روزے کی انسان دوست سائنس

جدید سائنسی تحقیق و تجربات نے انسانی صحت کے لیے روزے کی افادیت عیاں کر دی


جدید سائنسی تحقیق و تجربات نے انسانی صحت کے لیے روزے کی افادیت عیاں کر دی ۔ فوٹو : فائل

یہ دو سال پہلے کی بات ہے، پچیس سالہ امریکی نوجوان، ایلکس ایلن اپنے چھوٹے سے شہر سے سان فرانسسکو منتقل ہوا۔ وہ ایک سافٹ وئیر انجیئنرتھا اور اسے امریکا کے ایک بڑے شہر میں ملازمت مل گئی تھی۔ سان فرانسسکو کا معتدل موسم اسے پسند آیا۔ پھر شہر تہذیبی و ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز بھی تھا۔ وہ جلد اپنے نئے دیس سے مانوس ہو گیا۔

مگر ایک مسئلے نے بدستور ایلکس کو اپنی گرفت میں لیے رکھا۔ وہ کھانے پینے کا شوقین تھا۔ اسی شوق نے اسے موٹا تازہ بنا دیا۔ کہتے ہیں کہ موٹاپا سو بیماریوں کی جڑ ہے۔ اسی لیے ایلکس اکثر سستی، پژمردگی اور کسی نہ کسی چھوٹی بیماری میں مبتلا رہا کرتا۔ وہ زندگی سے پورے طور پہ لطف اندوز نہیں ہو رہا تھا۔

نئے دفتر میں اس کی ملاقات ایک مسلمان ساتھی سے ہوئی جو بہت زندہ دل تھا۔ دونوں جلد دوست بن گئے۔ اسی دوران رمضان المبارک کا مبارک مہینا آ پہنچا اور مسلم دوست روزے رکھنے لگا۔ ایلکس کو رمضان اور روزے کی بابت زیادہ معلوم نہ تھا۔ مسلمان دوست نے اسے روزوں کی طبی و روحانی خصوصیات کے بارے میں بتایا۔ اور یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ اپنا وزن کم اور موٹاپے سے چھٹکارا پا کرصحت بحال کرنے کی خاطر روزے کے مانند دن بھر بھوکا رہے اور شام کو کھانا کھائے۔

ایلکس کو علم تھا کہ کئی امریکی معین مدت تک بھوکے پیاسے رہتے اور پھر کھانا کھاتے ہیں۔ ان امریکیوں کا دعوی تھا کہ اس طریقے سے انھیں قیمتی طبی و روحانی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اور اب مسلمان دوست نے بتایا کہ مسلمانوں نے تو پچھلی چودہ صدیوں سے یہ صحت بخش طریق اپنا رکھا ہے۔ اللہ تعالی اور نبی ﷺ نے انھیں یہ عمل اپنانے کا حکم دیا لہذا اس میں کوئی نہ کوئی مفید و بامقصد حکمت ہو گی۔

مسلمان دوست کی تجویز و اصرار پر وہ بھی روزے رکھنے لگا۔ معنی یہ کہ صبح ناشتا کرتا اور پھر چودہ گھنٹے بھوکا پیاسا رہتا۔ ایلکس نے یہ عمل تین ہفتے انجام دیا۔ اس دوران امریکی نوجوان کا وزن دوسو پاؤنڈ سے گھٹ کر ایک سو پچاسی پاؤنڈ رہ گیا۔ وزن میں یہ کمی زیادہ نہیں تھی پھر بھی ایلکس نے خود کو پہلے کی نسبت زیادہ ہلکا پھلکا محسوس کیا۔ سستی کم ہو گئی اور پژمردگی بھی جاتی رہی۔ اسے روزے رکھنے کے اسلامی طریق سے اتنا زیادہ افاقہ ہوا کہ وہ ہر مہینے اسے ایک دو ہفتوں کے لیے اپنانے لگا۔

آج ایلکس کا وزن 160 پاؤنڈ ہو چکا اور ماضی کے مقابلے میں خود کو جسمانی و ذہنی طور پہ زیادہ تندرست وتوانا پاتا ہے۔ وہ اپنے مسلمان دوست کا بہت شکرگذار ہے کہ اس نے روزوں کے عمل سے اسے روشناس کرایا۔ اور یہ عمل اس کو تندرستی کی عظیم نعمت دینے کا ذریعہ بن گیا۔ ایلکس ساری عمر یہ عمل اپنائے رکھنا چاہتا ہے۔

٭٭

کچھ عرصے بھوکا پیاسا رہنا ایک قدیم روایت ہے۔ زمانہ قدیم میں دانشور انسان یہ عمل اپناتے تھے۔ پھر یہودی، بدھی، عیسائی اور ہندو مذہبی طور پہ بعض دن بھوکا پیاسا رہنے لگے۔ مگر اسلام پہلا مذہب ہے جس میں پیروکاروں پہ ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے۔ گویا ان کی جسمانی وروحانی تندرستی یقینی بنانے کا اہتمام کیا گیا۔ اس طرح رمضان دین اسلام کے خاص وصف کی حیثیت رکھتا ہے۔

سوال مگر یہ ہے کہ جدید طبی سائنس کیا روزے سے وابستہ فوائد کی تصدیق کرتی ہے؟ جدید طبی تحقیق اس سوال کا جواب اثبات میں دیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ طبی سائنس داں اپنی تحقیقات و تجربات کی بدولت ایسے فوائد دریافت کر چکے جن سے انسان پہلے ناواقف تھا۔ مثال کے طور پہ اول یہ اہم نکتہ کہ روزے رکھنے سے انسانی عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔ دوم یہ کہ انسان کی ذہنی صلاحیتیں طاقتور ہو جاتی ہیں۔ یہ روزوں کے دو بڑے فائدے ہیں۔

عمر میں اضافہ

پروفیسر والٹر لونگو (Valter Longo) امریکا کی یونیورسٹی آف ساوتھرن کیلیفورنیا سے منسلک خلویاتی حیاتات داں ہیں۔ وہ فاسٹنگ (یعنی روزوں) پہ عرصہ دراز سے تحقیق کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں، ''روزے رکھنا انسانی جسم میں ایک پیدائشی (یا بلٹ ان) نظام ہے۔ اس نظام کی مدد سے انسانی جسم زہریلے عناصر اور کوڑے کرکٹ سے نجات پاتا ہے۔ جدید انسان مگر ہر وقت کھاتا پیتا رہتا ہے۔ اسی لیے یہ نظام اب غیر متحرک ہو چکا۔''

ماہرین کی رو سے ایک انسان ''تین سو ستر کھرب'' سے زائد خلیوں کا مجموعہ ہے۔ یہ خلیے جینز (Genes) کی ہدایات پہ عمل کرتے ہیں۔ روزوں پہ پروفیسر والٹر لونگو کی تحقیق سے افشا ہوا کہ جب انسانی جسم میں بھوک پیاس جنم لے اور اسے کیلوریز یا حرارے نہ ملیں تو ایسے جین متحرک ہو جاتے ہیں جو خلیوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ اپنی سرگرمیاں روک دیں تاکہ اپنے وسائل محفوظ رکھ سکیں۔ معنی یہ کہ خلیے تقسیم ہو کر نشوونما پانے کے بجائے جامد ہو جاتے ہیں۔

غذا اور پانی نہ ملنے سے خلیوں کا اپنی روایتی سرگرمیاںروک دینے کا عمل سائنسی اصطلاح میں ''آٹوفیگی'' (Autophagy)کہلاتا ہے۔ اس عمل میں داخل ہو کر کوئی مرض خلیوں پہ اثر انداز نہیں ہو پاتا۔ نیز وہ دباؤ (Stress) اور سوزش (Inflammation ) سے بھی محفوظ ہو جاتے ہیں جو انسان پہ بڑھاپا لانے والے عناصر ہیں۔ اس کے برعکس خلیے اعضا کے خراب حصوں کی مرمت کرنے لگتے ہیں۔ نیز انسانی جسم میں جو خلویاتی فضلہ جمع ہو گیا ہے، اسے نکال باہر کرتے ہیں۔

انسان سمیت تمام ممالیہ جانوروں میں بھوک پیاس کی حالت میں ایک ہارمون ، آئی جی ایف۔1 (IGF-1) کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔ یہ ہارمون نوجوان لڑکے لڑکیوںکو لمبا اور طاقتور ہونے میں مدد دیتا ہے۔ مگر بالغ انسانوں میں اس کی مقدار بڑھ جائے تو کینسر چمٹ جانے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، نیز بڑھاپا بھی جلد آنے لگتا ہے۔ گویا اس کی کمی عمر میں اضافہ کرتی ہے۔

دماغی صلاحیتوں میں بہتری

پروفیسر مارک میٹسن (Mark Mattson) امریکا کی جان ہوپکنز یونیورسٹی سے منسلک مشہور نیوروسائنس داں ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''جب انسان بارہ گھنٹے یا زائد عرصے کھانے پینے سے پرہیز کرے تو اس کے جسم میں گلائکوجن (Glycogen) کم ہو جاتا ہے۔ یہ شکر (گلوکوز) کی ایک قسم ہے جسے خلیے بطور ایندھن استعمال کرتے ہیں۔ گلائکوجن کی کمی کے بعد خلیے اپنے کام جاری رکھنے کے لیے انسانی جسم میں محفوظ چربی (یا چکنائی )کو بطور ایندھن استعمال کرنے لگتے ہیں۔

''جب چربی استعمال ہو تو انسانی جسم میں خاص قسم کے سالمے یا مالیکیول،کیٹون (Ketone) پیدا ہوتے ہیں۔ یہ توانائی فراہم کرنے والے سالمے ہیں جنھیں ہمارا جگر بناتا ہے۔ ہمیں تحقیق و تجربات سے پتا چلا ہے کہ جب انسانی جسم چربی بطور ایندھن استعمال کرنے لگے اور کیٹون پیدا ہوں، تو یہ تبدیلی انسان کوتندرستی عطا کرتی اور خصوصاً اس کی ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ کر دیتی ہے۔''

وجہ یہ ہے کہ کیٹون کی ایک قسم ''بی ایچ بی'' (beta-hydroxybutyrate) دماغ کو اپنا مسکن بنا لیتی ہے۔ معنی یہ کہ دماغ میں اس کی کثرت ہو جاتی ہے۔ کیٹون کی قسم انسان کی یادداشت اور سیکھنے کی صلاحیت بہتر کرتی ہے۔ نیز اس میں آٹوگیفی کا عمل جنم دینے میں مددگار بنتی ہے۔ اسی قسم کے باعث ہمارا دماغ دماغی طاقت بڑھانے والے نیورون یا دماغی خلیے پیدا کرتا ہے۔

ان دماغی خلیوں میں سب سے اہم ''بی ڈی این ایف'' (Brain-derived neurotrophic factor) ہے۔ اس کو ہمارے دماغ میں یادداشت کا مرکز سمجھا جانے والا علاقہ ''ہپوکامپس'' (Hippocampus) جنم دیتا ہے۔ بی ڈی این ایف ایک پروٹینی مادہ ہے جو ہماری یادداشت تیز کرتا ہے۔ سیکھنے کی ہماری صلاحتیں مانجھ دیتا ہے۔ نیز ہمارا موڈ یا مزاج بھی بہتر کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے، جو انسان (اور حیوان بھی )کئی گھنٹے بھوکے پیاسے رہتے ہیں، وہ پہلے کی نسبت زیادہ ہوشیار، تازہ دم اور چاق وچوبند ہو جاتے ہیں۔ ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت تیز ہوتی ہے۔ حواس بہتر انداز میں کام لگنے لگتے ہیں۔ وہ سستی اور مایوسی سے چھٹکارا پا لیتے ہیں۔ اگر انسان دن بھر کھاتا پیتا رہے تو یہ فوائد اسے حاصل نہیں ہوتے۔

ماہرین کی نظر میں کیٹون انسانی جسم کے اسرار کا درجہ رکھتے ہیں۔ اسی لیے ان سالمات پہ تحقیق و تجربے جاری ہیں۔ مثلاً حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ کہ جن جانوروں کے دماغ میں کوئی چوٹ لگی اور ان کے جسم کیٹون پیدا کرنے لگے تو وہ جلد صحت یاب ہو گئے۔ گویا کیٹون دماغ کو پہنچنے والے صدمات، امراض وغیرہ میں افاقہ دینے کا باعث بنتے ہیں۔

دیگر طبی فائدے

اکیسویں صدی میں ماہرین طب یہ تحقیق کرنے لگے کہ انسان جب روزہ رکھے اور مسلسل تیس دن تک، تو اسے کس قسم کے طبی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ ان کی تحقیق و تجربات سے عمر اور دماغی صلاحیتوں میں اضافے کے علاوہ روزوں کے درج ذیل فوائد نمایاں ہو چکے:

٭ وزن میں کمی ہوتی ہے، یوں موٹاپے سے جان چھٹتی ہے ٭ کینسر سے بچاؤ ٭ ذیابیطس قسم اول سے بچاؤ ٭ الزائمر طبی خلل سے محفوظ رہنا ٭ نظام استحالہ(Metabolism) بہتر ہوتا ہے۔ ٭ نظام ہاضمے میں بہتری آتی ہے۔ ٭ جسمانی سوزش کم ہوتی ہے۔ ٭ جسم میں چکنائی کی سطح گھٹا کر دل کو صحت مند کرتے ہیں۔

روزے دار کو مگر یہ تمام طبی فائدے اسی وقت ملتے ہیں جب وہ سحر و افطار میں عمدہ غذا کھائے۔ ایسی غذا جس میں چکنائی ، نمک اور چینی معتدل مقدار میں ہو۔ ان اشیا کی زیادتی روزے رکھنے کے بیشتر فوائد زائل کر دیتی ہے۔ لہذا صحت کی لازوال دولت پانے کے لیے اعتدال پسندی بہترین طرز ِحیات ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