ن لیگ کی بقا کا سفر
پنجاب میں پیپلز پارٹی کا زوال ہوا تو عمران خان نے پنجاب کے سیاسی میدان میں قدم رکھ دیا
الیکشن کے بعد اقتدار عوامی نمایندوں کے حوالے ہو چکا ہے، اس امر پر بحث ہو سکتی ہے کہ جو لوگ حکومت کی باگ ڈور سنبھال چکے ہیں، وہ عوامی نمایندگی کا کس حد تک حق ادا کرتے ہیں لیکن فی الحال یہ دیکھا جائے کہ نئی حکومتیں عوام کی خدمت کے لیے کیا اقدامات کرتی ہیں۔ پنجاب میں محترمہ مریم نواز وزیر اعلیٰ ہیں، میاں نواز شریف صاحب بھی پنجاب میں ڈیرے جمائے بیٹھے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ کی کامیابی کے لیے وہ بھی اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔
پنجاب میں پیپلز پارٹی کا زوال ہوا تو عمران خان نے پنجاب کے سیاسی میدان میں قدم رکھ دیا، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد جو بطور کرکٹر ان کی مداح تھی، وہ ان کی سیاسی شخصیت کی بھی ہمنوا بن گئی جب کہ پیپلز پارٹی کا مایوس ووٹر اور کارکن بھی پی ٹی آئی کا حامی بنتا چلا گیا، یوں عمران خان۔ عمران خان وزیراعظم بن گئے لیکن پنجاب ناتجربہ عثمان بزدار کے سپرد کردیا، یوں پنجاب میں ایک برا طرز حکمرانی دیکھنے میں آیا جس کا برملا اظہار اب تحریک انصاف کے رہنماء بھی کرتے ہیں۔
آئینی طریقہ کار سے حکومت کے خاتمے کے بعد پنجاب میں طویل ترین نگران دور میں حکمرانی کا قرعہ محسن نقوی کے نام نکلا جو بنیادی طور پر ایک صحافی ہیں تاہم انھوں نے ایک مختصر مدت میں پنجاب میں تیز رفتاری سے ترقیاتی کاموں کی داغ بیل ڈالی اور انھیں مکمل بھی کرایا جو ایک جز وقتی حکمرانی کے دور میں پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ انھوں نے ایک مضبوط اور منظم طریقے سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کو کامیابی سے چلایا جس کے کریڈٹ کے وہ حق دار ہیں۔
اب محترمہ مریم نواز پنجاب کی حکمران ہیںجنھوں نے اقتدار سنبھالتے ہیں عوامی فلاح و بہبود کے مختلف منصوبوں کا اعلان کیا ہے جن کو عملی جامہ پہنانے کے لیے گزشتہ روز اسمبلی نے عبوری بجٹ بھی منظور کر لیا ہے تا کہ جون تک صوبے کے مالی معاملات کو احسن طریقے سے چلایا جا سکے ۔ بجٹ کا بڑا حصہ صحت ، تعلیم ، تعمیرات و ترقیاتی منصوبوں کے علاوہ زراعت پر سبسڈی کے لیے بھی مخصوص کیا گیا ہے ۔
اس عبوری بجٹ کے خدو خال سے پنجاب کی حکومت کی سمت کا اندازہ ہو رہا ہے اور وہ درست معلوم ہوتی ہے ۔شاید حکمرانوں کو اس بات کا ادراک ہو چکا ہے کہ وہ کون سے کام یا منصوبے ہیں جن کی وجہ سے عوام دوستی کا دروازہ کھلتا ہے۔ اپنے آپ کوبطور عوامی وزیر اعلیٰ منوانے کے لیے محترمہ مریم نواز کے پاس ایک مکمل دور اقتدار موجود ہے ۔
میاں نواز شریف نے صائب فیصلہ کیا ہے کہ انھوں نے مرکز میں ایک کمزور حکومت کی باگ ڈور نہیں سنبھالی بلکہ وہ اپنے مخلص اور دیرینہ ساتھیوں کے ساتھ پنجاب میں ہی رک گئے ہیں۔ ان کا یہ فیصلہ ان کی جماعت کی آیندہ کی انتخابی سیاست کا فیصلہ ہے، وہ ایک زیرک اور منجھے ہوئے سیاسی رہنماء ہیں ، وہ اس بات کا بھانپ چکے ہیں کہ پنجاب ن لیگ کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔
اس کمی کا سہرا گزشتہ سولہ ماہی حکومت ہے، مہنگائی کی وجہ سے عوام میاں شہباز شریف کی حکومت سے ناراض ہو گئے جب کہ ان کے حکومتی اتحادیوں نے یہ مشکل بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا اور سائیڈ پر ہو گئے اور تمام تر بوجھ میاں شہباز شریف کی جھولی میں پھینک دیا۔
آج ایک بار پھر آئی ایم ایف پاکستان میں موجود ہے اور مرکز میں ایک بار پھر میاں شہباز شریف کی حکومت قائم ہے اور ایک بار پھر اتحادیوں کی یہ شدید خواہش ہے کہ عوام کی متوقع مشکلات کا بوجھ بھی میاںشہباز شریف کے کھاتے میں ڈال دیں اور اب تو میاں نواز شریف بھی بول پڑے ہیں اور حکومت سے سوال کیا ہے کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی گیس مزید کتنی مہنگی ہو گی اور حکومت عوام کے صبر کو کب تک آزمائے گی۔
بہر حال میاں نواز شریف کی مکمل توجہ اس وقت پنجاب کی حکومت کے معاملات میں ہے، ان کی حتی المقدرو یہ کوشش ہو گی کہ پنجاب میں ایک صاف، شفاف، عوام دوست طرز حکمرانی کا تاثر اجاگر کیا جا سکے تا کہ وہ عوام جو کبھی نواز شریف کے دلدادہ اور ان کی ایک پکار پر لبیک کہتے تھے وہ ایک بار پھر میاں نواز شریف سے جڑ جائیں۔
یہ ایک طویل اور صبر آزما سفر ہے لیکن میاں نواز شریف جیسی معاملہ فہم اور عوام کے ساتھ رابطہ رکھنے والی شخصیت ہی یہ سفر کامیابی سے طے کر سکتی ہے اور یہ سفر ن لیگ کی بقا کا سفر ہے۔