اجتماعی خودکشی کی جانب ایک اور قدم

اگر امید کی کوئی کرن ہے تو وہ ہے قدرتی شمسی و بادبانی توانائی


Wasat Ullah Khan March 23, 2024

ہم ہر سال پانچ موسموں سے گذرتے ہوئے تواتر سے کہتے ہیں۔یار اس بار جتنی سردی پڑ رہی ہے پہلے کبھی نہیں پڑی ، گرمی نے تو گزشتہ سال کا ریکارڈ بھی توڑ دیا ، اتنی بارش تو میں نے کبھی اپنے ہوش میں نہیں دیکھی ، ایسی اجڑی بہار پہلی بار دیکھی ہے ، خزاں بھی مزے دار نہیں۔ ہم ہر سال یہ تمام جملے ہزاروں برس سے دوہرا رہے ہیں۔

لیکن اب واقعی شیر آ چکا ہے۔ زمین اور آسمان نے گزشتہ پانچ سو برس کی ہوس ناک مادی حماقتوں کی انسانی اذیت سہتے سہتے اب مکمل بغاوت کر دی ہے اور اس کا دائرہ پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے۔

سالِ گزشتہ معلوم انسانی تاریخ کا گرم ترین سال تھا۔اس دوران کوئی ایک انہونا موسمیاتی واقعہ ہو تو بتایا جائے۔یہاں تو آوے کا آوہ ہی بگڑ گیا۔مثلاً کرہِ شمالی سے لگے کینیڈا کے بارے میں دس برس پہلے کون سوچ سکتا تھا کہ وہاں بھی ریکارڈ توڑ خشک سالی سے ہزاروں ایکڑ جنگلات گرمی کی شدت سے آگ پکڑ سکتے ہیں۔

یہ خشک سالی محض کینیڈا تک محدود نہیں رہی بلکہ اس کا دائرہ کینیڈا سے نیچے ریاستہائے متحدہ امریکا اور مزید نیچے وسطی امریکی ممالک تک پھیلا پڑا ہے۔اس خطے کے لوگوں نے کبھی سرمائی مون سون کا نام نہیں سنا ہو گا۔مگر چونکہ انسان نے اپنی '' ذہانت '' سے موسموں کو بھی پگلا دیا ہے لہٰذا بارشوں کا سلسلہ موسمِ گرما سے سرما کی جانب شفٹ ہو رہا ہے۔

جب کہ نصف براعظم جنوبی امریکا پہلی بار پچھلے چار برس سے اور فرانس اورا سپین کے بیشتر علاقے ، مغربی و وسطی ایشیا اور شمالی افریقہ کے ممالک گزشتہ برس خشک سالی کی لپیٹ میں رہے۔بحیرہ روم میں کبھی کبھار سمندری طوفان آ جاتے تھے مگر اب ان طوفانوں کو اٹلی ، کروشیا اور سلوینیا کے ساحل مسلسل پسند آ رہے ہیں۔جنوبی کرے میں آسٹریلیا میں گزشتہ ستمبر تاریخ کا سب سے خشک ستمبر ثابت ہوا اور نیوزی لینڈ میں جنوری اور فروری کی گرمیاں بے مثال سیلابی و طوفانی وبا اپنے ساتھ لائیں۔

اقوامِ متحدہ کے موسمیاتی ادارے کی تازہ رپورٹ کے مطابق جس طرح دو ہزار تئیس معلوم انسانی تاریخ کا گرم ترین سال رہا۔اسی طرح دو ہزار چوبیس گزشتہ برس کے درجہِ حرارت کا ریکارڈ توڑے گا۔اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس اکثر موسمیاتی تبدیلیوں سے نپٹنے کے سلسلے میں اجتماعی عالمی بے حسی پر مرثیہ کناں رہتے ہیں۔

انھوں نے تازہ رپورٹ پر تبصرہ کیا ہے کہ کرہِ ارض پر بالاخر لال بتی روشن ہو چکی ہے۔ہم جو ایندھن اندھا دھند استعمال کر رہے ہیں اس کے نتائج اس قدر قابو سے باہر ہو چکے ہیں کہ سبز بتی شاید اب کبھی روشن نہ ہو۔اگر سرخ نشان کو ہم دو ہزار تیس تک زرد کرنے میں ہی کامیاب ہو جائیں تو سمجھو بہت بڑا کارنامہ ہو گا۔

