’’الطاف حسین کی وطن واپسی کارکنوں کے فیصلے پر منحصر ہے‘‘

منی لانڈرنگ کیس میں ایم کیو ایم سرخرو ہوگی


ایم کیوایم کے ماضی، حال اور مستقبل کے حوالے سے ’ایکسپریس فورم ‘‘ میں ڈپٹی کنوینر متحدہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور رکن رابطہ کمیٹی امین الحق کی گفتگو۔ فوٹو : فائل

PESHAWAR: متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی لندن میں زیر حراست ہونے کی خبر نے پورے سندھ میں بالخصوص اور بالعموم پاکستان بھر میں تہلکہ مچادیا۔

سندھ کے عوام کی اکثریت نے اسکاٹ لینڈ یارڈ کی اس کارروائی پر شدید غم وغصے کا اظہار کیا، خبر آتے ہی ملک بھر میں ایم کیو ایم کے حامیوں اور الطاف حسین کے پرستاروں نے سڑکوں پر آکر قائد سے محبت اور انھیں زیر حراست رکھنے کے فیصلے کی مختلف انداز میں مذمت کی۔ کئی روز تک الطاف حسین کا زیر حراست رہنا الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا کی سب سے خاص خبر بنا رہا۔

دنیا بھر میں ایم کیو ایم کے دفاتر اور وہاں رہنے والے ایم کیو ایم کے رہنماؤں، کارکنوں اور عوام نے الطاف حسین سے اظہار محبت کیا۔ کراچی، حیدرآباد، سکھر، میرپورخاص اور دیگر علاقوں میں سوگ بھی منایا، الطاف حسین کے زیر حراست رہنے تک لاکھوں کارکنوں اور رہنماؤں نے دھرنے بھی دیے اور صورتحال اس نہج پر پہنچ گئی کہ شہر قائد میں کئی روز کاروبار زندگی معطل رہا۔الطاف حسین تو چار روز میں ہی ضمانت پر رہا ہوگئے جس سے دنیا بھر میں ایم کیوایم کے دفاترمیں جشن کا سماں دیکھا گیا۔



اس تمام صورتحال کے بعد ایم کیو ایم کے کارکنوں اور پاکستان بھر کے عوام میں ایم کیو ایم کے مستقبل، آئندہ کی صورتحال کے حوالے سے مختلف سوالات گردش کررہے ہیں۔ ان سوالات کے جواب حاصل کرنے اور ایم کیو ایم کے حوالے سے مستقبل کا جائزہ لینے کے حوالے سے ایکسپریس فورم کا انعقاد کیا۔ اس حوالے سے گذشتہ دنوں ہم نے متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں سے گفتگو کی۔
ایکسپریس فورم کی یہ روداد نذر قارئین ہے

ڈاکٹر خالد مقبو ل صدیقی (ڈپٹی کنوینر، متحدہ قومی موومنٹ)

دھرنا عوامی ردعمل ہے اور ردعمل سے لوگ سمجھتے ہیں کہ دھرنے کا مقصد صرف احتجاج ہے۔ ایسا نہیں ہے ، ہمارا دھرنا الطاف حسین بھائی سے اظہار یکجہتی اور برطانوی حکومت کے رویے کے خلاف پوری قوم کا احتجاج تھا۔ الطاف بھائی کے معاملے میں بھی کچھ غیر متعلقہ کام کیے گئے، ہمیں بتایا جائے کہ چھوٹی بچی افضا الطاف کا لیپ ٹاپ لے جانا کہاں کی قانونی کارروائی ہے۔

الطاف حسین برسہا برس سے سکے جمع کررہے تھے، وہ بھی برطانوی پولیس لے گئی، ہم نے سوچا کہ کیا اب سکے بھی منی لانڈرنگ میں آگئے ہیں۔ پوری قوم نے برطانیہ کے اس رویے پر احتجاج کیا گیا، الطاف بھائی اور ہم سب کو برطانوی قوانین اور برطانوی حکومت پر اعتماد ہے۔

