیں خود ساختہ مسائل کا ذکر ہے، تو کبھی مہنگائی و حالات کا رونا ہے۔ غرض یہ کہ کہیں بھی اچھا احساس نہیں ملتا۔ بیماریوں کا ذکر سن کر دل برا ہونے لگتا ہے۔
علی الصبح اخبار پڑھنے کو دل نہیں کرتا۔ ٹی وی کھولو تو بریکنگ نیوز میں کوئی دل دہلا لینے والی اطلاع مل رہی ہوتی ہے۔ ایک عجیب سی گھٹن کا احساس ہونے لگتا ہے۔ ہنستے مسکراتے چہرے قصے پارینہ بن چکے ہیں۔ لوگوں کے ماتھے پر تیوریاں تو چہرے پر وحشتوں کا سماں دکھائی دیتا ہے۔ ایک دن مجھے بھی ایسا محسوس ہونے لگا کہ کوئی بڑی بیماری موقع پاتے ہی مجھ پر حملہ آور ہونے والی ہے۔ لہٰذا دوست کے مشورے پر میں نے ان کے فیملی ڈاکٹر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ دوست کا کہنا تھا کہ مختلف قسم کا ڈاکٹر ہے۔ نبض پر ہاتھ دھرے بنا مرض پہچان لیتا ہے۔ پر مزاح شخصیت ہے۔ آدھا مرض ان کی شگفتہ باتوں سے رفع ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ ''ذہنی دباؤ کے علاوہ کچھ نہیں۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر قہقہے لگائیں۔'' مجھے حیران پاکر بات جاری رکھتے ہوئے بولے ''یہ مذاق نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔ دور جدید کے ہر مسئلے کا حل ہنسنا اور مسکرانا ہے۔ لہٰذا آپ زندہ دل لوگوں سے میل جول بڑھائیں۔ اور لافٹر تھیراپی پر عمل کریں، انشاء اللہ افاقہ ہو گا۔''
''آپ کہتے ہیں تو کوشش کر کے دیکھتی ہوں۔'' اور میری ہنسی چھوٹ گئی ۔ ''آپ مزاح لکھا کریں۔'' ڈاکٹر صاحب آج شاید مذاق کے موڈ میں تھے۔
''مزاح اور میں۔۔۔!'' مجھے پھر بے ساختہ ہنسی آ گئی۔ لیکن شکر ہے کہ ہنسی آئی تو سہی۔ مدتوں ہو گئے مسکرائے ہوئے۔
''میں خود آپ کے کالم پڑھ کر کئی بار آبدیدہ ہو چکا ہوں۔ مجھے اندازہ ہے کہ المیہ تحریریں لکھتے انسان خود بھی کرب کی کیفیت سے گزرتا ہے۔'' ڈاکٹر صاحب ادب سے شغف رکھتے ہیں۔''آج کل ملکی حالات ایسے چل رہے ہیں کہ چہرے کے گھڑیال پر بارہ کے ہندسے سے سوئی نہ اوپر جاتی ہے اور نہ نیچے آتی ہے۔'' میں نے اداسی سے جواب دیا۔ ''متضاد رویے اپنانے سے زندگی اچھی گزرتی ہے۔ جیسے غم میں مسکرانا یا تکلیف میں قہقہے لگانا اس کیفیت کی شدت کو کم کر دیتے ہیں۔'' ڈاکٹر بولے۔
''اداسی و پریشانی قومی مزاج بن چکی ہے۔'' میری بات سن کر کہنے لگے۔ ''لیکن ہمیں اپنا مزاج بدلنا چاہیے۔ خوش مزاجی کو ڈھونڈ کے واپس لانا پڑے گا۔''
''کاش کہ ایسا ہو سکے۔'' یقین اور بے یقینی ایک ہی تصویرکے دو رخ ہیں۔
''میں خود جب بیمار پڑا تو میں نے طرز زندگی بدل دیا۔ اب میں اخبار نہیں پڑھتا۔ ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیا۔ بیوی کے مسئلے کا حل بھی ڈھونڈ نکالا ہے۔گھر واپس جاتے ہوئے روئی کانوں میں ٹھونس کے گھر میں داخل ہوتا ہوں۔''
