آپ سے کوئی کہے کہ میں آپ کو مفت راشن دوں گا، لیکن شرط یہ ہے کہ آپ کو قطار بھی بنانی پڑے گی، تصدیقی عمل سے بھی گزرنا پڑے گا، ہر مرحلے کی منظرکشی بھی ہوگی، اور یہ منظرکشی ہر سطح پر پیش بھی کی جائے گی متعلقہ افسران کو، اور شنید یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپ کے راشن لینے کی تصویر میڈیا کی زینت بھی بن سکتی ہے۔
اگر کوئی پیشہ ور بھکاری ہے اور اسے محنت کی کبھی عادت ہی نہیں رہی ہو تو وہ یہ مرحلہ آسانی سے عبور کرجائے گا۔ لیکن آپ اگر سفید پوشی کا دامن تھامے ہوئے ہیں، آپ میں انا کا بت مکمل طور پر پاش نہیں ہوا، اور آپ کی غیرت یہ گوارا نہیں کرتی کہ آپ کی مشکلات پر لوگ اپنی کارکردگی کی تصاویر بنائیں تو آپ اس مرحلے سے نہیں گزر پائیں گے، نہ گزرنا چاہیں گے۔ اس کے برعکس آپ کسی ایسی جگہ کی تلاش میں ہوں گے جہاں سے ضروریات زندگی کچھ تھوڑے بہت پیسے دے کر ارزاں نرخوں پر آپ کو مل جائیں۔
بھلا ہو ان خیراتی پروگرامز کا، نام کے راشن پیکیجز کا کہ عوام کو ذلیل کرکے رکھ دیا ہے اور تشہیر اپنی کروائے جارہے ہیں۔ کہیں خبر دیکھی کہ عوام میں 15 ارب روپے کا رمضان راشن پروگرام وفاقی سطح پر لایا گیا ہے۔ صوبہ کیوں پیچھے رہتا، سننے کو ملا کہ 5 ارب کا پیکیج ہم بھی دیں گے۔ پھر نگہبان رمضان پیکیج آیا۔ نگہبانی تو کیا خاک کرنا تھی، اس پورے پیکیج یا رمضان میں تو یہ ہی تعین نہیں ہوپایا کہ کون حقدار ہے اور کون نہیں۔ رمضان کے پہلے کچھ دن عوام دھکے کھاتے رہے، لاٹھیاں سہتے رہے، بے ہوش ہوتے رہے۔ اس کے بعد خبر ملی کہ گھر گھر راشن کی تقسیم ہوگئی۔ ریونیو کا عملہ کبھی مصروف عمل ہے تو کبھی محکمہ صحت کے لوگ راشن بانٹنے کی ذمے داری سنبھالے ہوئے ہیں۔
ہر دفعہ تنقید ہوتی ہے کہ لکھنے والے کمروں میں بیٹھ کر لکھ دیتے ہیں، وہ عملی سطح پر اس پیکیج کی افادیت نہیں سمجھ سکتے، نہ اس کا انہیں اندازہ ہے۔ سوچا عملی سطح پر بھی جانچ کر لیتے ہیں۔ راولپنڈی کے ایک مضافاتی علاقے کی مقامی یونین کونسل کا رخ کیا (یونین کونسل کا ذکر اس لیے پردے میں رکھا کہ عملے کے افراد زیر عتاب نہ آجائیں)۔ گھر گھر راشن کی تقسیم اپنی دانست میں بہت اچھا فیصلہ ہوسکتا تھا اگر یہ واضح ہوسکتا کہ ضرورت مند افراد کا تعین کیسے کیا جائے گا۔ بے شک نادرا اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مدد لی گئی لیکن ان دونوں ذریعوں میں معاملات کس قدر شفاف ہیں، اس بارے میں نیرو ابھی چین کی بانسری نہیں بجا رہا۔