سب لوگ جانتے ہیں کہ برطانیہ انسانی حقوق کے علمبردار ممالک میں سے ایک ہے، انھوں نے اپنے ملک میں انسانی حقوق کا بہت خیال رکھا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ برطانیہ کے ہاتھوں ہی دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی ہوئی ہیں۔ جس طرح برطانوی حکام نے الطاف حسین کے معاملے کو دیکھا ، اس رویے پر قائد تحریک اور ہم سب کو بہت دکھ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا ایم کیو ایم کسی نیو ورلڈ آرڈر کی راہ میں کوئی رکاوٹ تو نہیں جس کی وجہ سے اسے ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔



منی لانڈرنگ کے حوالے سے سوال پرڈاکٹر خالد مقبول کا کہنا تھا کہ یہ بات سوچنے کی ہے کہ جب لندن سیکریٹریٹ اور دیگر دفاتر قائم کیے جارہے تھے تو اس وقت برطانوی حکام کہا تھے۔جہاں تک بات منی لانڈرنگ کی ہے تو اگر اس میں حقیقت ہوتی تو ہمارے پاس یعنی ایم کیو ایم کے پاس موجودہ دفاتر سے بڑے اور عالیشان دفاتر ہوتے۔ ہم آج جہاں ایکسپریس فورم میں موجود ہیں، یہاں برطانیہ سمیت دنیا بھر کے لوگ آچکے ہیں، لندن سیکریٹریٹ میں بھی برطانوی حکام آتے رہے، مختلف معاملات و مسائل پر صلاح مشورہ کیا جاتا رہا۔ اس وقت ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی۔

ایک سوال پر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ منی لانڈرنگ کے حوالے سے جو رقم پکڑی گئی ہے وہ ایم کیو ایم سیکریٹریٹ سے ملی ہے، وہ تنظیم کا پیسہ ہے، کسی ایک شخصیت کا نہیں، ہم اپنی تمام ضروریات کے لیے الطاف حسین کی جانب دیکھتے ہیں، یہ بات سب کے علم میں ہے کہ دنیا بھر میں موجود الطاف حسین کے عقیدت مند الطاف بھائی کو لاکھوں روپے بھیجتے ہیں لیکن وہ صرف الطاف بھائی پر نہیں بلکہ ایم کیو ایم پر خرچ ہوتے ہیں، جہاں تک سوال اس بات کا ہے کہ منی لانڈرنگ میں کتنی رقم کا حوالہ دیا جاتا ہے، اس کا اماؤنٹ میرے لیے اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ خود برطانوی حکام مالیت کے بارے میں نہیں بتا رہے، 22 سال میں ایم کیو ایم کے دفاتر پوری دنیا میں قائم کیے گئے، کارکن فنڈ دیتے ہیں، سب پیسہ سیکریٹریٹ میں ہوتا ہے۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ آئندہ ماہ جولائی میں قائد متحدہ الطاف حسین دوبارہ برطانوی پولیس کے روبرو پیش ہونگے تو کیا ایم کیو ایم دوبارہ دھرنے دے گی؟ تو ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ آئندہ ماہ جب قائد تحریک دوبارہ برطانوی حکام کے پاس جائیں گے تو ہم مختلف انداز میں الطاف بھائی سے اظہار یکجہتی کرتے رہیں گے اس کے لیے دھرنا بھی ہوسکتا ہے، ریلیاں بھی نکالی جاسکتی ہیں، نائن زیرو پر جمع ہوکر الطاف بھائی کے لیے نعرے بھی لگائے جاسکتے ہیں۔ کارکن اپنے قائد سے والہانہ محبت کرتے ہیں اور انھیں اس حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا ۔ ہم قائد تحریک سے اظہار یکجہتی کے لیے ہر پُرامن انداز اختیار کریں گے۔

الطاف حسین کے پاسپورٹ اور قومی شناختی کارڈ کے معاملے کے حوالے سے ڈپٹی کنوینر ایم کیو ایم نے کہا کہ حکومت پاکستان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ الطاف حسین جب وقت دیں گے تو ان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کا کام آگے بڑھایا جائے گا۔ اس تمام صورتحال میں حکومت پاکستان نے قائد تحریک کو بطور پاکستانی بھرپور عزت دی ہے۔

