تاریخ کا فیصلہ اٹل ہے
معاشرے کے ہر فرد کو بلا رنگ و نسل کی تفریق کے انصاف کی فراہمی اولین ترجیح ہوتی ہے
کاروبار سلطنت چلانے کے لیے آئین ہی سب سے مستند اور مقدس دستاویز ہوتی ہے۔ آئین کی پاس داری اور قانون کی عمل داری سے ہی ریاستی اداروں کے امور میں توازن پیدا ہوتا ہے۔ آپ دنیا کے باوقار، مہذب اور عادلانہ جمہوری معاشروں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں وہاں آئین و قانون کی حکمرانی ہی سب سے پہلا اور رہنما اصول ہوتی ہے۔
یہ تاریخ کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ عدل و انصاف کی فراہمی ہی معاشرے کی تعمیر میں صحت مند اور بنیادی عامل کا مثبت کردار ادا کرتی ہے، جب کہ ناانصافی، حق تلفی، ظلم و زیادتی، اناپرستی، ذاتی عناد، باہمی رنجشیں، منتقمانہ طرز عمل اور شخصی تضادات سے نہ صرف عوامی اور قومی و بین الاقوامی سطح پر لاتعداد مسائل جنم لیتے ہیں، یہ عناصر معاشرے اور قوموں کے انتشار و زوال کا بھی سبب بنتے ہیں۔
جہاں ضد، انا، خود پرستی، طاقت اور آمرانہ طرز عمل کے ذریعے اپنی بات منوانے، اپنے موقف کو ہی درست ثابت کرنے اور رہنما آئینی اصولوں، عدل اور انصاف کے تقاضوں کو پامال کرنے کی روایت پڑ جائے وہاں ادنیٰ سے اعلیٰ تک انصاف کی فراہمی، آئین و قانون کی حکمرانی، باوقار عادلانہ معاشرتی و جمہوری نظام اور ریاستی اداروں کے کردار اور استحکام پر ایسے بڑے سوالیہ نشانات لگ جاتے ہیں جن کا جواب تلاش کرنا بجائے خود ایک سوال بن جاتا ہے۔
پاکستان بدقسمتی سے ان ممالک میں شامل ہے جہاں سات دہائیاں گزرنے کے بعد آج بھی آئین و قانون کی حکمرانی، ریاستی اداروں کے کردار، جمہوریت کی بقا و تسلسل، پارلیمنٹ کی بالادستی اور عدل و انصاف کی فراہمی کے حوالے سے مبصرین و تجزیہ نگار آج بھی سوالات اٹھا رہے ہیں۔ قومی تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ تمام ادارے ایک دوسرے پر حاوی ہونے اور طاقت و حاکمیت کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں مصروف رہے ہیں، کبھی پارلیمنٹ کی بالادستی کا غلغلہ، کبھی عدلیہ کا رعب داب، کبھی میڈیا کی برتری کا غوغا ،اس خوف نے وقت کے حکمرانوں کو نہ آزادانہ ماحول میں کام کرنے کا موقع فراہم کیا، نہ ہی جمہوریت کو استحکام ملا اور نہ ہی انصاف کا پرچم سربلند ہوا۔ ہم من حیث القوم آج بھی ایسی ہی صورتحال سے گزر رہے ہیں۔
ماہرین عمرانیات کے مستند اصول کے مطابق معاشرے کے ہر فرد کو بلا رنگ و نسل کی تفریق کے انصاف کی فراہمی اولین ترجیح ہوتی ہے، کیونکہ جب کسی معاشرے میں ظلم و زیادتی اور ناانصافی کا چلن ہوگا، شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق کو پامال کیا جائے گا اور ان کی جان، مال، عزت و آبرو کے تحفظ کو یقینی نہیں بنایا جائے گا، اس وقت تک معاشرے میں امن قائم نہیں ہو سکتا اور قومیں ترقی کا سفر طے نہیں کر سکتیں۔