ایک بار پھر ہنسی کے شگوفے کھل اٹھے۔ ڈاکٹر کی باتوں میں وزن تھا، حالانکہ طبعی طور پر وہ خود بے وزن تھے۔
اس کے بعد میں نے بڑی کوشش کی کہ کوئی ایسا حلقہ ڈھونڈ نکالوں، جہاں ہنسی کے پھول ہمہ وقت تازہ رہتے ہوں۔ مگر مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ اب لوگ مسکراتے ہیں۔ فضاؤں میں قہقہوں کی بازگشت بھی سنائی نہیں دیتی۔ وہ خبرنامے کی طرح بھی نہیں بن سکے جو ہولناک خبروں کے بعد آخر میں بارش کا احوال تو کبھی پھولوں کی نمائش کی مختصر جھلک دکھا دیتے ہیں۔ میں نے تمام تر چینل کھنگال ڈالے، مگر کہیں بھی کوئی ڈھنگ کا مزاحیہ پروگرام نہ تھا۔ ڈراموں میں گمبھیر مسائل چل رہے ہوتے ۔ دھوکا، نفرت، فریب اور منافقت کے موضوعات سے ڈرامے بھرے ہوئے تھے۔ چینل بدلتے بدلتے ایک مزاحیہ ڈراما بلبلے ذرا سا اچھا لگا۔ کبھی ہنسی آتی تو کبھی رونا۔ میاں بھی لاؤنج میں آ کے بیٹھ گئے۔ کہنے لگے ''یہ چینل ہٹاؤ یہ کوئی ڈرامہ ہے۔ کیا اسے مزاح کہتے ہیں۔'' شاید وہ یہ ڈرامہ پہلے دیکھ چکے تھے۔
''اچھا ڈرامہ ہے بہرکیف ہنسی آ ہی جاتی ہے۔'' میں نے خوش ہو کر بتایا۔
''مجھے مومو پسند نہیں ہے۔ یہ اپنے میاں سے بہت بدتمیزی سے بات کرتی ہے۔ اب دیکھو اس نے کیا کہا ہے ابھی۔'' اس وقت مومو اپنے شوہر سے کہہ رہی تھی چپ ، جو سنائی دیا ''چپ اوئے'' میاں بولے دیکھو یہ کہہ رہی ہے چپ اوئے!
میاں نے کہا اس طرح بات کی جاتی ہے؟ میں نے کہا ''یہ ''چپ اوئے'' نہیں ہے یہ ''چِپ'' ہے یعنی مومو ''پ'' پر زیر لگاتی ہے۔ بہرکیف میاں قائل نہیں ہوئے کہنے لگے ''مجھے نہیں معلوم یہ ''پ'' پر زیر لگاتی ہے کہ زبر۔ بس اس ڈرامے کو ہٹاؤ مجھے خبریں سننی ہیں۔ نیوز کا ٹائم ہو رہا ہے۔''
پھر وہ ریموٹ سے چینل ہٹا کر نیوز دیکھنے لگے۔ بی بی سی پر برما کے مسلمانوں کا قتل عام دکھایا جا رہا تھا۔ ان کے کٹے اعضا ہر طرف بکھرے ہوئے تھے۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ وہ چینل بدلنے لگے۔ خبروں میں ہر طرف مار کٹائی، بم دھماکے، ڈکیتیاں، اغوا، سیاسی رسہ کشی، ہلڑ بازی اور بحث برائے بحث کا سا سماں۔ میں نے چینل تبدیل کر کے ڈرامہ لگا دیا۔ مومو کے گھر میں خوب ادھم مچا ہوا تھا۔
''کامیڈی ایسی ہوتی ہے۔'' طنزیہ انداز میں کہنے لگے۔ ''یہ کامیڈی آف مینر ہے یعنی حرکات و سکنات کے ذریعے لوگوں کو ہنسانا۔'' میں نے علمیت جھاڑی۔
''یہ تو آؤٹ آف مینرز کامیڈی لگتی ہے۔ بدتہذیبی کی انتہا! چلنا پھرنا، بات چیت یہ اچھل کود کس قدر بے ڈھنگا پن ہے۔ کیا حقیقت میں ایسے لوگ ہوتے ہیں؟'' اس پر مجھے یاد آیا کہ کچھ سال پہلے حیدر آباد سے کراچی جاتے ہوئے، بس میں ایک انتہائی خوش مزاج خاندان سے ملاقات ہوئی تھی۔ میاں بیوی سن پچاس کے ہیرو اور ہیروئن جیسے البتہ بچے برگر کی نقل۔ میاں بیوی کی کلاس کی نوک جھونک تمام راستے چلتی رہی۔ وہ مستقل میاں پر تنقید کے تیر برسائے جاتیں۔ شوہر کبھی تنک کے کہتے ''سفر میں تو رحم کرو بیغم۔۔۔۔''واقعی بیوی بے غم سی دکھائی دی۔ پھر خاتون بیٹے سے مخاطب ہوئیں جو ایئر فون کان میں ڈالے جھوم رہا تھا۔