مذکورہ یونین کونسل کے ڈسٹری بیوشن پوائنٹ پر عوام کی کثیر تعداد تو موجود تھی لیکن عملہ پریشان تھا۔ ان کے بقول وہ مقامی افراد کو پہچانتے بھی ہیں کہ ضرورت مند ہیں۔ لیکن ان کو فراہم کی گئی فہرست میں نہ ان کا نام ہے، نہ ہی ان کا کارڈ اسکین کا رزلٹ انہیں ضرورت مند ظاہر کررہا ہے۔ لہٰذا ہم انہیں راشن نہیں دے پا رہے۔ لوگ ہیجان کا شکار کہ بھلا ہم سے زیادہ ضرورت مند علاقے میں کون ہے؟ علاقے کی مجموعی آبادی 5 سے 10 ہزار نفوس پر مشتمل ہے (مضافاتی گاؤں)۔ لیکن حیرانی ہوئی کہ بقول عملے کے صرف پانچ سے سات لوگوں کو راشن مل سکا۔ اب یہ ڈیجیٹل ایپلی کیشن کا قصور ہے، نادرا ریکارڈ کا قصور ہے، یا پھر بینظیر انکم سپورٹ اسکیم کا؟ کوئی بتانے سے قاصر ہے۔ سونے پہ سہاگا صرف اندازہ لگانے کےلیے ایک ایسے سرکاری ملازم کا شناختی کارڈ اسکین رزلٹ کے مطابق نگہبان راشن لینے کا اہل ٹھہرا جن کے بقول ان کی تنخواہ ہی اچھی بھلی ہے اور انہوں نے تو صرف چیک کرنے کےلیے کارڈ دیا۔ ڈیٹا بیس مرتب کرنے والوں پر حیرت ہے۔
عملہ بے چارہ خود پریشان۔ ایک صاحب محکمہ صحت سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک مقامی صحت مرکز کے لیبارٹری اور انتظامی امور ان کے ذمے تھے۔ ان کے بقول اس ذمے داری کی وجہ سے انتہائی نازک حالات کے شکار مریض بھی صحت مرکز سے واپس جانے پر مجبور ہیں کہ میری غیر موجودگی میں صحت مرکز کا نظام بھی درہم برہم ہے۔ لیکن ہم یقینی طور پر ان امور کی طرف توجہ دینا گوارا نہیں کرتے۔
حیرت ہے کہ ہمارے منصوبہ ساز ترقیاتی اور فلاحی منصوبہ سازی میں کس رول ماڈل کو اپنا نصیب العین بنائے بیٹھے ہیں کہ عوام کی مدد کے بجائے انہیں بھکاری بنانے پر پوری توجہ ہے۔ عوام کا ساتھ دینے کے بجائے انہیں بھکاریوں کی طرح مانگنے کی طرف راغب کیا جارہا ہے۔ الفاظ شاید سخت ہیں لیکن خدارا عملی طور پر معاملات دیکھیے۔ ایک جھگی میں رہنے والا بھی عزت کی طلب میں ہے۔ آپ تھیلے بانٹنے کے بجائے سستا آٹا مراکز بنا دیجیے۔ آپ راشن کی تمام اشیا ارزاں نرخوں پر دیجیے۔ عوام کو وہ عمل زیادہ پسند آئے گا۔ پندرہ ارب کا راشن آپ مکمل مفت دینے کے بجائے عوام کو سات ارب میں دیجیے۔ آپ اور کچھ نہ کرتے پیکیجز کے بجائے آپ یوٹیلٹی اسٹورز پر چیزوں کا معیار بہتر بنا دیتے لیکن آپ اوپن مارکیٹ میں موجود چینی اور یوٹیلٹی اسٹور پر موجود چینی کے معیار کا تقابل کیجیے تو حالات واضح ہوجائیں گے۔ ہر چیز آدھی قیمت پر دے دیجیے۔ عوام کو عزت سے سستی چیز دے دیجیے بجائے یہ کہ انہیں مانگنے والا اور بھکاری بناتے ہوئے مفت راشن کی لائنوں میں لگا دیں۔
خدارا! ملک کو ترقی دینے کے ساتھ اپنی سوچ کو بھی ترقی دیجیے۔ قوم کو بھکاری بنائیں گے تو بھکاری سوچ ہی ملک میں پروان چڑھے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