حضرت علیؓ کا قول صادق ہے کہ ''معاشرہ کفر سے تو قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم و ناانصافی سے نہیں۔'' ثابت ہوا کہ آج جو غیر مسلم معاشرے ترقی کر رہے ہیں وہاں ظلم و زیادتی اور ناانصافی نہیں بلکہ باوقار نظام عدل موجود ہے۔ گویا عدل فراہم کرنے کی ذمے دار عدالتیں اگر عوام الناس کو بلاخوف و خطر اور کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے انصاف فراہم کر رہی ہوں تو وہ قومیں ہر میدان میں فاتح قرار پاتی ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک مایوس اور بددل رپورٹر نے برطانیہ کے سرونسٹن چرچل سے جرمنی کے ہٹلر کی پرزور شان دار فتوحات ذکر کرتے ہوئے نازی جرمنی کی عسکری قوت اور تباہ کن تیاری کے مقابلے برطانیہ کے عسکری حامیوں اور تساہل پسندی کا ذکر کرتے ہوئے یہ پوچھا کہ '' مسٹر چرچل! تم جنگ کیسے جیتو گے؟'' تو چرچل نے رپورٹر کے سوال کا جواب ایک سوال کی شکل میں دیا اور اس سے پوچھا کہ '' کیا برطانیہ میں ہماری عدلیہ آزاد ہے اور غیر جانبدار ہے؟ اور وہ اپنے فرائض انجام دے رہی ہے؟'' پھر قدرے توقف کے بعد چرچل نے کہا کہ ''اگر عدلیہ میں انصاف ہو رہا ہے ہم جنگ یقینا جیتیںگے۔''
یہاں سوال بنتا ہے کہ کیا ہمارے ہاں عدلیہ آزاد اور بغیر کسی ڈر و خوف اور دباؤ کے اپنے فرائض انجام دیتی رہی ہے؟ اس سوال کا جواب ہاں میں نہیں دیا جاسکتا۔ اس کی تازہ مثال بھٹو صدارتی ریفرنس کیس ہے۔ عدالت عظمیٰ نے فیصلہ دیا کہ بھٹو کا ٹرائل شفاف نہیں تھا، عدلیہ نے ڈر اور خوف میں فیصلہ دیا، لیکن اب فیصلہ کالعدم ہو سکتا ہے اور نہ ہی اسے تبدیل کرنے کا کوئی قانونی طریقہ کار موجود ہے اور نہ صدارتی ریفرنس کی بنیاد پر شواہد کا دوبارہ جائزہ لے سکتے ہیں۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ 44 سال بعد تاریخ درست ہونے جا رہی ہے۔ عدالت نے مانا کہ بھٹو کو آئین کے مطابق منصفانہ ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا۔ شیری رحمن کے بقول ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ '' ڈکٹیٹر سے کچھ نہیں مانگوں گا تاریخ میں امر ہو جاؤں گا۔''
یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہے کہ جو رہنما حق پر ہوتے ہیں اور تاریخ میں زندہ رہنا چاہتے ہیں وہ وقت کے ظالم و جابروں کے آگے سرنگوں نہیں ہوتے۔ وقت کے حاکم عباسی خلیفہ ابو جعفر عبداللہ بن محمد المنصور نے امام ابو حنیفہ کو اپنی اطاعت پر مجبورکیا اور انکار پر انھیں جیل بھیج دیا، جہاں ان پر تشدد کیا جاتا تھا تاکہ وہ خلیفہ کا حکم مان لیں لیکن انھوں نے سر جھکانے سے انکارکردیا پھر جیل ہی سے ان کا جنازہ اٹھا۔
بھٹو تو دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتا، لیکن وہ تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا کیوں کہ حکومتوں و عدالتوں کے فیصلوں کے مقابلے میں تاریخ کا فیصلہ اٹل ہوتا ہے۔