زور سے چلائیں ''معیز آئے ہیں اس موئی تار کو تو نکالو کان سے کیا ابا کی طرح بہرے ہونے کا ارادہ ہے؟'' یہ سن کر میاں کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق تلملائے ''اب یہ بھی مت بتا دیجیو سب کو کہ دانت بھی نقلی ہیں اور کمر میں بھی فریکچر ہے۔'' یہ سن کر قریبی مسافر ہنسنے لگے۔ ان کے کیا فی البدیہہ جملے تھے۔ تمام راستے مسکراہٹوں کے پھول مہکتے رہے، قہقہوں کی بارش ہوتی رہی۔ میں بھی تمام راستے ان کی باتوں سے محظوظ ہوتی رہی۔ اس دن تین گھنٹے کا سفر محض تین لمحوں میں کٹ گیا۔ کیا پھلجھڑی پٹاخہ قسم کا خاندان تھا۔ مدتوں یاد رہا۔
''یہ مومو کی چال کس قدر بناوٹی ہے۔'' میاں بولے تو میں سوچوں کی دنیا سے واپس آ گئی۔ ''یہ ہنس کی چال چلتی ہی غالباً'' میرا جواب سن کر میاں خوب ہنسے اور کہنے لگے ''مجھے کوئوں سے ہمدردی ہے بہت دل پذیر (مومو) کا انٹرویو پڑھا تھا میں نے کہیں۔'' انھوں نے بتایا تھا کہ '' ایسی خاتون ان کی پڑوسی ہوا کرتی تھی۔ چال بھی بالکل ایسی تھی''۔ میں نے میاں کی معلومات میں اضافہ کیا۔ کہنے لگے ''اچھا تو خواتین عجوبوں سے مقابلہ کرنے چلی ہیں گویا۔''
''ہر بیوی میاں کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ دکھائی دیتی ہے۔'' میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ میاں کی خاموشی نے میری بات کی تصدیق کر دی۔ ان ہی باتوں میں مزاحیہ ڈرامہ اختتام پذیر ہوا اور میرے اسکور میں ایک اور زیرو کا اضافہ ہو گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان جو چیز شدت سے کرنا چاہتا ہے، اس میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ آ جاتی ہے۔ یہ ہنسنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ٹھہرا! مجھے خاموش پا کر پوچھنے لگے کہ خاموش کیوں ہو؟
''سمجھ میں نہیں آتا کہ کیسے ہنسوں بولوں بقول ڈاکٹر کے کہ ہنسنا تمہاری دوا ہے۔'' کہنے لگے ''کل ہی تو آئینے کے سامنے آپ قہقہے لگا رہی تھیں۔''
''یہ مشورہ ڈاکٹر نے دیا تھا۔'' میں نے جواب دیا۔
''ڈاکٹر بھی مزے کا لگتا ہے، ٹکا کے تیر مارا ہے۔'' میاں کے قہقہے کے ساتھ میری ہنسی بھی شامل ہو گئی۔ یہ الگ بات کہ جملے کا سچ بعد میں سمجھ آیا۔ ہنستے رہنے سے مجھے اپنے اندر بہار کی سی تازگی محسوس ہونے لگی ہے۔ لیکن سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ میاں بھی یہ ڈرامہ شوق سے دیکھنے لگے۔ جس کی برائیاں کرتے نہ تھکتے تھے۔