ہم اس تمام معاملے مں وزیر اعظم نوازشریف اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے بہت شکر گزار ہیں جنھوں نے بہت مثبت رویہ اختیار کیا، اس کے علاوہ ہم اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے بھی شکر گزار ہیں جنھوں نے کئی بار رابطہ کرکے معاملے میں بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

الطاف حسین کی وطن واپسی کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر انھوں نے کہا کہ قائد تحریک کی وطن واپسی قائد تحریک نہیں بلکہ ہمارے کارکنوں کے فیصلے پر منحصر ہے۔ ڈاکٹر خالد مقبول نے واضح انداز میں کہا کہ ایم کیو ایم حکومت مخالف کسی تحریک کا حصہ نہیں بنے گی، ہم چہروں کی تبدیلی نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں اور نظام کی تبدیلی کے لیے ہم کوششیں کرتے رہیں گے۔



ہمارا روز اول سے یہی موقف ہے کہ چہروں کی تبدیلی سے کچھ نہیں ہوتا ، جب تک نظام نہیں بدلا جائے گا، عام آدمی کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ایم کیوایم ہر صورت میں ملک اور صوبہ سندھ میں امن چاہتی ہے۔

ایم کیو ایم میں متبادل قیادت اور الطاف حسین کے ممکنہ جانشین کے حوالے سے سوال پر انھوں نے کہا کہ ایسے سوال پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ سے اس لیے نہیں پوچھے جائیں گے کیونکہ وہاں سب کو پتہ ہے کہ بڑے لیڈروں کے بعد ان کی اولادیں ہونگی۔ یہ سوال ہم سے ہی بنتا ہے لیکن میں ایک بات واضح کردوں کہ بانی لیڈر اور باقی لیڈرمیں بہت فرق ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ قائد اعظم تھے، ان کی جگہ قائد ملت نہیں لے سکتے، اس طرح الطاف بھائی کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔

پاکستان میں نفسیات یہ ہے کہ جب تک کوئی قلعے سے جھانکے نہیں اور اپنا دیدار نہ کرائے، اسے لیڈر نہیں سمجھا جاتا۔ ایم کیو ایم قیادت کوگلی کوچے سے لائی ہے،باقی پارٹیوںمیں ایسا کوئی نہیں۔ الطاف حسین کے بعد عظیم طارق چیئرمین رہے، ڈاکٹرعمران فاروق سیکریٹری تھے، قائد تحریک کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا، بھائی چھوٹے بڑے ہوسکتے ہیں لیکن وہ باپ نہیں بن سکتا۔ الطاف بھائی موجود ہیں، ان کے بعد کون ہوگا کیسے ہوگا ، اس کا فیصلہ وقت ہی کرے گا؟۔

ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ جو کارکن یا لیڈر معطل ہوتے ہیں، انھیں خوشی کے موقع پر بحال کیا جاتا ہے، بشرطیکہ اس نے کوئی سنگین جرم نہیں کیا ہو۔ معطل کارکنوں کی بحالی کے حوالے سے فی الحال کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا، تنظیمی غلطیوں پر ہونے والی معطلی تو ختم ہوسکتی ہے لیکن اگر کسی نے سنگین جرائم کا ارتکاب کیا ہو تو اس کی پارٹی میں جگہ نہیں بنتی۔

متحدہ قومی موومنٹ کی تنظیمی تبدیلیوں کے سوال پر انھوں نے کہا کہ پارٹی میں تبدیلی ایک معمول کی کارروائی ہے۔انتخابی عمل ہماری پارٹی میں چلتا رہتا ہے، مختلف کمیٹیوں کے الیکشن ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہر شخص امیدوار بھی ہوتا ہے اور ووٹر بھی، آج کل سیکٹر اور یونٹ کی سطح پر انتخابی مراحل چل رہے ہیں۔ میڈیا میں یہ سب چیزیں اس لیے نہیں لائی جارہیں کیونکہ ان سے متعلقہ افراد کے حوالے سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ الطاف بھائی بھی نہیں چاہتے کہ کوئی شخص اتنا نمایاں ہوجائے کہ اسے نقصان ہوجائے۔

ایک سوال پر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ 1992ء میں الطاف بھائی نے مرکزی کابینہ ختم کردی تھی تاکہ اراکین کو تحفظ مل سکے۔اس کے بعد سے لیکر آج تک پرویز مشرف کے ایک بہت اچھے دور کے باوجود الطاف بھائی نے وہ کابینہ والی صورتحال نہیں پیدا کی کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ جس شخص کو نمائندگی دی جائے ، وہ اتنا سامنے آجائے کہ اس کے گرد سازشوں کا جال بچھ جائے اور کوئی مسائل ہوں۔

الطاف حسین 22 سال سے ملک سے باہر ہیں اور ملک چلارہے ہیں، الطاف بھائی کے حوالے سے کوئی خواہش خبر نہیں بن سکتی، انھوں نے کہا کہ الطاف بھائی نے جیلیں بھی گزاریں، وہ جیلوں سے حکم نہیں دیتے تھے بلکہ مشورے دیتے تھے۔ 1978، 1986 اور 1987 میں الطاف بھائی جیلوں میں رہے اور وہاں سے بھی پارٹی کو اپنی رائے دیتے رہے، آج بھی الطاف بھائی کے ویژن کے عین مطابق پارٹی کام کررہی ہے۔

ایم کیو ایم کے پاس بہت سارے ایم این ایز اور ایم پی ایز ہیں مگر ان میں سے بہت سوں کو الطاف حسن صحیح طرح جانتے بھی نہیں، الطاف حسین کسی قسم کے فیصلے نہیں کرتے بلکہ رائے دیتے ہیں اور الطاف حسین کی رائے ہمارے لیے حکم کا درجہ رکھتی ہے۔



اگر ایم کیو ایم میں ڈکٹیٹر شپ ہوتی تو گورنر سندھ بھی الطاف حسین کا بھائی ہوتا اور ناظم کراچی بھی الطاف بھائی کا بھائی ہوتا۔ خواتین کی مخصوص نشستوں پر بھی ایم کیو ایم نے اور خاص طور پر الطاف بھائی نے اپنی بہنوں کو آگے نہیں بڑھایا۔ ایم کیو ایم گراس روٹ لیول کی جماعت ہے اور اس نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں تاہم اس کی مقبولیت میں ہمیشہ اضافہ ہوا ہے۔ کسی بھی بحران میں ایم کیوایم سرخرو ہوکر نکلی ہے اور منی لانڈرنگ کیس میں بھی انشاء اللہ سرخرو ہوگی۔

ایم کیوایم اور پیپلزپارٹی کے تعلقات اور حکومت میں شامل ہونے کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ حالات یہ ہیں کہ شہر کی ماؤں کے مطالبات اتنی نچلی سطح پر آگئے ہیں کہ کیا کیا جائے۔ شہیدوں کی مائیں کہتی تھیں کہ ہمارے بیٹوں کے سروں میں گولی ماردی جاتی تو اچھا تھا۔ بہت مشکل صورتحال تھی، حکومت میں نہ جاتے تو حالات مزید خراب ہوتے۔ حکومت میں جانا شہر اور شہریوں کے لیے ضروری تھا۔

بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے تو ہم کہتے ہیں کہ بنیادی جمہوریت ہونا ضروری ہے کیونکہ وہی اصل جمہوریت ہے، بدقسمتی سے وہ بنیادی جمہوریت اس دور میں ہوتی ہے جب نام نہاد جمہوریت نہیں ہوتی۔ عوام کے مسائل کا حل بھی بنیادی جمہوریت سے ہی نکلتا ہے۔ لوگ گھروں اور گلیوں کے مسائل کے حل کے لیے بے چین ہیں۔ پاکستان کو ایشیا کا ٹائیگر بنانے اور بجٹ کے اعدادو شمار کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ پارہے۔ بہت شور مچایا جاتا ہے کہ ملک میں جمہوریت کا تسلسل ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس جمہوریت کے تسلسل میں امیر تسلسل سے امیر اور غریب تسلسل سے غریب ہوئے ہیں۔

ہماری خواہش ہے کہ جلد از جلد بلدیاتی نظام آجائے لیکن ہم ایسا لولا لنگڑا نظام نہیں چاہتے جسے بیوروکریسی چلارہی ہو۔ایک سوال پر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن حکومت سے باہر آگئے لیکن ان کی پارٹی، ان کے ووٹر، لیڈروں اور کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے،؟ ان کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا؟۔ق لیگ سے حکومت کی بہت پرانی ناراضی ہے لیکن اس کیخلاف بھی ایسا آپریشن نہیں کیا جاتا۔حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ تفریح نہیں، اس کے لیے ایم کیوایم نے ملک کے اسستحکام کے لیے اہنی ساکھ کو داؤ پر لگایا ہے۔ہمارے کارکنوں کے ساتھ جو ہورہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔

بجٹ کے حوالے سے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہم نے تو وفاق کے شیڈو بجٹ کی تیاری کافی پہلے کرلی تھی، حکومت کے سامنے تجاویز اور سفارشات رکھیں جو وہاں سے چیزیں آئیں ان کے مطابق ہم نے بجٹ تیار کیا۔ پھر اس کے بعد حالات کچھ ایسے ہوگئے کہ بجٹ کی آمد سے صرف ایک روز قبل ہی شیڈو بجٹ پیش کیا جاسکا، یہ یقینی طور پر ہماری کوتاہی ہے تاہم مستقبل میں اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ بجٹ کی آمد سے کافی پہلے ایم کیو ایم اس حوالے سے اپنی تجاویز عوام کے سامنے لائے تاکہ حکومت ان تجاویز کو بجٹ میں شامل کرے اور یہ نہ کہہ سکے کہ انھیں پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں نے تجاویز نہیں دیں۔



انھوں نے کہا کہ جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں ایک فیصدکمی کردی جائے تو اس کا عام آدمی کو فائدہ پہنچے گا، اس وقت ملک میں مہنگائی، بیروزگاری کی شرح میں ہولناک اضافہ ہورہا ہے جس کو روکنے کے لیے بروقت اقدامات نہ کیے گئے توسب کا نقصان ہوگا۔ ہر مہذب اور تعلیم یافتہ ملک میں باعزت وہ ہوتے ہیں جو ٹیکس دیتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں معاملہ الٹا ہے۔ سیلز ٹیکس کم کیا جاتا تو اس سے عوام کو بہت فائدہ ہوتا۔ تحریک انصاف کی جانب سے ایم کیوایم کے خلاف دائر درخواستوں کو برطانوی حکومت کی جانب سے خارج کرنے اور نفرت آمیز تقاریر کے حوالے سے تحقیقات نہ کرنے کے فیصلے پر ایم کیو ایم کے لائحہ عمل کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ہم صرف اللہ کا شکر ادا کریں گے۔

امین الحق ( رکن رابطہ کمیٹی، ایم کیو ایم)

ٰایم کیوایم مکمل ڈسپلن کی پارٹی ہے، ڈپٹی کنوینر ہیں اور پھر اراکین رابطہ کمیٹی ہیں، وہ سب فیصلے کرتے ہیں۔ حق پرست اراکین کے فنڈ کو اولیت دیے جانے کا وعدہ کیا گیا تاکہ سندھ کے شہری عوام کو ریلیف فراہم کیا جاسکے، اسی لیے ایم کیو ایم حکومت میں شامل ہوئی،لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ غریبوں کو ریلیف دینا حکومت کی اولین ذمے داری ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے کام کرے جن سے عام آدی کا بھلا ہو۔

انھوں نے کہا کہ آئندہ بھی بلدیاتی الیکشن میں عوام نے ایم کیو ایم پر اعتماد کیا تو متحدہ قومی موومنٹ اپنے ماضی کی طرح شہر اور شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ شہروں کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں کے عوام کو بھی تمام بنیادی سہولتیں، صحت، تعلیم اور امن وامان شامل ہیں، حاصل ہو۔ ایم کیو ایم غریبوں اور متوسط طبقے کی نمائندہ جماعت ہے جو اس ملک کے تمام لوگوں کے لیے مساوی حقوق کی جدوجہد کررہی ہے اور یہ قائد تحریک الطاف حسین کا ہی ویژن ہے جس نے ایم کیو ایم کو ملک بھر میں تیزی سے مقبولیت اور پذیرائی بخشی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