جرات مندو تمہیں سلام
تھوڑا ہی عرصہ گزرا ہے جب مہران ائیر بیس پر حملہ ہوا ، اب پھر وہی کہانی دہرائی گئی
تھوڑا ہی عرصہ گزرا ہے جب مہران ائیر بیس پر حملہ ہوا ، اب پھر وہی کہانی دہرائی گئی اور ایئرپورٹ جیسی حساس جگہ پر۔حملہ آوروں کے بھارتی اسلحے کے استعمال نے یہ بات بھی ثابت کردی ہے کہ اس کارروائی کے پیچھے کن کا ہاتھ ہے ۔
ان دونوں سانحات کے بعد سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر اس قدر اہم ترین جگہوں پر چاروں طرف سیکیورٹی فورسز کو کیوں نہیں تعینات کیا گیا ؟ ایک واقعہ ظہور پذیر ہوجانے کے بعد تو زیادہ احتیاط کی ضرورت تھی کہ آیندہ کسی غفلت سے پاکستان کے دشمن فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ جو لوگ ایئرپورٹ آتے جاتے ہیں،انھیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ پہلوان گوٹھ سے جو راستہ ایئرپورٹ کی سمت جاتا ہے وہاں حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر تھے دشمن انھی جگہوں کو اپنے استعمال میں لاتا ہے اور مجرمانہ غفلت سے بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھاتا ہے۔
اگر فوج مددگار نہ ہوتی تو آج پاکستان اپنے اختتام کی حد تک پہنچ جاتا ، فوج کی جواں مردی، حب الوطنی، نیک نیتی، جذبۂ شہادت کو پاکستان کا ہر شہری سلام پیش کرتا ہے، ہر برے وقت میں جب امید کے دیے ٹمٹما رہے ہوں، فوج انھیں بجھنے سے بچاتی ہے ، آندھی ہو یا طوفان، زلزلہ ہو یا سونامی فوج کے جوان اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور اللہ کی مدد سے برے وقت کو اچھے وقت میں بدل دیتے ہیں۔
ایئرپورٹ کے واقعے میں بھی سیکیورٹی فورسز نے ہی دشمن کے حملے کو پسپا کیا اور انھیں موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ سرحدوں کی حفاظت کرنے والے عظیم سپاہیوں کو ملک کے اندرونی حالات میں ملوث کرنا دانشمندی نہیں۔ متاثرہ اداروں کی اپنی بھی حکمت عملی اور دور اندیشی ہونی ضروری ہے اس قدر لاپرواہی ملک کے مفاد کے لیے نقصان دہ ہے، غلطیاں خود کرتے ہیں اور نمٹنا فوجی جوانوں کو پڑتا ہے، ہمارے بہت سے فوجی شہید ہوجاتے ہیں، بے شک شہادت ایک بڑا مرتبہ ہے، جو قسمت والوں کو نصیب ہوتا ہے، ہر کسی کا مقدر نہیں بنتا ہے۔
بڑے بڑے لوگوں اور صحابہ کرام کی خواہش تھی کہ وہ شہادت کے درجے پر پہنچ جائیں لیکن ان کی تمنا پوری نہ ہوسکی، صحابی رسولؐ حضرت خالد بن ولید جنھوں نے جنگ کے مواقعوں پر ہمیشہ دشمن کو پسپا کیا اور انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیف اللہ کا خطاب عطا کیا ان کی بھی آرزو پوری نہ ہوسکی۔
شہید ہونے والے تو دائمی زندگی پالیتے ہیں لیکن ان کے لواحقین ساری عمر غمزدہ رہتے ہیں کہ ان کا ''اپنا''اب ان میں نہیں ہے لیکن اس بات پر وہ فخر کرتے اور خوشی سے پھولے نہیں سماتے ہیں کہ ان کا اپنا شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوگیا، ایئرپورٹ کے واقعے میں بھی 21 شہادتیں ہوئیں اور تمام دہشت گرد بھی اپنے انجام کو پہنچے، پروازیں بھی بحال ہوگئیں جو جانی و مالی نقصان ہوا، خوف و ہراس پھیلا، مسافروں کو ذہنی اذیت کا سامنا اور فضائی سروس کو منقطع کرنا پڑا، بے شمار لوگ پریشانی اور دکھ میں مبتلا رہے، 3-2 طیاروں کو بھی نقصان پہنچا، آگ کے شعلوں نے فضا میں سرخی پیدا کردی، دور دور تک آگ اور دھواں پھیلا ہوا تھا۔ سوچنے کی یہ بات ہے کہ اس قسم کے حالات کا ذمے دار کون ہے؟
اگر پچھلے واقعے میں غفلت برتنے والوں کو سزا دی جاتی ، تو آج یہ حالات ہرگز نہ پیدا ہوتے۔ اتنی معمولی سی بات اعلی عہدوں پر فائز حضرات کی سمجھ میں کیوں نہیں آئی؟ کہ ایئرپورٹ کے داخلی راستوں پر تو سیکیورٹی موجود ہے جب کہ پچھلے راستے صاف ہیں اور اللہ نہ کرے کہ کبھی نہ کبھی برے حالات پیدا ہوسکتے ہیں، دہشت گرد فائدہ اٹھاسکتے ہیں، قومی اثاثے کو خسارہ ہوسکتا ہے۔ اب دیکھیے نا انسان گھر تعمیر کرتا ہے تو گھر کی چار دیواری بناتا ہے، ایسا تو کبھی نہیں ہوا کہ ایک راستہ کھلا چھوڑ دیا جائے اور تین دیواریں بنا دی جائیں، چونکہ ہر شخص اتنی عقل رکھتا ہے کہ کھلا ہوا راستہ پورے گھر اور گھر کے افراد کے لیے غیر محفوظ ثابت ہوگا، کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے، چور، ڈاکو آسکتے ہیں، عزت و وقار، جان و مال خطرے میں پڑ سکتا ہے، اسی لیے مضبوط دیواریں باؤنڈری وال کی شکل میں بنائی جاتی ہیں تاکہ سکھ کی زندگی بسر کی جاسکے۔
اسی طرح قومی و حساس اداروں کی حفاظت اور گزرے ہوئے حالات سے عبرت حاصل کی جانی بھی ضروری ہے، ورنہ انسان اور جانور میں کچھ فرق نہیں رہتا ہے، ادنیٰ اور اعلیٰ مخلوق دانائی کے اعتبار سے کبھی برابر ہوئی ہیں؟ کبھی نہیں، ہم اس جانور کو جو پالتو نہیں ہے بار بار منع کرتے ہیں لیکن وہ وہی کام کیے جاتے ہیں جن پر پابندی لگائی جاتی ہے، اس کی مثال بلیاں اور چوہے ہیں، چڑیاں نہیں، چڑیوں نے تو حال ہی میں ہمارے گھر کے اے سی کے اندر گھونسلا بنالیا چونکہ جس راستے سے پائپ جاتا ہے وہ سوراخ کھلا رہ گیا، گھونسلا بار بار ہٹانے کے باوجود وہ اپنا کام کرتی رہیں، یہی اگر انسان ہوتا، خواہ وہ ملازم ہی ہوتا، دوبارہ غلطی نہ کرتا۔ تو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل سلیم سے نوازا ہے اب وہ اگر دماغ کا استعمال نہیں کرتا، تو اس کی اپنی غلطی ہے۔ اپنی کوتاہی پر پردہ ڈالنے کے لیے وہ ہر بار بہانے تراشتا ہے۔
یہ واقعہ یا حادثہ چھوٹا نہیں ہے، سوئے ہوئے لوگوں کو بیدار کرنے کے مترادف ہے۔ ہماری حکومت کے اعلیٰ حکام کا بھی فرض ہے کہ وہ ہر ماہ دو ماہ بعد اہم تنصیبات اور اس کی حفاظت کے لیے حساس اداروں کا دورہ کریں، جہاں کہیں کمزوری نظر آئے تو اس کو دور کرنے کے احکامات صادر کریں، کولڈ اسٹوریج کا واقعہ بھی دل دہلانے والا ہے، ''ایکسپریس'' نیوز کی وجہ سے دوبارہ آپریشن ہوا، سات افراد کی لاشیں بھی ملیں، اور بھی بہت سی خفیہ جگہوں پر لوگوں نے پناہ لی ہے، سول ایوی ایشن کو اپنے فرائض انجام دینے میں کوتاہی نہیں برتنا چاہیے۔اسی غفلت سے اموات میں اضافہ ہوتا ہے۔