دو ہزار پندرہ کی پیرس ماحولیاتی کانفرنس میں اقوامِ عالم نے اجتماعی طور پر اگلے پندرہ برس میں عالمی درجہ حرارت میں ڈیڑھ درجہ سنٹی گریڈ تک کمی کے لیے جن ہنگامی اقدامات کا وعدہ کیا تھا۔وہ ہدف بھی کھڑکی سے باہر پھینک دیا گیا ہے اور صرف نو برس میں عالمی درجہِ حرارت ڈیڑھ سنٹی گریڈ اضافے کی سوئی چھو رہا ہے۔

عالمی موسمیاتی ادارے کی سربراہ سلیستی ساؤلو کا کہنا ہے کہ وہ اب عالمی ریڈ الرٹ کا اعلان کرنے پر مجبور ہو چکی ہیں۔بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے بچنے کے لیے مزید تیل استعمال ہو گا اور اس کے نتیجے میں گرمی کے مزید خوفناک ریکارڈ قائم ہوں گے۔وہ وقت دور نہیں کہ یہ کرہ ِ ارض ہی چھوڑنا پڑ جائے۔ جہاں آٹھ ارب سے زائد انسان ڈوبتے ہوئے جہاز پر سوار ہوں اور ان کی کوئی تعمیری و مثبت رہنمائی کرنے والا بھی نہ ہو ہر گذرتے پل کے ساتھ بقا کی کشتی کا بوجھ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس کوئی دن ایسا نہیں گذرا جب کرہِ ارض کا ایک تہائی سمندر غیر معمولی طور پر گرم نہ ہوا ہو۔پورے سال میں نوے فیصد سمندری پانی گرمی کی غیر معمولی لہر سے گذرا ہے اور یہ سلسلہ بچی کھچی سمندری حیات کی بقا کے لیے قیامت کی گھڑی ہے۔

عالمی موسمیاتی ادارہ گلیشیرز کے پگھلاؤ کا ریکارڈ چوہتر برس سے مرتب کر رہا ہے۔ادارے کے مطابق گزشتہ برس گلیشیرز پگھلنے کی رفتار انیس سو پچاس کے بعد کسی بھی سال میں سب سے زیادہ رہی۔ صرف دو برس میں یورپ کا الپائن پہاڑی سلسلہ مزید دس فیصد برف سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہاتھ دھو بیٹھا ۔انٹارکٹیکا میں اس عرصے میں تاریخی طور پر سب سے کم برف جمی ہے۔چنانچہ برفیلے علاقے میں اس بار فرانس اور جرمنی کے مجموعی رقبے سے زیادہ علاقے میں برف پگھلی ہے۔

یعنی مزید ارب ہا ٹن برف پگھل کے پانی بن گئی ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ سطح ِ سمندر میں اضافہ مسلسل ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو ممالک جزائر پر مشتمل ہیں وہ صفحہِ ہستی سے غائب ہونے کے سفر میں ایک قدم اور بڑھا چکے ہیں۔ پچھلے ایک عشرے میں سطح سمندر میں اضافے کی رفتار دوگنی ہو چکی ہے۔

اس ماحولیاتی ابتری سے ماحولیاتی ہجرت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور اگلے چھ برس میں گھر بار چھوڑنے والوں کی تعداد دوگنی ہو سکتی ہے۔چنانچہ بے روزگاری کا بوجھ بھی دوگنا ہو جائے گا اور یہ کروڑوں بے روزگار زندہ رہنے کے لیے مزید قدرتی وسائل استعمال کرنے پر مجبور ہوں گے۔یوں درجہِ حرارت مزید بڑھے گا۔ کاشت کا موسم بدلنے سے خوراک کی قلت ایک نئے مرحلے میں داخل ہو جائے گی۔دو ہزار بیس تک کووڈ سے پہلے ڈیڑھ سو ملین انسان غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہے تھے۔اب یہ تعداد تین سو تینتیس ملین نفوس کی حد عبور کر چکی ہے۔

اگر امید کی کوئی کرن ہے تو وہ ہے قدرتی شمسی و بادبانی توانائی۔اس کی پیداوار میں گزشتہ برس دو ہزار بائیس کے مقابلے میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ۔اگر اگلے پانچ برس میں توانائی کی سو فیصد عالمی ضروریات قدرتی روشنی اور ہوا سے پورا کرنا ممکن ہوا تو شاید کرہِ ارض مکمل تباہی کی کھائی میں گرتے گرتے کنارے تک پہنچ کے اچانک رک جائے۔مگر فطرت سے مسلسل کھلواڑ کرنے والی دنیا اگر اجتماعی خود کشی پر تل ہی چکی ہے تو شاید اوپر والا بھی تادیر نہ بچا پائے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں