روایتی حکمرانی
ہمارا حکومتی ڈھانچہ طویل مدتی، وسط مدتی اور فوری عملی اقدامات سے محروم ہے
پاکستان کے سیاسی نظام کا بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک روایتی اور پرانے خیالات پر مبنی حکمرانی کے نظام کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں۔
اگرچہ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومت ، بنیادی طور پر نظام کی بہتری کی بات تو بڑی شدت سے کرتے ہیں مگر تبدیلی کے لیے جو موثر حکمت عملی یا جدیدیت کی بنیاد پر فیصلے درکار ہیں اس کے لیے ہم تیار نہیں ہیں ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ حکمرانی کے نظام اور عوام میں خلیج نظر آتی ہے اور لوگوں کو لگتا ہے کہ ان کی توقعات پر مبنی نظام فی الحال اس سیاسی نظام میں ممکن نہیں ۔ہمارا حکمران طبقہ چاہے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو اور کوئی بھی بڑی سیاسی شخصیت ہو سب بڑے بڑے دعوے ، خوشنما نعرے اور بلند وبانگ منصوبوں کی بنیاد پر سب کچھ بدلنے کی باتیں کرتے ہیں ۔لیکن عملی بنیادوں پر ہمارا سیاسی ، جمہوری ، معاشی ، انتظامی ، قانونی اور ادارہ جاتی نظام آگے بڑھنے یا بہتری پیدا کرنے میں ناکامی سے دوچار ہے ۔
وفاق اور صوبوں میں انتخابات کے نتیجے میں نئی حکومتیں تشکیل دی جاچکی ہیں ۔ جو جماعتیں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہیں وہ نئی نہیں ہیں۔ یہ کئی دہائیوں سے حکمرانی کے نظام سے جڑی ہوئی ہیں ۔ پیپلزپارٹی کا سندھ میں یہ چوتھا مسلسل حکمرانی کا دور ہے یعنی ان کی صوبہ میں حکمرانی کو پندرہ برس بیت گئے اور اب چوتھا دور حکمرانی شروع ہوچکا ہے۔
مسلم لیگ ن پنجاب میں کئی دہائیوں تک حکمرانی کے نظام سے جڑی رہی ہے اور پنجاب میں دس برس ان کی مسلسل حکمرانی رہی ہے اور اب پنجاب میں اسی جماعت یا خاندان کی حکمرانی ہے ۔ تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا میں تیسری مسلسل حکومت ہے ۔ اسی طرح پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف مختلف اتحادی جماعتوں کی بنیاد پر وفاق میں حکومت کرتے رہے ہیں ۔ اس وقت بھی وفاق میں مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی سمیت ان کی اتحادی جماعتوں کی حکومت ہے اور اس کی سربراہی اس وقت وزیراعظم شہباز شریف کے ہاتھوں میں ہے ۔
اسی طرح محض سیاسی جماعتیں ہی نہیں بلکہ سیاسی افراد جو حکومت کا حصہ ہوتے ہیں یہ بھی کوئی نئے چہرے نہیں ۔جو لوگ بھی وفاق یا صوبوں میں وزیر اعظم، وزیر اعلی اور وفاقی یا صوبائی کابینہ میں ہیں ان میں مجموعی طور پر ایک بڑی تعداد پرانے چہرے ہی ہیں اور وہ مختلف حیثیت میں حکومت سازی کا حصہ رہے ہیں ۔ جو بھی حکومت آتی ہے اس کا یہ ہی نعرہ ہوتا ہے کہ ہم اس بار سب کچھ بدل دیں گے مگر قوم کے حالات کی بہتری کم اور ان کے ذاتی یا خاندانی معاملات میں بہتری یا منافع زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔
اس لیے اب مرکز اور صوبوں میں جو بھی حکومتیں ہیں وہ نئی نہیں ہیں بلکہ پرانی جماعتوں ، پرانے چہروں پر مبنی نظام حکومت ہی موجود ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اب تک حکمرانی کے نظام میں شفافیت کیونکر پیدا نہیں ہو سکی۔مسئلہ حکومتوں یا سیاسی جماعتوں کی صلاحیت کا ہے یا ان کی عدم ترجیحات کا یا کمزور سیاسی کمٹمنٹ کا ۔کیونکہ جو جماعتیں حکمرانی کے نظام سے جڑی رہی ہیں ان کو پہلے تو اس بات پر جوابدہی میں لانا ہوگا کہ اب تک وہ اپنے اپنے صوبوں میں ایک مضبوط حکمرانی کا نظام کیونکر قائم نہیں کرسکیں ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ہم بطور ریاست ایک شفاف حکمرانی کا نظام قائم نہیں کرسکے ۔ بنیادی طور پر ہماری حکمرانی کے نظام میں چند اہم فکری مغالطے ہیں یا ہم نے جان بوجھ کر ان کو پیدا کیا ہوا ہے تاکہ یہاں حکمرانی کا نظام عام آدمی کے مقابلے میں طاقت سے جڑے لوگوں کے مفادات کو تقویت دے سکے ۔ہم نے تو دنیا میں اچھی حکمرانی کے تجربات سے بھی کچھ سیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ کیسے ہم دنیا کے تجربات سے سیکھ کر خود کو بہتر بناسکتے ہیں ۔اول، ہمارا حکمرانی کا نظام مرکزیت کی بنیاد پر کھڑا ہے جہاں اختیارات کا مرکز عام افراد یا نچلی سطح پر اختیارات کی عدم تقسیم ہے۔
18ویں ترمیم کے باوجود ہم ایک مضبوط اور خود مختار مقامی حکومتوں کے نظام کے لیے تیار نہیں اور اختیارات کو مرکز یا صوبوں تک محدود کرکے نظام چلانا چاہتے ہیں۔ دوئم، ایک ہی نظام حکومت میں ایک دوسرے کے خلاف یا متبادل نظاموں یا اداروں کی تشکیل کرکے اور زیادہ بگاڑ کا شکار ہو رہے ہیں ۔
سوئم، قومی ترقی کا ماڈل پائیدار ترقی نہیں بلکہ لوگوں کو ریاستی ، حکومتی یا خیراتی اداروں تک محدود کرکے ان کو خود سے پاؤں پر نہ کھڑا کرنے کی حکمت عملی یا ان میں ہاتھ پھیلا کر مانگنے کی ترغیب دینا اور انسانی ترقی کو پیچھے چھوڑ کر محض بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں تک خود کو محدود کرنا، چہارم، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور ترقی کو بڑے شہروں تک محدود کرنے کی حکمت عملی اور چھوٹے و بڑے شہروں میں ترقی کے تناظر میں بڑھتی ہوئی خلیج۔ پنجم، حکومتی ریگولیٹری نظام کی ناکامی اور لوگوں کو نجی شعبہ جات کے رحم و کرم پر چھوڑنا یا ان میں بڑے بڑ ے مافیاز کی موجودگی میں عام آدمی کا استحصال ،ششم، پائیدار اور ناگزیر اصلاحات نہ کرنا یا معاملات کو محض روزمرہ کی ضرورت تک محدود کرنا ۔ہفتم، نگرانی، جوابدہی، احتساب اور شفافیت کے نظام کو یکسر نظرانداز کرنے کی پالیسی اور سیاسی حکمرانی کے مقابلے میں ایک مضبوط بیوروکریسی کا نظام یا کنٹرولڈ جمہوری نظام کی موجودگی ، ہشتم قومی معیشت، چھوٹی صنعتوں کو فروغ نہ دینا ، کاروبار کو مشکل بنانا، لوگوں پر مختلف مدوں میں ٹیکسوں کی بھرمار اور معیشت کا علاج غیر ممالک یا عالمی مالیاتی اداروں سے قرضوں کا حصول اور سخت گیر معاشی یا ادارہ جاتی اصلاحات سے گریز ، نہم، حکمرانی کے نظام میں محروم یا کمزور یا پسے ہوئے طبقات کو نظرانداز کرنا اور ان کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کی بجائے مشکلات میں اضافہ ، دہم، مسائل کا حل روایتی ، فرسودہ، پرانے خیالات، پرانی حکمت سے جوڑ کرجدید حکمرانی کے تصورات کو عملی شکل نہ دینا ہمارے بحران کی وجوہات ہیں ۔
ہمارا حکومتی ڈھانچہ طویل مدتی، وسط مدتی اور فوری عملی اقدامات سے محروم ہے ۔ خاص طور پر حکومتی نظام کی سطح پر جو انفراسٹرکچرل اصلاحات درکار ہیں وہ کرنے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔کیونکہ حکومت نظام میں شامل اہم افراد یا جن کے پاس فیصلے کرنے کی اصل طاقت ہے ان کے اپنے مفادات سخت گیر اصلاحات یا ایسی اصلاحات جن میں وہ خود جوابدہ ہوں سے گریز کیا جاتا ہے ۔ہم اس غلط فہمی کا بھی شکار ہیں کہ کمزور سیاسی وجمہوری نظام پر کھڑی حکومتیں بڑے فیصلے کرسکتی ہیں ۔
کمزور حکومتی نظام کا بڑا چیلنج خود اپنی سیاسی بقا کا ہوتا ہے اور اس بقا میں ان کے پاس سوائے سمجھوتوں کی سیاست کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ اس لیے مسئلہ کسی ایک جماعت کی حکومت کا نہیں بلکہ پورے حکومتی اور ادارہ جاتی نظام کے ڈھانچوں میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کے بغیر ہم شفاف حکمرانی کا نظام قائم نہیں کرسکیں گے۔
ایسا نظام جہاں حکومت اور عوام کے درمیان خلیج یا بداعتمادی نہیں بلکہ ہم آہنگی ہو وہیں ریاستی نظام کی عوامی اہمیت اور ساکھ بڑھ سکتی ہے۔ہمارا مجموعی نظام غیر معمولی حالات اور سنگینی کا احساس دلاتا ہے۔ اگر ہم نے واقعی حکومتی نظام کو عوامی امنگوں میں تبدیل کرنا ہے تو ان غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کی مدد سے ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے ، لیکن یہ کام پرانی سوچ اور فرسودہ حکمرانی کے نظام سے ممکن نہیں۔